’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ والی پریشانی میرے اور آپ جیسے عامیوں کو لاحق ہوا کرتی ہے۔حکومتوںکو مگر ملک چلانا ہوتے ہیں۔معیشت اس ضمن میں کلیدی کردار کی حامل ہے۔معاشی بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے کبھی کڑے فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔بسااوقات ’’اصولوں پر سمجھوتہ‘‘ بھی ضروری ہوجاتا ہے۔’’سمجھوتے‘‘ کو لیکن ہمارے ہاں ہنگامی صورتوں میں اپنائی لچک کے بجائے یوٹرن کہتے ہوئے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد اگرچہ عمران خان صاحب کو یوٹرن کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا اور وہ کئی مقامات پر اسے بلاجھجک استعمال کرناشروع ہوگئے۔اپنی حکومت کا پہلا بجٹ تیار کرنے کے موسم میں لیکن وہ اپنے کئی ساتھیوں کی جذباتی تقاریر کے بعد اسد عمر کی تیارکردہ ایمنسٹی سکیم کو شیڈول کے مطابق منظور نہ کرواپائے۔معاملہ لٹک گیا۔ یہ کالم چھپنے تک شاید کوئی راستہ نکل آئے۔ٹھوس معاشی حقائق کا تقاضہ ہے کہ ریاستِ پاکستان کی آمدنی بڑھانے کے لئے ایک نہیں کئی راستے نکالے جائیں۔ یہ درخواست کرنے سے قبل میں نے کئی بارسوچا۔1975ء سے میرے رزق کا انحصار فقط صحافت پر رہا ہے۔جب اس دھندے میں آیا تو ان دنوں تنخواہ مضحکہ خیز حد تک حقیر نظر آتی تھی۔ بسااوقات کئی مہینے گزر جانے کے بعدبھی ادا نہ ہوتی۔جوانی کے خمار میں ڈٹا رہا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ ’’شوق دا کوئی مل نہیں ہوندا‘‘۔1985ء سے حالات کچھ بہتر ہونا شروع ہوئے۔اخبار سے ملی تنخواہ نے مگر اس بریکٹ میں نہیں ڈالا جہاں ٹیکس ریٹرن جمع کروانا لازمی شمار ہوتا ہے۔
2007ء سے ٹی وی کا رُخ کیا تو چند ماہ بعد اس بریکٹ میں آگیا۔ میری تنخواہ سے حکومت کا عائدکردہ ٹیکس ادارہ پیشگی کاٹ لیتا تھا۔اس کے باوجود قانون سے خوف کھاتے ہر مڈل کلاس شخص کی مانند ٹیکس ریٹرن باقاعدگی سے جمع کروانے کی عادت اپنائی۔ میری آمدنی کے تمام ذرائع اور اثاثے کلی طورپر کئی برسوں سے Documented ہیں۔ میری بیوی کا بھی یہی عالم ہے۔ ہم دونوں مل کر حکومت کو ٹیکس کی صورت جو ادا کرتے ہیں شاید ہم سے کہیں زیادہ سہولت بھری زندگی گزارنے والے ہزاروں افراد انفرادی طورپر قومی خزانے میں جمع نہ کرواتے ہوں گے۔قطعی ذاتی وجوہات کی بناء پر لہذا مجھے جنونی انداز میں یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ مبینہ ’’ٹیکس چوروں‘‘ کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے۔انہیں چوکوں میں اُلٹا لٹکادیکھنے کو بھی اکثر جی مچل جاتا ہے۔صحافی کی مگر کچھ ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ذاتی خواہشات کو مبلغوں کی صورت بیان کرنے سے قاصر ہوں۔معیشت میرا موضوع کبھی نہیں رہا۔ عمر کا بیشتر حصہ سیاست اور خارجہ امور پر رپورٹنگ کی نذر ہوگیا۔فقط چند سال قبل معیشت کی اہمیت کا احساس ہونا شروع ہوا۔انگریزی محاورے والا بوڑھا گھوڑا مگر نئے کرتب نہیں سیکھ سکتا۔معاشی امور پر لکھنے والے سینئرز سے مؤدب طالب علموں کی طرح کچھ سیکھنے کی کوشش کی۔ چند ایسے لوگوں کی جی حضوری سے بھی گریز نہیں کیا جو وزارتِ خزانہ سے وابستہ رہے ہیں۔ورلڈ بینک اور IMFسے مذاکرات کی باریکیاں سمجھتے ہیں۔ ان سب افراد سے کہیں زیادہ معیشت کی اہمیت کو چند مہینوں سے چھوٹے کاروباری افراد سے طویل گفتگو کے ذریعے سیکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔رپورٹنگ کی جبلت کی بدولت سمجھ یہ آئی ہے کہ سیٹھوں نے ان دنوں اپنی مٹھیاں بند کرلی ہیں۔افسر شاہی گھبرائی ہوئی ہے۔بازار میں مندی کا رحجان ہے۔تنخواہ دار طبقہ بجلی اور گیس کے بلوں سے پریشان ہے۔میرے شعبے میں بے روزگاری نے سینکڑوں گھرانوں کو پریشان کیا ہے۔دیگر شعبے بھی استحکام وتوانائی کا ماحول نہیں دکھارہے۔ لوگوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ بے تابی سے امید کی کرن کے منتظر ہیں۔ایسے حالات میں ووٹوں سے منتخب ہوئی حکومتوں سے توقع باندھی جاتی ہے کہ وہ معاشی میدان میں رونق لگانے کے لئے ’’کچھ‘‘ کرتی نظر آئیں۔ ہمارے وزیر خزانہ مگر ’’مریض‘‘ کو ICUسے نکال کر مکمل صحت یابی کے لئے کم از کم مزید ڈیڑھ سال کا ٹائم فریم دے رہے ہیں۔ عالمی اداروں نے پاکستانی معیشت کے بارے میں جو رپورٹیں تیار کی ہیں وہ بھی امید افزاء نہیں۔اس کے علاوہ FATFہے۔ افغانستان میں امن کی بحالی ضروری ہوگئی ہے۔بھارت سے حال ہی میں Near Warکی صورت حال تھی۔ کشیدگی میں کمی ضرور آئی ہے مگر کم از کم ایک ماہ تک ہمیں سرحدوں پر چوکس رہنا ہوگا۔اس تناظر میں تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ اپنا پہلا بجٹ تیار کرتے ہوئے اسد عمر کو ٹیکسوں کی صورت جو رقم میسر ہوگی وہ گزشتہ بجٹ میں طے شدہ اہداف کے مقابلے میں 500ارب روپے کم ہوگی۔ریاستی اخراجات ٹیکسوں کے ذریعے ہوئی آمدنی سے کہیں زیادہ ہوں تو حکومتوں کو خسارے کے بجٹ بنانا ہوتے ہیں۔یہ خسارہ فقط ملکی بینکوں سے قرض لے کر پورا نہیں ہوتا۔غیر ملکی اداروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔وہ قرض دیتے ہوئے شرائط عائد کرتے ہیں۔ ان شرائط کو نرم کروانے کے لئے ہمیں ’’کچھ‘‘ دینا ہوتا ہے۔ہر حکومت کی لہذا یہ کوشش ہوتی ہے کہ ’’بہت کچھ‘‘ دئیے بغیر یہ شرائط نرم کروائی جائیں۔’’بہت کچھ‘‘ دینے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ قومی خزانے میں ٹیکسوں کے ذریعے مناسب رقم جمع ہوجائے۔ اس مالیاتی سال کے لئے یہ رقم میسر نہیں۔ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو متعارف کروانا ضروری ہوگیا۔تحریک انصاف کے چند ’’انقلابی‘‘ وزیر مگر اس کے لئے تیار نہیں۔’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ والا سوال اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔مجھ ایسے باقاعدہ ٹیکس گزار اور آمدنی کے اعتبار سے بتدریج کمزور ہوتے ہوئے کالم نگاروں کو ’’انقلابی‘‘ وزیروں کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑاہوجانا چاہیے۔ اصولوں پر ڈٹ جانے کی ہمت سے لیکن Big Pictureکو ذہن میں رکھتے ہوئے محروم ہوچکا ہوں۔اپنی بات سمجھانے کو فقط یہ حقیقت یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اوبامہ نے Change(تبدیلی)کا نعرہ بلند کرتے ہوئے امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر منتخب ہونے کی تاریخ بنائی تھی۔اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر اسے دریافت ہوا کہ امریکی بینک لوگوں میں ’’آسان شرائط‘‘ پر قرض بانٹتے ہوئے دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ Changeکا نعرہ لگاکر وائٹ ہائوس پہنچنے والا اوبامہ ان بینکوں کو بھاری بھر کم بیل آئوٹ پیکیج دینے پر مجبور ہوا۔اس کی Baseبینکوں کو بچانے کی وجہ سے اس سے بہت مایوس ہوئی۔ امریکی معیشت مگر سنبھل گئی اور اسی کی بدولت آج کا امریکہ معاشی اعتبار سے بہت مزے میں ہے۔پاکستانی معیشت میں بھی اس وقت کچھ رونق لگانے اور اسے طویل المدتی بنیادوں پر مستحکم بنانے کے لئے لچک دکھانا اور سمجھوتے کرنا ضروری ہوگیا ہے۔’’انقلابی‘‘ تقاریر سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ