ہاتھوں سے لگائی گرہوں کو ایک بار پھر ہماری ریاست کو دانتوں سے کھولنا پڑرہا ہے۔ اسی باعث ریگولر اور سوشل میڈیا پر ان دنوں سب سے مقبول ”لیول پلینگ فیلڈ“ کی اصطلاح ہے۔ اس کا نچوڑ نکالیں تو سادہ لفظوں میں تاثر یہ پھیلایا جارہا ہے کہ آئندہ برس کے جنوری میں جو انتخاب ہونا ہیں تحریک انصاف کو اس میں بطور سیاسی جماعت حصہ لینے سے روک دیا گیا تو یہ انتخاب منصفانہ شمار نہیں ہوں گے۔اس کے علاوہ امید یہ بھی باندھی جارہی ہے کہ انتخابات کو ”شفاف“ ثابت کرنے کے لئے مذکورہ جماعت کے بانی اور قائد عمران خان کو انتخابی مہم کی قیادت کرنے کا موقعہ بھی فراہم کرنا ہوگا۔ پاکستان کی سیاست معمول کے مطابق ہوتی تو مذکورہ بالا مطالبات ہرگز حیران کن سنائی نہ دیتے۔ ہم مگر ایک ”وکھری“ نوعیت کا ماحول بناچکے ہیں۔
جس ماحول کومیں تناظر کی حیثیت میں اجاگر کرنا چاہ رہا ہوں اس کا آغاز میری دانست میں 2013کے انتخاب کے چند ہی ماہ بعد عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں دئے 126دنوں کے دھرنے سے ہوگیا تھا۔ اس میں شدت مگر اپریل 2016میں دھماکے کی صورت نمودار ہوئی جب پانامہ نام کے پیپرز سنسنی خیز انداز میں منظر عام پر آئے۔جو دستاویزات منکشف ہوئیں انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان جیسے غریب ملک کے تقریباََ 500افراد اور گھرانے اپنے دئے واجب ٹیکسوں کو ادا کرنے کے بجائے کاروبار کی بدولت ہوئے منافع کو غیر ملک منتقل کرتے رہے۔ پانامہ دستاویزات میں نمایاں ہوئے کئی نام ہماری حکومتوں کے کلیدی کردار بھی شمار ہوا کرتے تھے۔ نواز شریف کا نام ان میں براہ راست موجود نہیں تھا۔ پانامہ دستاویزات مگر مصر تھیں کہ ان کے قریب ترین عزیزوں حتیٰ کہ بیٹوں اور بیٹی نے بھی ”آف شور کمپنیوں“ میں چھپائی دولت کے ذریعے لندن کے مہنگے ترین علاقے میں فلیٹ خرید رکھے ہیں۔
شریف خاندان سے منسوب فلیٹوں کا ذکر ہوا تو عمران خان پانامہ دستاویزات میں شامل دیگر پاکستانیوں کے نام بھول کر انتہائی لگن سے یہ مطالبہ کرنا شروع ہوگئے کہ ملک کی ا علیٰ ترین عدالت ان دنوں ہمارے تیسری بار وزیر اعظم ہوئے نواز شریف سے ”رسیدیں“ طلب کرے۔بدعنوانی کے خلاف جہاد کے دعوے دار ہمارے بے شمار صحافی بھی اس مطالبے کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ بالآخر چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد ثاقب نثار نے اس ضمن میں قدم اٹھانے کا فیصلہ لیا اور آصف سعید کھوسہ کی قیادت میں بنائے سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے ازخود اختیارات کے تحت تحقیقات کا آغاز کردیا۔
سپریم کورٹ کے ججوں کو ”تفتیش“ کی تربیت نہیں دی جاتی۔ان کا بنیادی فریضہ اپنے روبرو کٹہرے میں بطور ملزم کھڑے کسی شخص کے خلاف ہوئی ”تفتیش “ کا جائزہ لیتے ہوئے ”انصاف“ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ازخود اختیارات کے تحت سپریم کورٹ نے لیکن جب خود ہی مدعی ہونے کا فیصلہ بھی کرلیا تو ”تفتیش“ کے لئے ریاستی اداروں سے رجوع کرنا پڑا۔ اس ضمن میں مختلف اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جو جے آئی ٹی بنائی گئی اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نامزد کردہ افراد بھی شریک ہوئے۔ ان کی کاوشوں سے بالآخر ”اقامہ“ برآمد ہوا اور نواز شریف کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نااہل کردئے گئے۔
تاحیات نااہلی کے بعد نواز شریف کو مسلم لیگ (نون) کی صدارت سے بھی استعفیٰ دینا پڑا۔ بعدازاں ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات چلاکر احتساب عدالتوں سے سزائیں بھی سنوادی گئیں۔ ان سزاؤں کو بھگتنے اپنی ا ہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر سابق وزیر اعظم نواز شریف شریف لندن سے لاہور پہنچ گئے۔ لاہور اترتے ہی انہیں مریم صاحبہ سمیت گرفتار کرلیا گیا۔مسلم لیگ (نون) نے 2018کے انتخابات کی مہم ان کے بغیر چلائی اور اس کی بدولت بہت مشکل سے قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت کی صورت ابھرنے میں کامیاب ہوئے۔
پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف کو 2018سے قبل جس انداز میں ”عبرت کا نشان“ بنایا گیا تھا ویسے ہی حالات کا سامنا ان دنوں ایک اور سابق وزیر اعظم کررہے ہیں۔جی ہاں ذکر عمران خان صاحب کا ہورہا ہے جو ان دنوں جیل میں ہیں۔ ان کے خلاف بے تحاشہ مقدمات قائم ہوچکے ہیں۔میری دانست میں اگرچہ ان کے خلاف مقدمات میں سے اہم ترین ”سائفر“ سے متعلق ہے۔ریاست کے حوالے سے چند معلومات کی ”حساسیت“ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس ضمن میں چلائے مقدمے کی کارروائی ”ان کیمرہ“ہورہی ہے۔فریقین اپنے اپنے موقف کی حمایت میں اس مقدمے کی کارروائی کے دوران جو دلائل دے رہے ہیں اس کے بارے میں ہم قطعاََ لاعلم ہیں۔”حساس دستاویزات“ کی بنیاد پر بنائے مقدمات میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ امریکہ کا ایک سابق صدر ٹرمپ بھی اس بنیاد پر ان دنوں ایک مقدمے کا سامنا کررہا ہے جس کے اختتام پر اس کے خلاف سزا کا سنائے جانا یقینی تصور کیا جارہا ہے۔ جبلی طورپر بطور رپورٹر میں اس خدشے کے اظہار کو مجبور ہوں کہ عمران خان کے خلاف بھی ”سائفر“ کے حوالے سے کڑی سزا سنائی جاسکتی ہے۔اگر ان کے خلاف سزا سنا دی گئی تو وہ جیل میں ہونے کے سبب تحریک انصاف کی انتخابی مہم کو جارحانہ انداز میں چلانہیں پائیں گے۔ انتخابی اکھاڑے سے ان کی عدم موجودگی تاہم اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے ماحول میں مسلم لیگ (نون) کے حامیوں کو ”ناانصافی“ محسوس نہیں ہوگی۔ہم سے بحث کرتے ہوئے بلکہ سینہ پھلاکر یاد دلائیں گے کہ ان کی جماعت بھی 2018کی انتخابی مہم کے دوران نوازشریف اور مریم نواز جیسی عوام میں مقبول قیادت سے محروم رکھی گئی تھی۔ اب کی بار یہ واقعہ اگر عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے تو اس کے بارے میں تحریک انصاف والے اتنا واویلا کیوں مچارہے ہیں۔
فرض کیا کہ انتخاب کو ”صاف،شفاف اور منصفانہ“ دکھانے کے لئے اگر ریاست نے بالآخر عمران خان کے ساتھ کسی نوعیت کا ”مک مکا“ کرتے ہوئے انہیں جیل سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد انتخابی مہم کی قیادت کی سہولت فراہم دی تو نواز شریف کے حامی یہ کہتے ہوئے سینہ کوبی شروع کردیں گے کہ عمران خان ”مقتدرقوتوں“ کا ہمیشہ سے ”لاڈلا“رہا ہے۔ اسی باعث 9مئی اور سائفر جیسے واقعات ہونے کے باوجود اسے ”مظلوم“ بناکر انتخابی میدان میں اتاردیا گیا ہے تاکہ وہ بھاری اکثریت سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئے۔ایسے حالات میں ریاست کرے تو کیا کرے؟۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ