چسکہ فروشی کے لئے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی وڈیوز کے ذریعے عمران خان صاحب کو ان کے وہ بیانات یا د دلائے جارہے ہیں جن میں وہ پاکستان کی معاشی مشکلات کے ازالہ کے لئے IMFسے رجوع کرنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دینے کا دعویٰ کیا کرتے تھے۔ اتوار کے روز ان کی اس ادارے کی سربراہ سے بالآخر ملاقات ہوگئی۔ اس ملاقات کے بعد امید بندھی ہے کہ اسد عمر کی تمام تر مزاحمت کے باوجود پاکستان ”عطار کے اسی لونڈے“ سے شفا کا طلب گار ہوگا۔
پیر کی صبح اٹھ کرٹی وی کھولا تو ”جیو“ کے مارننگ شو میں بیٹھے میرے پسندیدہ اینکرز اس ملاقات کے ضمن میں راولپنڈی کی لال حویلی سے ا±ٹھے بقراطِ عصر کو کریڈٹ دیتے نظر آئے۔ میری عاجزانہ رائے میں اگرچہ اس تناظر میں کسی کو ”دوراندیش“ٹھہرانا مقصود ہے تو اصل کریڈٹ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوکو جانا چاہیے۔
جولائی 2018کے انتخابات کا نتیجہ آنے کے چند ہی روز بعد وہ ایک ٹی وی پروگرام میں نمودار ہوا۔پاکستان نے اس وقت تک IMFسے کسی بیل آﺅٹ پیکیج کے لئے رجوع نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود اسے یقین تھا کہ پنجابی محاورے والی گدھی بالآخر IMFکے برگد تلے چھاﺅں کی تلاش میں آئے گی۔پاکستان کے IMFسے رجوع کرنے کو یقینی تصور کرتے ہوئے اس نے واضح الفاظ میں متنبہ کیا کہ ”امریکی ٹیکس گزاروں کے دئیے ڈالر پاکستان کو چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے فراہم نہیں کئے جاسکتے۔“
اس کے انٹرویو نے واضح کردیا کہ پاکستان نے IMFسے رجوع کیا تو اس بار شرائط کڑی ہوں گی اور ان کا تعلق خالصتاََ پاکستان کی معیشت سے جڑے معاملات سے نہیں ہوگا۔ ہماری خارجہ پالیسی پر بھی سوالات ا±ٹھیں گے۔
ہمارے ہاں مگر ”معاشی ماہرین“ کا ایک طاقت ور گروہ ہے۔ ان لوگوں کی اکثریت وزارتِ خزانہ میں اہم عہدوں پر فائز رہی ہے۔ چند ایک نے ساری زندگی IMFیا ورلڈ بینک کی نوکری میں گزاری یا ان کے لئے بھاری بھر کم معاوضے پر Consultancyوغیرہ کرتے رہے۔ ایسے عالم وفاضل افراد تواتر سے مجھ ایسے جاہلوں کو سمجھاتے رہے کہ آئی ایم ایف فقط معاشی معاملات پر نگاہ رکھتا ہے۔ جو ملک اس کی مدد کا خواہاں ہو اس کی خارجہ پالیسی سے اسے کوئی سروکار نہیں۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اپنی پالیسیاں کیسے تشکیل دیتے ہیں مجھ جاہل کو اس کے بارے میں رتی بھر خبر نہیں۔ یہ سوال مگر ذہن میں اکثر اٹھتا ہے کہ آئی ایم ایف وغیرہ کی جانب سے Structural Reformsوغیرہ پر ان دنوںاتنا زور کیوں نہیں دیا جاتا جب پاکستان مثال کے طورپر افغانستان کے حوالے سے اہم ترین کردار ادا کررہا ہوتا ہے۔ پاکستان کا معاشی نظام ان ہی ایام میں ”ناکارہ“یا ”بوسیدہ“ کیوں نظر آتا ہے جب امریکہ کو خالصتاََ اپنی Strategicترجیحات کی وجہ سے پاکستان کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
پاکستان تو امریکہ سے کئی دور موجود ایک غریب ملک ہے۔برطانیہ نے کئی دہائیوں تک امریکہ پر راج کیا ہے۔ وہ برصغیر پاک وہند کی طرح اس کی ایک کالونی تھا۔امریکہ اور برطانیہ Anglo-Saxonدنیا کے جڑواں بھائی بھی تصور ہوتے ہیں۔ برطانیہ کو مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی معیشت کی تباہی کی وجہ سے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔ مصر کے صدر ناصر نے ان دنوں نہر سوئیز کے ذریعے برطانیہ تک تیل کی رسائی روک رکھی تھی۔برطانیہ نے مصر پر جنگ مسلط کرتے ہوئے اس راہداری کو ”آزاد“ کروانا چاہا۔ناکام رہا۔امریکہ اس جنگ کا مخالف تھا۔ برطانیہ جب IMFکے پاس گیا تو امریکی اثر کی بدولت اس نے Bailout Packageدینے سے انکار کردیا۔ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا۔ نیا وزیر اعظم ایا تو اس نے مصر کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کئے اور IMFسے پیکیج بھی مل گیا۔
IMFسے پاکستان کو ”مدد“ ملنے کی اب جو امید بندھی ہے اس پر غور کرتے ہوئے خدا را یہ حقیقت اپنے ذہن میں ضرور رکھیے گا کہ امریکہ کو ایک بار پھر افغانستان ہی کے حوالے سے پاکستان کی مدد درکار ہے۔ زلمے خلیل زاد چند ہی روز بعد ہمارے ہاں آئے گا۔ واشنگٹن کی شدید خواہش ہے کہ جولائی 2019سے قبل طالبان سے کچھ ایسا سمجھوتہ ہوجائے جس کی وجہ سے وہ اپنی افواج کو اس ملک سے ”باعزت“ انداز میں باہر نکال سکے۔ ”باعزت سمجھوتہ“ پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔آئی ایم ایف لہذا ہماری درخواست پر ”ہمدردانہ“ انداز میں غور کرنے پر تیار ہوگا۔
اصل سوال یہ نہیں کہ عمران خان صاحب کی اپوزیشن کے زمانے میں آئی ایم ایف کے خلاف کی ہوئی دھواں دھار تقاریر کے بعد ہم عطار کے اسی لونڈے سے رجوع کیوں کررہے ہیں۔عالمی معاشی نظام کا شکنجہ ہے۔ اس سے مفر ہم جیسے ممالک کے لئے ممکن ہی نہیں۔ بنیادی سوال بلکہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرتے ہوئے ہماری حکومت اس Spaceکو کس مہارت سے استعمال کرتی ہے جو افغانستان کی وجہ سے ہمیں ایک بار پھر میسر ہوئی ہے۔
ایمان داری کی بات ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی علم ہوگیا تھا کہ اسے آئی ایم ایف سے بالآخر رجوع کرنا ہی ہوگا۔غالب اپنے محبوب کو چٹھی لکھنے کے بعد ایک اور خط لکھنا شروع کردیتا تھا کیونکہ اسے خوب علم تھا کہ ”وہ کیا لکھیں گے جواب میں“۔
IMFسے مذاکرات کا آغاز کروتو وہ Structural Reformsکی بات کرتا ہے۔ ہم سادہ لوح عاجزوں کو اس اصطلاح کی سمجھ نہیں آتی۔ایک عام صارف ہوتے ہوئے البتہ ہم سب جان چکے ہیں کہ ان "Reforms"کا اصل مقصد بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا ہوتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد تحریک انصاف اس ضمن میں نظر بظاہر آئی ایم ایف سے ”ڈکٹیشن لئے بغیر“ گرانقدر اضافہ لاگو کرچکی ہے۔ جنوری کے آغاز میں مجھے اور آپ کو گیس کے جو بل آئے ہیں وہ نام نہاد "Reforms"ہی کا عملی اظہار ہیں۔ ان بلوں کی وجہ سے صارفین نے جو دہائی مچائی تحریک انصاف کی حکومت اسے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران ”سیاسی استحکام“ کی ضرورت پر زور دینے کے لئے مہارت سے استعمال کرسکتی ہے۔ ”زیادہ نہیں چیف صاحب“ کی استدعا کے ساتھ۔ ہماری مناسب داد فریاد کے بعد آئی ایم ایف شاید گیس کی قیمتوں میں فی الوقت مزید اضافے پر زور نہ دے۔
اصل سوال مگربجلی کی موجودہ قیمتوں کے بارے میں ضرور اٹھے گا۔ IMFگزشتہ کئی برسوں سے اس حقیقت پر پریشان نظر آرہا ہے کہ ہماری ریاست مہنگی بجلی خرید کر صارفین کو ”سستے داموں“ مہیا کرتی ہے۔ بجلی کی پیداوار پر ہوئی لاگت اور اس کے استعمال کی وجہ سے میسر ہوئی رقم میں جو تفاوت ہے وہ بڑھتے بڑھتے ”گردشی قرضہ“ بن جاتا ہے۔ ان دنوں وہ قرضہ ایک کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔اسد عمر اس کی ادائیگی کے لئے ”بانڈز“ بیچ کر بین الاقوامی منڈی سے رقم اکٹھا کرنا چاہ رہے ہیں۔ہم IMFکے سسٹم سے دور رہتے ہوئے یہ ”بانڈز“ عالمی منڈی میں بیچنے کو رکھتے تو منافع کی شرح بہت زیادہ رکھنا پڑتی۔
IMFسے معاہدہ ہوگیا تو یہ شرح مناسب رہے گی۔ طویل المدتی تناظر میں لیکن بجلی کی قیمت والے سوال کا جواب میسر نہیں ہوگا۔ حکومت کو سوئی گیس کے بعد اب ہر صورت بجلی کی قیمتوں میں بھی کچھ نہ کچھ اضافہ کرنا ہوگا۔ یہ اضافہ نہ ہوا تو ہماری ضروریات کے مطابق بجلی کی مقدار سسٹم میں میسر ہوتے ہوئے بھی گرمیوں میں لوڈشیڈنگ لوٹ آئے گی۔ہم عاجزوں کے سامنے پھر سوال یہ رکھا جائے گا کہ زیادہ قیمت دینا ہے یا لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے بھگتنا ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ہم بجلی کی اضافی قیمتوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ آخری خبریں آنے تک آئی ایم ایف بجلی کی قیمتوںمیں 124فی فیصد اضافے کا طلب گار تھا۔ یہ اضافہ میرے اور آپ جیسے صارف کسی صورت برداشت نہیں کر پائیں گے۔ اسد عمر کی اصل مہارت یہ ہوگی کہ وہ پاکستان کو افغانستان کی وجہ سے ملی Spaceکا فائدہ اٹھاتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو قابل برداشت رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ