جنگی ماحول میں صورت حال لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہتی ہے۔ کالم لکھتے ہوئے لہذا میں جسے Big Pictureکہا جاتا ہے پر ہی نظر رکھنے کو مجبور ہوں۔
بدھ کی صبح دن کی روشنی میں پاک فضائیہ نے منگل کے اندھیرے میں ہوئی بھارتی دخل اندازی کا نپا تلا جواب دے دیا ہے۔ بھارتی فضائی حدود میں گھسے بغیر اپنی فضائی حدود میں رہتے ہوئے ہمارے پاس موجود صلاحیت کا مناسب مظاہرہ ہوا۔ بھارتیوں نے ردعمل میں جہاز اُڑائے۔ ان میں سے ایک پاکستانی سرحد کے اندر مارگرایا گیا۔ اس کے پائلٹ کی گرفتاری کا اعلان بھی سرکاری طورپر کردیا گیا۔پاکستان کے بدترین نقاد کو بھی اب یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ہماری جانب سے جنگی ماحول کو بھڑکانے کے لئے پہل کاری سے اجتناب برتا جارہا ہے۔ہمارے محتاط رویے کو مگر Taken for Grantedنہیں لیا جاسکتا۔ پیر اور منگل کی درمیانی رات ہوئی دخل اندازی کا انتخاب کرتے ہوئے بھارت نے ٹمپو بڑھانے میں پہل کاری کی۔تفصیلات سے قطعی نابلد ہوتے ہوئے بھی میں پورے اعتماد سے اس دعویٰ پر اصرار کررہا ہوں کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب ہوئی دراندازی درحقیقت عملی اعتبار سے Probingتھی۔ بھارتی فضائیہ نے ہماری حدود میں گھس کر ہماری صلاحیت کو جانچناچاہا۔ خبر ہوگئی کہ بروقت جواب دینے کی صلاحیت اور ارادہ مؤثرانداز میں موجود ہے۔یہ جان لینے کے بعد بھی لیکن بھارت نے اعلیٰ ترین ریاستی سطح پر یہ داستان گھڑی اور پھیلائی کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب ہوئی دخل اندازی کے ذریعے بالاکوٹ کے پہاڑوں میں قائم ’’دہشت گردوں کا ٹھکانہ‘‘ تباہ کردیا گیا۔ 300کے قریب ہلاکتوں کا دعویٰ بھی ہوا۔مودی سرکار نے جو کہانی بنائی اسے عالمی اخبارات اور مبصرین بھی ماننے کو تیار نہ ہوئے۔ دہشت گردی کے موضوع پر خصوصی توجہ دینے والے صحافی اور مبصرین جبلی طورپر جانتے ہیں کہ ’’دہشت گرد‘‘ سینکڑوں کی تعداد میں کسی ایک مقام پر روایتی فوجیوں کی طرح’’تعینات‘‘ نہیں ہوتے۔ وہ مائوزے تنگ کے ایک قول کے مطابق عام افراد میں گھل مل کر رہتے ہیں۔ 300افراد کی ہلاکت آج کے دور میں چھپائی ہی نہیں جاسکتی۔ہر ’’دہشت گرد‘‘ کا خاندان اور عزیز واقارب بھی ہوتے ہیں۔اگر 300 افراد ہلاک ہوگئے ہوتے تو کئی گھرانوں میں کہرام برپا ہوگیا ہوتا۔ ہمیں کسی ایک ذریعے سے بھی ایسی ہلاکتوں کی اطلاع نہیں ملی۔
مودی سرکار کی بنائی کہانی کو عالمی اخبارات نے معروضی حقیقتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک افسانہ ہی شمار کیا جس کا حقیقی مقصد بھارتی شہریوں کو یہ بتانا تھا کہ پلوامہ کا ’’بدلہ‘‘ لے لیا گیا ہے۔میری ذاتی رائے میں پاکستان کو فی الوقت بھارت سرکار کی بنائی کہانی کو ٹھوس حقائق کی نشان دہی سے من گھڑت قرار دینے پر توجہ دینی چاہیے تھی۔ جنگی ماحول سے قطع نظر عام حالا ت میں بھی انسانوں کی اکثریت دلیل کے بجائے مگر جذبات کی بنیاد پر اپنی رائے بناتی ہے۔منگل کی رات میں دوستوں کے ساتھ کھانے کی ایک محفل میں موجود تھا۔اکثریت نے وہاں بہت شدت سے میری اس تجویز کو رد کردیا کہ بجائے فوجی انداز میں ردعمل دکھانے کے ہمیں بھارت کی جانب سے گھڑی کہانی کو بے نقاب کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔میرے مخالف سوچ رکھنے والوں کی اکثریت پڑھے لکھے کاروباری افراد پر مشتمل تھی۔ غیر فوجی ہوتے ہوئے بھی وہ اصرار کرتے رہے کہ اگر پیر اور منگل کی درمیانی رات ہوئی دخل اندازی کا فوجی انداز میں کماحقہ جواب نہ دیا گیا تو بھارتی فضائیہ کے طیارے مزید دخل اندازیوں کے مواقع ڈھونڈنا شروع ہوجائیں گے۔عوامی جذبات کو کسی بھی ریاست کے لئے نظرانداز کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ ہوئی جذباتی گفتگو کے بعد میں بآسانی سمجھ سکتا ہوں کہ پاکستان کو بدھ کی صبح دن کی روشنی میں اپنی صلاحیت اور ارادے کا مظاہرہ کیوں کرنا پڑا۔مزید اطمینان بخش حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری جانب سے ردعمل بہت نپا تلا تھا۔ کسی فوجی ہدف کو براہِ راست نشانہ بنانے کے بجائے محض صلاحیت کے اظہار کو ترجیح دی گئی۔ بھارت اس ’’اظہار‘‘ سے تلملاگیا۔ اپنے جہازوں کو ہماری سرحدوں کے اندر بھیجنے کی کوشش کی۔ ہمیں ان کو مارگرانے کا Legitimateموقع مل گیا۔ بھارت کو یقینا یہ پیغام مل گیا ہوگا کہ ہماری فضائی حدود میں درآنے سے قبل اب اسے سوبار سوچنا ہوگا۔ سوال مگریہ اٹھتا ہے کہ وہ اس پیغام کی اہمیت کو سمجھ پائیں گے یا نہیں۔کوئی فیصلہ کرنے سے قبل بھارت کو اس امر پر بھی خوب غور کرنا ہوگا کہ نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ نے اس کی جانب سے پیر اور منگل کی رات ہوئی دراندازی کو یہ سوچتے ہوئے نظرانداز کیا کہ پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت میں میڈیا کے ذریعے پھیلائے جنون کی تشفی کے لئے شاید ایسی دراندازی ضروری تھی۔300افراد کی ہلاکت والے دعوے کو بھی اسی سوچ کے ساتھ ہضم کرلیا گیا۔بدھ کی صبح ہوئے واقعہ کے بعد بھارت نے اگر ٹمپو کو مزید بڑھانا چاہا تو عالمی برادری اپنی بے اعتنائی سے رجوع کرنے کو مجبور ہوجائے گی۔ پاک-بھارت جنگ سے ’’عالمی برادری‘‘ انسانوں کی محبت میں خوف نہیں کھاتی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء اپنی بے پناہ آبادی کی وجہ سے عالمی سرمایہ کاروں کی نظر میں ایک بہت بڑی ’’منڈی‘‘ ہے۔ انہیں اس منڈی میں ’’خریداروں‘‘ کے تحفظ کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ پاک -بھارت جنگ کروڑ ہا افراد پر مشتمل ایک ’’منڈی‘‘ کو مکمل تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے اور ’’عالمی برادری‘‘ اس جنگ کو روکنے کے لئے ہر ممکن ذریعہ استعمال کرنے کو مجبور ہوجائے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ