عمران خان صاحب نے اپنی کابینہ میں 40کے قریب وزراء کا جو ہجوم اکٹھا کررکھا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی حقیقی معنوں میں موجودہ حکومت کے امیج کے بارے میں متفکر ہوتا تو انتہائی دردمندی سے یہ جاننے کی کوشش کرتا کہ مارچ کے آغاز میں سوئی ناردرن گیس نے اپنے صارفین کو کس نوعیت کے بل بھیجے ہیں۔ انہیں فکر لاحق ہوتی تو محض دس پندرہ نمبروں پر فون کرکے جان لیتے کہ موسم بدلنے کے باوجود صارفین کو Slabsکے چکر میں الجھاکر ناقابلِ برداشت رقم طلب کی گئی ہے۔ خاطر خواہ ریلیف میسر نہیں ہوا۔حکومتی فیصلوں کو اپنی روزمرہّ زندگی کی مشکلات سے چورہوا شخص برداشت کرنے کو مجبور ہوتا ہے۔ سوئی ناردرن کے 32لاکھ صارفین کی بے پناہ اکثریت چھوٹے کاروباری اور تنخواہ دار افراد پر مشتمل ہے۔ کاروباری لوگ مسلسل مندی سے پژمردہ ہوچکے ہیں۔تنخواہ دار کو خوف لاحق ہے کہ اس کی نوکری برقرار رہے گی یا نہیں۔ جو میسر ہے اسے برقرار رکھنے کی فکر میں گھلاجارہا ہے۔ سب کچھ تج کر سڑک پر آکر سرکار کو للکارنے کی اس میں ہمت نہیں۔زندگی کی مشکلات کو مقدر گردانتا ہے۔ کئی صدیوں سے صبر کی تلقین نے اسے جبلی طورپر بزدل بنادیا ہے ۔جنوری اور فروری میں آئے سوئی گیس کے بلوں کو اس نے بلبلاتے ہوئے ادا کردیا تھا۔ شاید مارچ میں آئے بلوں کو بھی کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی جاتا۔فروری کے اختتامی اور مارچ کے ابتدائی ہفتوں میں لیکن اسے حکومتی ترجمانوں کی بدولت یہ اطلاع ملنا شروع ہوگئی کہ وزیر اعظم تک خبر پہنچ چکی ہے کہ 32لاکھ صارفین کو ناقابلِ برداشت بل بھیجے گئے ہیں۔ انکوائری کا حکم ہوا۔ اس کے اختتام پر مزید اطلاع یہ ملی کہ Slabsوالے نظام نے ہلچل مچائی تھی۔سوئی گیس کے ایم ڈی کو اس کی پاداش میں عہدے سے ہٹادیا گیا۔ اس کے بعد اعلان ہوا کہ صارفین کو ریلیف فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس ریلیف کو ’’یقینی‘‘ بنانے کے لئے مزید اطلاع یہ بھی دی گئی کہ ایک خاطر خواہ رقم مذکورہ ریلیف کو صارفین تک پہنچانے کے لئے وزیر اعظم کے دستخطوں سے مختص کردی گئی ہے۔’’ریلیف‘‘ کا وعدہ کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھی گئی ہے کہ سوئی ناردرن کے 32لاکھ صارفین کی بے پناہ اکثریت نے پشاور سے لے کر جہلم تک آباد شہروں میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو جولائی 2018کے انتخابات میں بہت اشتیاق سے ووٹ دئیے تھے۔ ووٹ کی طاقت سے برسراقتدار آنے والی حکومتیں اپنے ووٹروں کو Rewardیا جزا کا بندوبست نہ بھی کرپائیں تو کم از کم مہنگے بلوں کی صورت سزا دیتی نظر نہیں آنا چاہتیں۔ انہیں ہر صورت مطمئن رکھنے کی لگن ہوتی ہے۔حکومتی ترجمانوں کے ذریعے ’’ریلیف‘‘ والے اعلانات نے تحریک انصاف کے ووٹروں کو آسرا دیا۔ ان میں سے عمران خان صاحب کے دیرینہ پرستار بلکہ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کو فخر سے بتانا شروع ہوگئے کہ ان کا چہیتا وزیر اعظم ایک Caring شخصیت ہے۔ اپنے Celebrity Statusکو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کے دئیے چندے سے کینسر کے علاج کیلئے جدید ترین ہسپتال بنانے والا عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد بھی اپنے دل کو دردمند رکھے ہوئے ہے۔ مارچ کے آغاز میں وصول ہوئے بلوں کو دیکھ کر ایسے پرستاروں کو یقینا مایوسی ہوئی ہوگی۔اس مایوسی کا مگر حکومتی سطح پر ادراک دیکھنے کو نہیں ملا۔ سوئی گیس کے بلوں کے ساتھ ہی بلکہ خبریہ بھی آگئی کہ پیٹرول کی قیمت میں 6روپے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا ہے۔مہنگائی بڑھانے کا ایک اور درکھل گیا۔ لوگ گھبراگئے۔ ان کے خوف کو پرسہ بھی نصیب نہ ہوا۔وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت سیٹھ رزاق دائود نے بلکہ پنجابی محاورے والے ’’پولے منہ‘‘ کے ساتھ ’’نوید‘‘ یہ سنائی کہ مہنگائی مزید بڑھے گی۔ٹھنڈے مزاج سے سوچیں تو سیٹھ رزاق نے حسابی کتابی ذہن کے ساتھ سچ کے سوا کچھ نہیں کہا۔بجٹ تیار کرنے سے قبل اسد عمر نے IMFکے ساتھ ایک اورمعاہدہ کرنا ہے۔ اس معاہدے کی بدولت 12ارب ڈالر کا قسط وار گلوکوز ملکی معیشت کو رواں رکھنے کے لئے مہیا کرنا ضروری ہے۔ آپ کی معیشت کو سنبھالنے کے لئے قرض دینے والاIMFخیراتی ادارہ نہیں ہے۔ سنگ دل بنیاہے جسے قرض کی رقم کو منافع سمیت وصول کرنے کو یقینی بنانا ہے۔اپنی معیشت کو رواں رکھنے کے لئے ہماری سرکار اس کی عائد کردہ شرائط تسلیم کرنے کو مجبور ہے۔
IMFکئی برسوں سے آپ کو بتائے چلے جارہا ہے کہ بجلی کے صارفین کو سرکار بجلی پیدا کرنے والوں سے مہنگے داموں خرید کر قومی خزانے سے Subsidy دے کر سستے داموں بیچتی ہے۔ اس کی بدولت گردشی قرضہ بڑھتا ہے۔ یہ قرض ادا نہ ہو تو بجلی کی پیداوار میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب نازل ہوجاتا ہے۔گیس کی فراہمی بھی ان ہی مشکلات کا شکار ہے۔
IMFکا لہٰذا اصرار ہے کہ صارفین سے کم از کم اتنی رقم ضرور وصول کی جائے جو بجلی کے ایک یونٹ کو تیار کرنے پر صرف ہوتی ہے۔ ہمیں اس مطالبے کی شدت سے بے خبر رکھنے کے لئے Cost Recoveryوالی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اسد عمر اینڈ کمپنی کی اصل چالاکی یہ ہے کہ IMFسے معاہدہ کرنے سے قبل وہ عوام کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ عمران حکومت ’’ازخود‘‘ معاشی ’’حقائق‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتیں بتدریج بڑھا رہی ہے۔میرے جیسے جاہلوں کو یہ گماں رہے کہ ہماری ’’خوددار‘‘ حکومت نے IMFکی ڈکٹیشن پر ہماری زندگی اجیرن نہیں بنائی۔ اس حوالے سے اگر غور کریں تو IMFکو اسد عمر اینڈ کمپنی سے بہتر سہولت کار نصیب ہی نہیں ہوسکتا۔IMFکے ’’مشوروں‘‘ کو وہ ’’اپنی‘‘ پالیسی بناکر لاگو کئے چلے جارہے ہیں۔ساتھ ہی مگر کسی سے ’’ڈکٹیشن‘‘ نہ لینے کی بڑھک بازی بھی جاری ہے۔آپ کی اور میری روزمرہّ زندگی میں بڑھتی مشکلات کے تناظر میں عوام کو 24/7’’باخبر‘‘ اور ’’تعلیم‘‘ دینے والا میڈیا مگرپیر کی دوپہر سے رات گئے تک یہ طے کرنے میں مصروف رہا کہ شا ہ محمود قریشی لاہور کے گورنر ہائوس میں چودھری سرور کے ہمراہ بیٹھ کر جہانگیر ترین کے خلاف کیوں پھٹ پڑے۔ تحریک انصاف کے رہ نمائوں کی اکثریت نے جہانگیر ترین کی حمایت میں بیانات کا طومار کیوں باندھا۔ تحریک انصاف کے ’’اندرونی اختلافات‘‘ چسکہ فروشی کی دوکان چلاتے رہے ۔آخری خبریں آنے تک اگرچہ شاہ محمود قریشی اپنے عہدے پر برقرار تھے۔ انہیں وزیر اعظم کی جانب سے یہ کالم لکھنے تک کوئی Shut upکال وصول نہیں ہوئی۔ شاید آئے بھی نہیں کیونکہ خلقِ خدا کو ایک فروعی بحث میںالجھادیا گیا ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ