تصویر کھینچتے ہوئے کیمرے کے بٹن کو دبایا جائے تو Clickکہتی ایک آواز سنائی دیتی ہے۔ Click کا لفظی ترجمہ لہذا بٹن دبانا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک لفظ ہوتا ہے Bait۔ اس کے معنی وہ دانہ ہے جو پرندوں کو شکار کے لئے جمع کرنے کو پھینکا جاتا ہے۔ ان دونوں کو ملاکر ایک ترکیب بنی ہے: Click-Bait اس ترکیب کا اطلاق ان دنوں ”صحافت“ کے اس انداز پر ہو رہا ہے جو اس پیشے سے کسی نہ کسی طور متعلق ہوئے افراد اپنی بتائی کہانی کے لئے فیس بک پر زیادہ سے زیادہ Likes اور Share حاصل کرنے کے لئے ڈھونڈتے ہیں۔ کسی بھی کل وقتی ”صحافی“ کے لئے روزانہ ایسی ”خبر“ کا حصول مگر ممکن ہی نہیں۔ Click-Baitکی لذت مگرچند ”صحافیوں“ کو کچھ کہانیاں گھڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ایسی کہانیوں کو ہم Fake News کہتے ہیں۔
ٹرمپ کے امریکی صدر بن جانے کے بعد سے ایسی News کے دنیا بھر میں بہت چرچے ہیں۔ سوچ بچار کے عادی کئی محقق ٹھوس مثالوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ اس رجحان کو روکا نہ گیا تو اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئے معاشروں میں ہیجان پھیلتا چلا جائے گا۔ ہولناک خانہ جنگی کی کیفیات نمودار ہوں گی۔ انسان جنگلوں میں بھٹکتے وحشی درندوں کی مانند غول میں بٹے ایک دوسرے کی جانوں کے درپے ہونا شروع ہوجائیں گے۔Fake News کو روکنا مگر ممکن ہی نہیں۔ اس دنیا میں آئے لوگ مختلف النوع وجوہات کی بنا پر گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ان گروہوں سے متعلق افراد مخالف گروہوں کے خلاف چند تعصبات کو جبلی طور پر ورثے میں حاصل کرتے ہیں۔ Click Bait کی لذت کا عادی ان گروہوں میں سے عددی اعتبار سے طاقتور ترین گروہ کا بہت سوچ بچار کے بعد انتخاب کرتا ہے۔ اپنا گروہ چن لینے کے بعد وہ اس گروہ کی جبلت میں موجود تعصبات کا اثبات کرتی ”خبریں“ بتانا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بالآخر انٹرنیٹ اور ٹیلی وژن سکرین کا ”مقبول ترین“ اور Ratings میں ”ہمیشہ نمبر ون“ صحافی یا اینکر پرسن بن جاتا ہے۔ اس کی بتائی کہانیوں کو جھٹلانے کی جرات دکھانے والا شخص بدعنوان نا سہی تو کم ازکم حاسد ضرور کہلاتا ہے۔ مبینہ طور پر ”چور لٹیرے سیاستدانوں“ اور ”جعلی جمہوریت“ کا دفاع کرنے والا صحافی جو بالآخر ”لفافہ صحافی“ بن جاتا ہے۔ Click-Baits کی بدولت تہمتوں کے لگائے انبار کے سامنے بے بس ہوا صحافی جس پر رحم کھانے کی مسلسل ہیجان میں مبتلا معاشرے میں کسی کو فرصت ہی نہیں۔
Fake News کے بارے میں چند ماہ قبل تک میرا دل بھی مستقل پریشان رہا۔ میں ”سیاپا فروشی“ اور ”فروغ پارسائی میں مبتلا“ رجحان کی مذمت میں بے تحاشہ کالم لکھتا رہا۔ بہت غور کے بعد دریافت ہوا کہ میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔ اصل بات Niche کو ڈھونڈنا ہے۔ ایسے لوگوں کی تلاش جو آپ کے ذہن میں آئی بات کو پڑھنے اور سننے کو آمادہ ہوں۔ ان سے مستقل مکالمہ ہی مجھ ایسے لوگوں کو اطمینان فراہم کرسکتا ہے۔ یہ تسلی مہیا کرتا کہ ایسا سوچتے ہوئے میں اکیلا نہیں اور یقین مانیے کہ لوگوں کی بے پناہ اکثریت کو اب بھی حقائق معلوم کرنے کی تڑپ ہے۔ مجھ ایسے لوگوں کا اصل المیہ یہ ہے کہ ہمیں سچ بیان کرنے کا ہنر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر ٹالسٹائی کو آتا تھا۔ انتہائی سادہ زبان میں روزمرہّ زندگی کے بارے میں ضخیم ناول لکھنے والے اس روسی لکھاری نے ایک بار کہا تھا کہ سچ سے زیادہ مسحور کن کوئی اور شے نہیں ہوتی۔ وہ سچ کو As It Is بیان کرنے کے ہنر کو جان گیا تھا۔ زار شاہی کی مسلط کردہ اطاعت کے انتہائی ایام میں سرکاری سنسرشپ سے گزر کر بھی اس کے ناول اس کی زندگی ہی میں لاکھوں کی تعداد میں چھپتے۔ رسالوں میں چھپتے اس کے ناولوں کی آئندہ اقساط کا بے تابی سے انتظار ہوتا۔ ٹالسٹائی کے دور ہی میں چیخوف بھی نمودار ہو گیا تھا۔ جدید ادب میں حقیقت پسندی کا رجحان شاید اس کے بغیر فروغ نہ پاتا۔ جھوٹ اس نے کبھی نہیں لکھا۔ ”انقلابی“ ہونے کا وہ دعوے دار بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس کے لکھے ڈرامے ”کھڑکی توڑ“ رش لیتے۔ زار شاہی ہمیشہ یہ محسوس کرتی رہی کہ اس کی تحریریں کسی نہ کسی صورت ”تخریبی“ ہیں۔ وہ اس کی تحریروں میں لیکن ایک سطر بھی اسے گرفت میں لانے کے لئے نہیں ڈھونڈ پائی۔
ہماری اپنی تاریخ میں 1857 بنیادی طور پر Fake News کا مجسم اظہار تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں میں بغاوت کو اس ”افواہ“ نے اُکسایا کہ ان کے لئے جاری ہوئے کارتوس جنہیں بندوق میں ڈالنے سے پہلے دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا ایسی ”چربی“ میں لپٹے ہوئے تھے جو حرام جانوروں کے جسم سے نکالی گئی تھی۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ آج تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ وہ چربی کس جانور کی تھی۔ ہندو اور مسلمان سپاہی مگر بضد رہے کہ وہ ایسے جانوروں کی چربی تھی جو ان کے مذاہب میں حرام قرار دئیے گئے ہیں۔ مسلمان سپاہیوں نے ایک جانور کا نام لیا، ہندو سپاہیوں نے ایک اور جانور کا۔ بغاوت مگر ہو گئی اور دونوں یکجا ہوکر انگریز کو برصغیر سے نکالنے کی جنگ میں مصروف ہوگئے۔
بہادر شاہ ظفر کے دلّی میں جامع مسجد کی دیوار پر بھی Fake News پھیلاتے اشتہار ”اچانک“ لگے نظر آتے۔ ان کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو حوصلہ دیا جاتا کہ ان کی مدد کے لئے ایران نے اپنی سپاہ مختلف راستوں سے ہندوستان روانہ کردی ہیں۔ اک ذراصبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔ دلّی ہی کے ایک کوچہ کے گھر میں محصور ہوا غالب مگر Fake Newsکی حقیقت کو جان چکا تھا۔ اسے حیرت تھی کہ انگریز نے دھوئیں سے ریل کار چلا دی ہے۔ ریل کار کے ذریعے پہنچائی رسد کا گھوڑوں اور بیل گاڑیوں کے محتاج باغی مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ Fake Newsسے لاتعلق ہوا وقت کے بدلنے کا انتظار کرتا رہا۔ سرسید کو یہ بات بھی اسی نے سمجھائی تھی کہ وقت کے ہاتھوں تباہ ہوئی مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ سے وابستہ عمارتوں کی داستانیں نہ لکھو۔ بلھے شاہ والا رویہ جس نے اصرار کیا تھاکہ ”حشر عذاب“ کا سامنا کرتے اور ”شک شبے کے وقت“ کا شکار ہوئے پنجاب میں ضروری ہے کہ اس کا غور کرنے والا ہر فرد ”آئی صورتوں سچا“ رہے۔ آنکھ جو کچھ دیکھ سکتی ہے پہلے اس کو بھرپور انداز میں دیکھے، بیان کرے اور اپنی بچت کی راہ تلاش کرے۔
قصور میں بچوں کے ساتھ ہوئی درندگی سے وابستہ چند ٹھوس حقائق ہیں۔ ہمارے ہاں ”عام“ سے اور بسا اوقات ”نیک پاک“ نظر آنے والے کئی افراد ہیں جو بچوں کو اپنی سفلی خواہشات کی تسکین کے لئے استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ ان میں سے چند ایک اس لت میں مبتلا ہو کر بالآخر وحشی درندوں کا چلن اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تلاش کرنے کے بعد ان پر نگاہ رکھنا بنیادی طور پر ہم شہریوں کی ذمہ داری ہے۔ پولیس کا کردار واردات کے بعد شروع ہوتا ہے اور پویس بھی ہمارے بے حس معاشرے ہی سے اُبھری ہے۔ اس کی کوتاہیوں کی مذمت بالکل ضروری ہے۔ اس کے کردار کونظراندز کیا ہی نہیں جا سکتا۔ وسیع تر حوالوں سے اس کا کردار مگر ثانوی ہے۔زینب کے واقعے کے بعد گرفتار ہوئے شخص کی نظر بظاہر یہ آٹھویں واردات تھی۔ اس واردات کا ارتکاب کرنے کے بعد بھی وہ لیکن پولیس اور مقامی انتظامیہ کے خلاف پھوٹے مظاہروں میں نمایاں ترین رہا۔ اس کی پہچان پہلے کیوں نہ ہوپائی۔ وہ دو بار اپنا ڈی این اے پولیس کو دینے سے کیسے بچا رہا۔
قصور کے حوالے سے بنیادی حقائق ایسے ہی سوالات تھے۔ انہیں اٹھانے کے بجائے ہم نے طے کر لیا کہ ”ظالم سیاستدانوں“ میں کوئی ایک طاقت ور شخص ہے۔ وہ بین الاقوامی طورپر متحرک بچوں سے زیادتی کی وڈیوز بنانے والے کسی گروہ کا سرپرست ہے۔ گرفتار ہوا عمران اس کا محض آلہ کار ہے۔ Lone Wolf نہیں۔ گرفتار ہوئے ملزم کی ”سرپرستی“ ہمارے متعصب اذہان کے ذہنوں پر چھپائی ہوئی تھی۔ Click-Bait والی مہارت کے حتمی حامل ایک اینکر پرسن نے ہمارے ذہن میں موجود اسی تعصب کا ایک کہانی کے ذریعے اثبات فراہم کردیا۔ اب ذکر اس اینکر پرسن کا ہے اور بنیادی سوال یہ کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا۔ دریں اثنا ملک کے مزید شہروں سے بھی بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی خبریں آتی چلی جارہی ہیں۔ ان پر توجہ دینے کی فرصت کسے؟
فیس بک کمینٹ