روس میں انقلاب آنے سے قبل وہاں کی کمیونسٹ پارٹی دو حصوں میں منقسم تھی۔ بالشویک اور منشویک۔بالشویک روسی زبان میں اقلیت کو کہتے ہیں اور روسی کمیونسٹوں کے اس گروہ کے سربراہ کانام لینن تھا۔سیاسی حرکیات کا ذہین ترین ماہر ہوتے ہوئے انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ مگر لینن نے کیا تھا۔ منشویک لوگوں کے پاس اس کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہ بچا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد لینن کو ریاستی اداروں کو منظم کرنے کی ضرورت کا احساس ہوا اور اس حوالے سے ”وطنیت“ کی اہمیت بھی دریافت کی۔
ریاستی اداروں کی تشکیل نو اور وطنیت کو مضبوط تر بنانے کے لئے بے تحاشہ سمجھوتے کرنا پڑے۔ ان سمجھوتوں کی وجہ سے کٹر کمیونسٹوں نے اسے ”انقلابی اصولوں“ سے انحراف کا مجرم ٹھہرایا۔ لینن نے الزام لگانے والوںکا منہ بند کرنے کے لئے ایک تاریخی مضمون لکھا۔ ”بائیں بازو کا طفلانہ پن“ اس کا عنوان تھا۔ ”نظریاتی“ انتہاءپسندی کو طفلانہ پن ٹھہراتے ہوئے وہ اپنی ترجیحات کے تحت اپنائے اہداف تک پہنچنے کے لئے بہت ثابت قدمی سے آگے بڑھتا رہا۔اس کی ریاست اور وطن بالآخر اس کی وجہ سے ایک دن دنیا کی دوسپرطاقتوں میں سے ایک ثابت ہوئی۔
ہٹلر کی نازی جماعت کو بھی جرمن پارلیمان میں اکثریت حاصل نہیں تھی۔ اس وقت کے مخصوص حالات میں جرمن صدر اسے حکومت بنانے کی دعوت دینے پرمجبور ہوا۔حکومت سنبھالنے کے چند ہی روز بعد ہٹلر نے سفاکی سے اپنے مخالفین کو کچلنا شروع کردیا اور بالآخر وطن کی شدید محبت میں مبتلا”نظریاتی“ لوگوں کی حکومت قائم کرلی۔ خود کو راہِ راست پر چلنے کے گماں میں مبتلا نازیوں نے بالآخر دُنیا پر دوسری عالمگیر جنگ نازل کردی۔ دنیا تو کسی نہ کسی طرح اس جنگ سے بچ گئی مگر جرمنی شکست کھاکر امریکی جنرل مارشل کی سرپرستی میں اپنے احیاءکو مجبور ہوا۔
تاریخی حوالوں نے اگر آپ کو بور کردیا ہے تو حال ہی میں امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ٹرمپ کا ذکر کرلیتے ہیں۔ انتہائی بدزبان اور نسلی تعصب کا مارا ٹرمپ عوامی ووٹوں کی گنتی میں ہیلری کلنٹن سے ہار گیا تھا۔ امریکی صدر مگر وہاں کے آئین کے مطابق بنائے ”الیکٹورل کالج“ کے ذریعے منتخب ہوتا ہے۔ الیکٹورل کالج کی وجہ سے منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ اپنے مخالفین کو کسی خاطر میں نہیں لیتا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان اور سرکاری افسر نااہل اور بدعنوان ہیں۔امریکہ کو اپنی ”عظمتِ رفتہ“ بحال کرنے کے لئے واشنگٹن میں موجود گندے پانی کے جوہڑ (Swamp)کو صاف کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہ اپنے تئیں مسلسل اس صفائی میں مصروف رہتا ہے۔ ہر دوسرے دن بہت چاﺅ سے لگائے وزیروں اور خصوصی معاونین کو یک دم غصے میں آکر برطرف کردیتا ہے۔ قرار اسے اب بھی نصیب نہیں ہوا ہے۔
امریکی ”عظمتِ رفتہ“ کو بحال کرنے کے جنون میں اس نے بلکہ اپنے ملک کو اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم کردیا ہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد لکھنے والے کئی تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ میں ”نظریاتی“ حوالوں سے شدید خانہ جنگی شروع ہوچکی ہے اور یہ دن بدن کسی خونی تصادم کی طرف بڑھ ہی ہے۔6نومبر کو امریکی قومی اسمبلی جسے وہاں ہاؤس کہا جاتا ہے کے انتخابات ہونا ہیں۔ بہت پریشان ہوئے تبصرہ نگاروں کی شدید خواہش ہے کہ یہ انتخابات ہاﺅس میں ٹرمپ کے مخالفین کو اکثریت دلوائیں تاکہ ٹرمپ کے ”پاگل پن“ پر چیک رکھنے کی کوئی راہ نکل سکے۔
لینن،ہٹلر اور ٹرمپ کے حوالے اس کالم میں پیرکی سہ پہر پاکستان کی قومی اسمبلی میں چند گھنٹے گزارنے کے بعد دینے کو مجبور ہوا ہوں۔وہاں میری تحریک انصاف کی ٹکٹ پر 2018کے انتخابات کے ذریعے پہلی بار قومی اسمبلی میں آنے والے کئی نسبتاََ نوجوان افراد کے ساتھ تعارف کے بعد بات چیت ہوئی۔وہ سب اس امر پر حیران تھے کہ ”چوری اور بدعنوانی“ کے شبے میں نیب کی حراست میں آئے شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اتنے اہتمام کے ساتھ کیوں لایا جارہا ہے۔ ”پرانے پاکستان“ میں گرفتار ہوئے اراکین پارلیمان کو دیا یہ ”حق“ وہ ہضم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ”قومی خزانے کو لوٹنے والوں“ کے ساتھ ”ترجیحی“ سلوک ان کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
ان افراد کے ساتھ گفتگو کے بعد میں اپنے دیرینہ شناسا چودھری فواد سے دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ مجھے گماں تھا کہ موصوف ضرورت سے زیادہ جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر پہلی بار قومی اسمبلی میں آئے لوگوں سے گفتگو ہوئی تو احساس ہوا کہ موصوف اپنی جماعت کی Core Constituencyیا Baseکے دلوں میں موجزن جذبات کی بھرپور نمائندگی کررہے ہیں۔ صرف ان کی ذات کو سخت گیری کا ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں۔ سعودی عرب کے ”کامیاب دورے“ کے بعد وزیر اعظم نے قوم سے جو خطاب کیا تھا وہ بھی اس Baseکے لئے مختص تھا۔ ”چوروں اور لٹیروں“ کو بخشا نہیں جائے گا۔ کوئی NROنہیں ملے گا والی باتیں درحقیقت ان لوگوں کی ترجمانی تھی جن میں سے چند ایک کے ساتھ پیر کی سہ پہر میرا تعارف ہوا اور تھوڑی لمبی گفتگو ہوئی۔
سخت گیر ”نظریاتی“ لوگوں سے گفتگو کے دوران ہی میرے ذہن میں لینن کا بیان کردہ ”طفلانہ پن“ اُبھرا اور میں اس تصور کے اُمڈ آنے سے ہرگز حیران وپریشان نہیں ہوا۔ جن لوگوں سے میری گفتگو ہوئی ان کی نیک نیتی کو سراہتے ہوئے بھی میںاس غصے کو یاد کرنے پر مجبور ہواجس کا اظہار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پیر ہی کی صبح کیا تھا۔ پنجاب کے آئی جی کے ”تبادلے“ کے بعد یہ دوسرا واقعہ ہے جو تحریک انصاف کی Baseکو ان کی Limitsکا احساس دلانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ وہ اس حوالے سے ہوئی سبکی پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرتے ہوئے خوش دلی کے ساتھ ہضم کر پائیں گے یا نہیں۔
یہ بات اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ واشنگٹن کی طرح اسلام آباد سے چلایا ریاستی بندوبست بھی Swampکی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اقبال نے Swampکو ”نظام کہنہ“ قرار دیا تھا۔ ”نظام کہنہ“ کو لیکن پارلیمانی نظام حکومت کے بنائے ضوابط،اصول اور روایات کے ذریعے یکدم تباہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسے تبدیل کرنے کے لئے طویل عرق ریزی کے بعد نئے قوانین اور ضوابط متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت میسر نہیں۔ آئین میں ترامیم کی لہذا کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کی اکثریت ٹھوس صورت میں موجود نہیں۔ یہاں سے کوئی ”انقلابی“ قانون پاس کروابھی لیا جائے تو سینٹ سے منظور کروانا ممکن نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف اپنی ترجیحات کے مطابق نئے قوانین متعارف کروانے کے لئے مگر ”گزشتہ 30سالوں سے باریاں“ لینے والے ”چوروں اور لٹیروں“ پر مشتمل پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پا رٹی سے کوئی سمجھوتہ کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔ یہ تقریباََ وہی انداز ہے جو نواز شریف نے 1996کے انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت یعنی تاریخی اور ہیوی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد اپنایا تھا۔ اس مینڈیٹ کے ہوتے ہوئے بھی نوازشریف ”نفاذِ شریعہ“ کے نام پر اس ملک کے ”امیر المومنین“ نہیں بن پائے تھے۔ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے حصول کے بغیر ہی تحریک انصاف جس نوعیت کا ”انقلاب“ برپا کرنے کو بے چین ہے اس کا حصول ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کی Baseمیں لہذا ”ناکامی“ کا احساس شدید تر ہوتا جائے گا۔ ناکامی کا یہ احساس انہیں مزید اشتعال دلائے گا اور یہ اشتعال کسی نہ کسی صورت ”نظامِ کہنہ“ ٹھہرائے بندوبست کے دائمی پاسداروں سے تصادم کا باعث ہوسکتا ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ