بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو جلسوں کے ذریعے دھواں دار تقاریر اور بڑھکیں لگانے کا شوق ہے۔ پریس کانفرنسوں کے ذریعے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنے خیالات بیان کرنے سے وہ اجتناب برتتا ہے۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے محض چند چہیتے اینکروں کو ون آن ون انٹرویو دئیے۔ ان انٹرویوز میں بھی زیادہ تر سوالات فرمائشی تھے۔ اپنی ”پرفارمنس“ سے وہ اس کے باوجود کئی بار مطمئن نہیں ہوا۔ ذاتی طورپر مجھے کم از کم دو ایسے واقعات کا علم ہے جہاں مودی نے انٹرویو دینے کے بعد اسے دیکھا اور فوری طورپر نئے سوالات تیار کرواکے دوبارہ کیمرے کے سامنے بیٹھ کر ایک اور انٹرویو دیا۔ پہلے انٹرویو کو اپنے سامنے تلف کرواکے نئے کو چلانے کی اجازت دی۔
بھارت کی ہندی بیلٹ میں حال ہی میں صوبائی اسمبلیوں کے جو انتخابات ہوئے ان میں BJPکو شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ اس شکست کی وجہ سے پہلی بار بہت ٹھوس انداز میں یہ پیغام ملا کہ اگر حزب مخالف کی جماعتیں متحد ہوکر کوئی موثر حکمت عملی تیار کرلیں تو آئندہ چار ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں مودی اور اس کی جماعت سادہ اکثریت سے بھی محروم ہوسکتی ہیں۔ایک جبلی سیاست دان ہوتے ہوئے نریندر مودی کو یقینا اس تاثر سے پریشانی لاحق ہوگئی ہوگی۔ میں کئی ہفتوں سے منتظر تھا کہ اس تاثر کو رد کرنے کے لئے وہ کونسا نیا چورن لے کر اپنے لوگوں کے سامنے آئے گا۔
2019کے پہلے روز بالآخر وہ نسبتاََ ایک نئے روپ اور سودے کے ساتھ ٹی وی سکرین پر نمودار ہوا ہے۔ خبررساں ایجنسی ANIکی سمیتا کو ایک طویل انٹرویو دیا۔ سوالات اس انٹرویو میں کافی پیشہ وارانہ مہارت اور آزادی کے ساتھ اٹھائے گئے۔ مودی نے اپنی رعونت والی شہرت کے برعکس ان سوالات کا نسبتاََ دھیمے لہجے میں جواب دیا۔یہ بات عیاں ہوگئی کہ ہندو انتہا پسندی کی بنیاد پر RSSکا بنایا رویہ مودی کے کام نہیں ا?یا ہے۔ واجپائی کی طرح اس کو بھی اب اس رویے سے تھوڑا فاصلہ رکھتے ہوئے کچھ ”معتدل مزاجی“ دکھانا ہوگی۔گائے کی حرمت کے نام پر جو وحشیانہ قتل ہوئے وہ اس کے ووٹوں کو خراب کررہے ہیں۔ معاشی محاذ پر رونق نہیں لگی۔
اسے گماں تھا کہ نوٹ بندی کے ”انقلابی“ قدم سے وہ بھارتی ریاست سے چھپائی ناجائز کمائی کو قومی خزانے میں واپس لے آئے گا۔ نوٹ بندی کی وجہ سے مگر اس کی حکومت اتنی رقم بھی حاصل نہ کر پائی جو نئے نوٹ چھاپنے کے لئے خرچ ہوئی تھی۔ نوٹ بندی کے ”انقلابی“ قدم نے بلکہ سیٹھوں اور خاص کر دوکان داروں میں خوف کی فضا پیدا کردی۔ دھندے میں مندی نے ”بنیا ووٹ“ کو پریشان کردیا جبکہ BJPکی اصل قوت دوکان داروں کے دئیے چندے اور ووٹ پر مبنی ہوا کرتی تھی۔
وحشیانہ ہندو انتہا پسندی کے Blow Backکو ذہن میں رکھتے ہوئے مودی اب بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی عجلت میں نظر نہیں آرہا۔ اپنے انٹرویو میں وہ اصرار کرتا رہا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔ گائے کی حرمت کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں ہوئے قتل کے مختلف واقعات کی اس نے کھل کر مذمت تو نہیں کی لیکن اس سے لاتعلقی کے اظہار پر بضد رہا۔ نئے انتخابا ت کی جانب بڑھتے ہوئے ہندو انتہا پسندی کے فسطائی رویوں سے دوری دکھانے کی کوشش بھارتی مسلمانوں اور اقلیتوں کو یقینا تھوڑا اطمینان فراہم کرے گی۔
نریندر مودی جیسے سیاست دانوں کو لیکن اپنی دوکا ن چمکانے کے لئے کسی ”ویری“ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہندو انتہا پسندی کو منافقانہ انداز میں ترک کرتے ہوئے بھی اسے ایک ”دشمن“ درکار ہے جس کے خلاف ”قوم“ کو متحدہ کرنے کا راگ الاپا جاتا ہے۔ منگل کے روز چلے انٹرویو سے واضح ہوگیا کہ آئندہ انتخابات کی جانب بڑھتے ہوئے نریندر مودی پاکستان کو ”سدھارنے“ کی بڑھکیں لگائے گا۔ مذہب کے بجائے ”بھارت کے دفاع“ کو اپنی بنیادی تھیم بنائے گا۔
ستمبر2016میں مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اڑی میں اپنے فوجیوں کے قتل کا ”بدلہ“لینے کے لئے لائن آف کنٹرول کو پار کرتے ہوئے پاکستانی علاقوں میں گھس کر ”سرجیکل سٹرائیکس“ کی تھیں۔
مجھ جیسے پاکستانی صحافیوں نے اگر اس دعوے پر اعتبار نہیں کیا تو اسے ہماری ”قوم پرستی“ ٹھہراتے ہوئے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔بھارت میں مودی کے مخالف سیاستدانوں نے بھی لیکن اس دعویٰ پر مسلسل سوالات اٹھائے۔ ان سوالات کا آج کے Digitalزمانے میں جبکہ نائٹ وڑن کیمروں کے ذریعے سرجیکل سٹرائیکس کو ریکارڈ کرنے کی سہولت موجود ہے،ٹھوس شواہد کے ساتھ جواب نہیں ملا۔
نئے سال کے پہلے روز دئیے انٹرویو میں لیکن بھارتی وزیر اعظم نے بہت جذباتی انداز میں ان Strikesکا ذکر کیا۔ اس کے انٹرویو کے لئے جو سوالات تھے ان کے عمومی Structureمیں ان Strikesکے تفصیلی ذکر کی گنجائش موجود نہیں تھی۔ مودی نے مگر اپنی بات کہنے کی Spaceنکالی۔ اصرار کرتا رہا کہ پاکستان کو صرف ایک جنگ کے ذریعے ”سدھارا“ نہیں جاسکتا۔ اسے بین الاقوامی طورپر دہشت گردی کا سرپرست قرار دیتے ہوئے تنہائی سے دو چار کرنا پڑے گا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اپنے پے در پے غیر ملکی دوروں کے ذریعے وہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں Isolateکرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کے باوجود شاید ستمبر2016میں ہوئی مبینہ Strikesکو دہرانے کی ضرورت ہوگی۔
سارک تنظیم کے احیاءکے لئے حکومتِ پاکستان کی دعوت پر اس نے اس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت پر رضا مندی Commitنہیں کی۔”جب دعوت آئے گی تو دیکھا جائے گا“ والا رویہ اختیار کیا۔ انٹرویو کے دوران اپنائی اس کی Toneاور لفظوں نے اگرچہ یہ خواہش عیاں کردی کہ شاید وہ پاکستان کی جانب سے ایسی دعوت آنے کا ماحول ہی پیدا نہیں ہونے دے گا۔
اس کا انٹرویو چلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد خبر آگئی کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کے ایک ڈرون نے پاکستانی سرحد میںگھسنے کی کوشش کی۔ ہم نے اسے مارگرایا۔ اس سے قبل ایسے ہی طیاروں کی معاونت سے بھارت اپنی سرحد میں دو پاکستانی کمانڈوز کو ہلاک کرنے کے دعوے کرچکا ہے۔اس دعوے کے اثبات کی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہے۔ لائن آف کنٹرول پر لیکن اشتعال انگیزی کو بڑھادیا گیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ شاید اس محاذ کومسلسل اشتعال انگیزی کے ذریعے مزید کئی ہفتوں تک Hotرکھا جائے گا۔
محض چار ماہ بعد ہونے والے عام انتخابا ت میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے مودی کی جانب سے لائن آف کنٹرول کو گرمائے رکھنا ایک اعتبار سے سمجھا جاسکتا تھا۔ پاکستان کے پاس اس سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت کماحقہ حد تک موجود ہے۔
مودی کو مگر یہ سمجھنا ہوگا کہ لائن آف کنٹرول جیسے محاذ پر مسلسل اشتعال انگیزی ڈراموں کے لئے لکھے اسکرپٹس کی طرح اپنی خواہشات کے مطابق محدود نہیں رکھی جاسکتی۔ حکمرانوں کا اشارہ ملے تو حتمی Initiative on the Spotتعینات ہوئے فوجیوں کے پاس چلاجاتا ہے۔ بھارت کی جانب سے اس محاذ پر حرارت کو ایک حد سے زیادہ بڑھادیا گیا تو ہمارے ہاں سے منہ توڑ جواب دینے کی خواہش بھی شدید تر ہوجائے گی۔
پاکستان اور بھارت دو ایٹمی قوت کے حامل ممالک ہیں۔ فقط انتخابات جیتنے کے لئے مودی جیسے سیاست دانوں کو جنگی ماحول بھڑکانے سے اجتناب برتنا ہوگا۔وگرنہ تباہی ہی تباہی ہے۔ کسی ایک فریق کی ہار یا جیت نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ