منگل کے روز کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کا اجلاس ہوا تو اس میں طے ہوئے فیصلوں کی بریفنگ کے لئے وزیر خزانہ جناب اسد عمر صاحب نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے وزیر مخدوم خسروبختیارصحافیوں کے روبروآئے۔ بجلی میں اضافہ نہ کرنے والی خوش خبری سنانے کے بعد ان کی پریس کانفرنس کا رُخ CPECکے تحت چلائے منصوبوں کی جانب مڑگیا۔ یہ بات عیاں ہوگئی کہ ان منصوبوں پر نظرثانی کے بعد تحریک انصاف انہیں اپنی ترجیحات کے مطابق چند نئی صورتیں دینے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ نظربظاہر چین نے بھی ان کی تجاویز کو خوش دلی سے مان لیا ہے۔ برسوں سے کئی جہتوں میں پھیلتے اور مسلسل توانا ہوتے پاک-چین تعلقات کے تناظر میں ایسا ہونا ممکنات میں شامل تھا۔ اہم ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ ان منصوبوں کو فقط گزشتہ حکومت کا ورثہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا گیا ہے۔ ایک حوالے سے عمران خان صاحب کی حکومت نے بھی اب انہیں Ownکرلیا ہے۔
ہم صحافیوں کا ذہن مگر دو میں دو جمع کرکے کوئی وکھرا نتیجہ نکالنے کا عادی ہوتا ہے۔ حکومت سنبھالتے ہی تحریک انصاف کو ہماری اس علت کاشدت سے احساس ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ہر بات پر کیڑے نکالنے کے ”عادی صحافیوں“ کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ جن اداروں کے لئے یہ منفی ذہن والے کام کرتے ہیں ان سے ر وابط استوار ہوچکے ۔ ان رابطوں کے مثبت اثرات جلد نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ پہلے مرحلے میں ٹی وی سکرینوں کو ایسے ذہنوں سے صاف کیا جائے گا۔ ایسے موسم میں ”نخل دار“ پہ سرِ منصور کی طرح میرا بھی سرآجایا کرتا تھا۔ امید ہے کہ اس بار ایسا نہیں ہوگا۔ کیونکہ صحافت کے شعبے میں اتنے برس گزارنے کے بعد میں ”وہی اندازپرانے….“ کے مطابق چلنے کے قابل ہی نہیں رہا۔
ذہن اگرچہ سوچنے کی علت میں اب بھی مبتلا ہے۔ مخدوم خسروبختیار کی پریس کانفرنس سنتے ہوئے مسلسل خیال آتا رہا کہ موصوف کی پریس کانفرنس ختم ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد پاکستانی وزیر خارجہ کی واشنگٹن میں اپنے ہم منصب سے ملاقات ہونا ہے۔ جس شخص سے ہمارے وزیر خارجہ کی ملاقات پاکستانی وقت کے مطابق رات 11:30پرطے تھی،عمران حکومت کے قیام کے چند ہی دن بعد ایک امریکی ٹی وی پر نمودار ہوا۔ CPECکے بارے میں اس سے سوال ہوا جس کے جواب میں بہت رعونت سے اس نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان IMFسے کوئی بیل آؤٹ پیکیج مانگنے آیا تو امریکہ ”اپنے ڈالر چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے خرچ نہیں ہونے دے گا۔“
اس انٹرویو کے چند روز بعد امریکی وزیر خارجہ 5گھنٹے کے لئے پاکستان بھی آیا۔ہمارے وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد پاک -امریکہ تعلقات کو Re-Setکرنے کا عندیہ دیا اور بھارت روانہ ہوگیا۔اس کے چند روز بعد چین کے وزیر خارجہ پاکستان تشریف لائے۔ ان کے پاکستان میں قیام کے دوران وزیر اعظم کے ایک انتہائی بااعتماد مشیر رزاق داؤد نے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو CPECکے بارے میں چند کلمات کہے۔ داؤد صاحب کے بقول ان کے جملوں کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ CPECپر نظرثانی کا پیغام مگر کافی موثر انداز میں عالمی مالیاتی اداروں تک پہنچ گیا۔ مخدوم خسروبختیار کی پریس کانفرنس سنتے ہوئے دل میں یہ خیال کھٹکتا رہا کہ ہمارے وزیر خارجہ کی اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کے وقت سے چند ہی گھنٹے قبل شاید دنیا کو بتایا جارہا ہے کہ نئی حکومت کی کابینہ نے بہت سوچ بچار کے بعد CPEC کے حوالے سے چند Correctiveاقدامات اٹھالئے ہیں۔ IMFوغیرہ کو اب ان کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
اپنے تئیں مذکورہ بات سوچتے ہوئے دل میں یہ امید بندھی کہ شاہ محمود قریشی صاحب کی مائیک پومپیو سے ملاقات اب کامیاب رہے گی۔ رات سونے سے قبل انٹرنیٹ چیک کیا تو اس ملاقات کے بارے میں کوئی خبر لیکن دیکھنے کو نہیں ملی۔صبح اُٹھا تو معلوم ہواکہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اس ملاقات کے بار ے میں پریس ریلیز جاری ہوچکی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پریس ریلیز میں پاکستانیوں کی تسلی کے لئے وہ باتیں تفصیل سے بیان ہوئیں جو وزیر خارجہ نے ہمارے قومی موقف کی ترجمانی کے لئے پرزور انداز میں کہی ہوں گی۔
عموماََ امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کرنے والا مہمان اپنی ملاقات کے اختتام پر میزبان کے ساتھ کھڑا ہوکر لابی میں منتظر صحافیوں کے ایک دو سوالوں کے جواب دیتا ہے۔ بسااوقات ایسی ملاقاتوں کے اختتام کے بعد کوئی مشترکہ بیان نما پریس ریلیز بھی جاری ہوجاتی ہے۔
منگل کی رات ہوئی ملاقات کے بعد ایسا دیکھنے کو نہیں ملا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے کیمروں کے سامنے فقط مسکراتے ہوئے ایک دوسرے سے رسمی مصافحہ کیا۔ بدھ کی صبح یہ کالم لکھنے سے قبل میں نے امریکی وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ بھی دیکھی۔ وہاں اس ملاقات کے بارے میں کوئی پریس ریلیز موجود نہیں تھی۔ شاید امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان اپنی معمول کے مطابق ہوئی بریفنگ کے دوران اس ملاقات کے بارے میں کچھ کہے۔
پاک-امریکی وزرائے خارجہ کے درمیان ہوئی ملاقات کے بارے میں فقط ہماری جانب سے جاری ہوئی پریس ریلیز پراکتفا کرتے ہوئے اس کے بارے میں کوئی رائے دینا ممکن نہیں۔ اس ملاقات کا Pattern مگر یہ عندیہ دے رہا ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن اپنے تعلقات کو یقینا Re-Setکرنے پر آمادہ ہیں۔ Resetکی صورتیں مگر طے نہیں ہوپارہیں۔ انہیں طے کرنے کےلئے مزید وقت درکار ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ