اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد وزیر اعظم عمران خان صاحب اتوار کے روز پہلی بار کراچی پہنچے۔وہاں پورا دن گزارنے کے بعد ڈیموں کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے شہر کراچی کے دیرینہ مسائل کا ذکر کیا۔ اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی لہر اس حوالے سے ان کی توجہ کی خاص مستحق رہی۔ اس لہر کا ذمہ دار انہوں نے ان برمی اوربنگلہ دیشی افراد کو ٹھہرایا جو غیر قانونی طورپر اس شہر میں کئی برسوں سے مقیم ہیں۔
ایمان داری کی بات ہے کہ اس ضمن میں ان کے خیالات سنتے ہوئے مجھے ٹرمپ کی غیر ملکی تارکینِ وطن سے نفرت یاد آگئی۔ یورپ کے کئی ممالک میں بھی وہاں بڑھتے ہوئے جرائم کا اصل ذمہ دار غیر ملکی تارکینِ وطن کو ٹھہرایا جارہا ہے۔اس بنیاد پر شدید ہوتی نسل پرستی بلکہ ان دنوں یورپی سیاست میں کامیابی کی کلید تصور کی جارہی ہے۔حال ہی میں سویڈن جیسا انسان دوست معاشرہ بھی ایک نسل پرست سیاسی جماعت کی کامل حکمرانی سے بال بال بچا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم مگر صوفی مزاج ہوچکے ہیں۔ بابافرید کے چاہنے والے ہےں۔ شاید اسی باعث انہوں نے صلہ¿ رحمی کا وطیرہ اختیار کیا اور یہ اعلان کہ اسلام آباد لوٹتے ہی وہ کراچی میں کئی برسوں سے مقیم برمی اور بنگلہ دیشی باشندوں کو پاکستانی شہریت فراہم کرنے کا انتظام ڈھونڈیں گے۔شاید اس شہر میں کئی برسوں سے مقیم افغان باشندوں کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ اختیار کیا جائے گا۔
خان صاحب کی سیاست کے چند پہلوؤں سے ہزارہااختلافات کے باوجود میں ان کے مذکورہ فیصلہ کا خیرمقدم کرنے پر مجبور ہوں۔ اگرچہ مجھے خدشہ ہے کہ جلد ہی یہ سوال اُٹھ کھڑا ہوگا کہ فقط کراچی ہی میں آباد غیر ملکی تارکینِ وطن کے ساتھ ہی ایسی ”فیاضی“ کیوں برتی جارہی ہے۔کئی دہائیوں سے خیبرپختونخواہ میں مقیم افغان باشندوں کو جو اپنے ملک لوٹنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں پاکستان کی شہریت فراہم کیوں نہیں کی جاسکتی۔ اس شرط کے ساتھ کہ پاکستان کا قومی شناختی کارڈ حاصل کرلینے کے بعد وہ خود کو ”افغان مہاجر“ کہلوانا چھوڑ دیں۔
مہاجرین کی آبادکاری کے لئے قائم غیر ملکی ادارے حکومتِ پاکستان سے مذاکرات کے بعد انہیں یکمشت اتنی رقم ادا کرسکتے ہیں جو ان کی پاکستان میں مستقل بنیادوں پر باعزت آباد کاری میں آسانیاں پیدا کرے۔
یہ بات کرتے ہوئے لیکن مجھے خوف ہے کہ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کے دیرینہ ووٹر اورمقامی رہ نما ایسے فیصلے کی مخالفت کریں گے۔ ان کی اکثریت اپنے صوبے میں مقیم افغان مہاجرین سے نالاں نظر آتی ہے۔ انہیں جرائم میں اضافے کے علاوہ تخریب کاری کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے۔ کئی ایسے چھوٹے کاروبار ہیں جہاں افغان مہاجرین نے مقامی آبادی کو قطعاََ پچھاڑڈالا ہے۔
خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کے ووٹروں اور مقامی رہ نماؤں کے خوف سے عمران خان صاحب نے فقط کراچی میں مقیم افغان،برمی یا بنگلہ دیشی افراد کو پاکستانی شہریت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تو نام نہاد ”سندھ کارڈ“ زندہ ہوجائے گا۔ ڈیموں کی تعمیر اور اس حوالے سے کالا باغ ڈیم کا ذکر اس کارڈ کو پہلے ہی تحرک فراہم کرچکا ہے۔
25جولائی 2018ءکے انتخابات کے بعد بلوچستان کے اختر مینگل نے تحریک انصاف کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔ اس حمایت کے لئے انہوں نے جو 6نکاتی ایجنڈا مرتب کیا اس میں بلوچستان میں افغانوں کی آبادکاری ایک اہم ترین نکتہ تھا۔ خان صاحب کی حکومت نے بلوچستان میں مقیم افغان باشندوں کے لئے وہی سہولیات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا جو کراچی میں مقیم غیر ملکی تارکینِ وطن کے لئے سوچاجارہا ہے تو بلوچ قوم پرستوں کو بھی اپنا احساس محرومی اجاگر کرنے کے لئے ایک اور ٹھوس جواز مل جائے گا۔
غیر ملکی تارکینِ وطن کے لئے پاکستان کے قومی شناختی کارڈ کی فراہمی اور ووٹ کاحق مگر کراچی تک ہی محدود رکھا نہیں جاسکتا۔ ایسا فیصلہ ہوا تو اندرونِ سندھ سے آوازیں اُٹھیں گی جو یہ دہائی مچاتی سنائی دیں گی کہ سندھی بولنے والوں کی ان کے اپنے صوبے میں آبادی کو اعدادوشمار کا کھیل کھیلتے ہوئے کمتر دکھانے کی کوشش ہورہی ہے۔اسی خدشے کے باعث 70ءکی دہائی میں ان بدنصیب بہاریوں کی پاکستان میں آباد کاری کا بندوبست نہیں ہو پایا تھا جو قیامِ بنگلہ دیش کے بعد بھی خود کو ”پاکستانی“ کہلوانے پر بضد رہے۔ انہیں کیمپوں میں محصور کردیا گیا تھا۔
اصولی طورپر مرحوم مشرقی پاکستان میں آباد بہاری دوقومی نظریے کی بنیاد پر اپنے آبائی شہر اور قصبات چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد انہیں ”نئے پاکستان“ میں بسانا ہماری اخلاقی ذمہ داری تھی۔ہم بحیثیتِ قوم یہ ذمہ داری نبھانے میں مکمل طورپر ناکام رہے مگر آج بھی ڈھٹائی کے ساتھ خود کو ”نظریہ پاکستان“ کے چمپئن کہلوانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔
بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کی اذیتوں کا ذمہ دار ہم نے ”متعصب قوم پرستی“ کو ٹھہرایا تھا۔ اس کے بعد مگر دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک قوم تصور کرنے والے غازی ضیاءالحق شہید کی حکومت بھی تو آئی تھی۔ مرحوم نے 30 لاکھ کے قریب افغانوں کے پاکستان میں رہنے کا بندوبست کیا۔ افغان مہاجرین کی پاکستان میں قیام کو ممکن بنانے کے لئے عالمی اداروں نے کروڑوں ڈالر فراہم کئے۔ سعودی عرب،کویت اور قطر جیسے ممالک نے بھی خطیر رقوم فراہم کیں۔افغان جہاد کے دنوں میں سینہ پھلاکرہم مگر خود کو لاکھوں مہاجرین کے پناہ مہیا کرنے کی بنیاد پر ”انصارِ مدینہ“ کی بنائی روایتوں کے امین کہتے رہے۔یہ دعویٰ کرتے ہوئے ہم نے کبھی بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے بارے میں ہرگز نہ سوچا جن کی تعداد کسی بھی صورت 5 لاکھ سے زیادہ نہیں تھی۔
ہم ان محصور پاکستانیوں کو اپنا نہ پائے تو صرف اس لئے کہ افغان مہاجرین کی مدد کے نام پر جو غیر ملکی امداد میسر تھی اس کا ایک فی صد بھی بہاریوں کی پاکستان میں آباد کاری پر خرچ نہیں کیا جاسکتا تھا۔افغان مہاجرین کے پاکستان میں کیمپ عالمی میڈیا میں ہماری PR بہتر بنانے میں بھی بہت مدد گار ثابت ہورہے تھے۔
ماضی کے تلخ حقائق بھلاکراصولی بنیادوں پر پاکستان میں برسوں سے مقیم تارکینِ وطن کو پاکستانی شہریت فراہم کرنے کا فیصلہ ایک انسان دوست فیصلہ ہے۔ میں ذاتی طورپر خلوص نیت سے اس فیصلے کا بھرپور حامی ہوں۔ربّ کریم سے اگرچہ فریاد ہے کہ وزیر اعظم اپنے اس فیصلے کے عملی نفاد کے لئے بھی تیار رہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ