منگل کی صبح جو کالم چھپا ہے اسے پیر کے دن لکھ کر دفتر بھجوا دینے کے بعد دل میں ٹھان لی تھی کہ کم از کم اس ہفتے معیشت کے بارے میں مزید نہیں لکھا جائے گا۔ دوسرے موضوعات پر بات ہو گی۔
چند روز سے مختلف وجوہات کی بنا پر قومی اسمبلی نہیں جاسکا۔ میڈیا کے ذریعے یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ قبائلی عوام کی ’’محبت‘‘ میں پیپلز پارٹی، نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ اور تحریک انصاف یکجا ہو گئے۔ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ مولانانے فاٹا کے خیبر پختونخواہ میں انضمام کی شدید مخالفت کی تھی۔ قومی اسمبلی میں مگر ان کی جماعت آئین میں 26ویں ترمیم کی حمایت میں کھڑی ہو گئی۔
قبائلی علاقوں سے منتخب ہوئے ایک رکن نے ’’نجی حیثیت‘‘ میں اس ترمیم کی تجویز دی تھی۔ موصوف کا تعلق اس تحریک سے ہے جسے کئی ریاستی ادارے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس رکن کی جانب سے تجویز کردہ ترمیم کو حکومت اور اپوزیشن نے دل و جان سے قبول کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ وگرنہ یہ تمام فریقین فروعی باتوں پر بھی ایوان میں ہلہ گلہ مچاتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے کو ہمہ وقت تیار۔
ایک بار پھر لکھ رہا ہوں کہ نظر بظاہر قبائلی عوام کے ’’احساسِ محرومی‘‘ کے تدارک کے لئے حکومت اور اپوزیشن کا یکجا ہو کر دوتہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرنا انتہائی خوش گوار عمل ہے۔ اندھی نفرت و عقیدت میں تقسیم ہوئے سیاست دان شاذہی ہمیں ایسی خوش خبریاں فراہم کرتے ہیں۔ رپورٹر مگر جھکی ہوتے ہیں۔ ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو…‘‘ والے سوالات اٹھانے کے عادی۔
قبائلی علاقوں کی صورت تحال پر تسلسل سے لکھنے والوں میں میرے بھائی سلیم صافی بہت نمایاں رہے ہیں۔ میں بدترین حالات میں بھی ان کے چند خیالات سے اختلافات کے باوجود ان کی نیت اور خلوص پر شک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں میں گفتگو کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کے مابین آئین میں 26ویں ترمیم کے لئے ہوئے ’’اتحاد‘‘ کو ’’سازش‘‘ ٹھہرا رہے ہیں۔
میں ’’سازش‘‘ والے دعویٰ کو شاید نظرانداز کر دیتا۔ قومی اسمبلی سے مگر قبائلی علاقوں سے متعلق ترمیم کو منظور کروانے کے بعد اسے سینٹ بھیجنا ضروری تھا تاکہ ایوانِ بالا سے بھی فی الفور منظور ہو کر یہ ترمیم آئین کا حصہ بن جاتی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ سینٹ کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ شاید اب اسے جون کے مہینے میں طلب کرنا پڑے۔اس مہینے میں لیکن بجٹ منظوری کے لئے پیش ہوتا ہے۔ سینٹ بجٹ کی منظوری تو نہیں دیتا۔ یہ اختیار صرف قومی اسمبلی کو حاصل ہے۔ تجویز کردہ بجٹ کو لیکن ایوانِ بالا میں بحث کے لئے پیش ضرور کیا جاتا ہے اور جن دنوں پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بجٹ زیر بحث ہو ان دنوں قانون سازی سے متعلق کوئی اور کام نہیں ہوتا۔ مختصراََ قومی اسمبلی سے منظور ہوئی ترمیم کو آئین کا حصہ بننے کے لئے کم از کم جولائی کے وسط تک انتظار کرنا ہو گا۔
سوال میرے خبطی ذہن میں اب یہ اُٹھ رہا ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن واقعتا یکسو ہو کر آئین میں 26ویں ترمیم کے ذریعے قبائلی عوام کا ’’احساسِ محرومی‘‘ دور کرنا چاہ رہے تھے تو قومی اسمبلی سے منظور کروانے کے فوری بعد اسے سینٹ کے اجلاس میں منگل کی شام کیوں پیش نہیں کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں دکھائی عجلت کو سینٹ سے دکھائی لاتعلقی کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو…‘‘ والا شک ذہن میں وسوسے پیدا کرتا ہے۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہا تو ذہن کو تسلی دینے والا فقط ایک امکان نظر آیا اور وہ یہ کہ شاید حکومت نے سینٹ کے اجلاس کو بھی قومی اسمبلی کے ساتھ پیر کی شام کو ختم کردیا کیونکہ وہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس کی ’’ایمنسٹی سکیم‘‘ متعارف کروانا چاہ رہی ہے۔
منگل کی صبح یہ کالم لکھنے تک خبر گرم تھی کہ اس روز ہوئے کابینہ کے اجلاس میں مجوزہ سکیم کی منظوری دی جائے گی۔ ایسی ہی سکیم اسد عمر کئی ہفتے قبل متعارف کروانا چاہ رہے تھے۔ ان کے ساتھی وزراء خاص طورپر مراد سعید جیسے ’’نظریاتی کارکن‘‘ مگر ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو کوئی رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ’’ٹیکس چوروں‘‘ کے ’’اصولی بنیادوں‘‘ پر دل وجان سے دشمن وزراء کو قائل کرنے کے لئے کابینہ کے یکے بعد دیگرے دو اجلاس ہوئے۔ اسد عمر کو منظوری نہیں ملی۔ اس کے بعد وہ IMFسے مذاکرات کے لئے واشنگٹن چلے گئے۔ وہاں سے لوٹے تو کابینہ ہی سے فارغ ہوگئے۔
سوال اٹھتا ہے کہ ’’اصولی بنیادوں‘‘ پر ٹیکس چوروں‘‘ کے دل وجان سے دشمن مراد سعید جیسے وزراء حفیظ شیخ کی متعارف کردہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو منظور کرنے پر اب کیوں تیار ہوگئے ہیں۔ یہ ’’رعایت‘‘ وہ اپنے دیرینہ ساتھی اسد عمر کو دینے کو تیار کیوں نہ ہوئے۔
اس سوال کا جواب معقول ذہن سے تلاش کریں تو دریافت ہوتا ہے کہ سیاست نام ہی سمجھوتوں کا ہے۔ ’’اصول‘‘ یہاں کام نہیں آتے۔اقتدار بچانے کے لئے جھکنا ضروری ہے۔ آپ جھکنے میں لیت ولعل سے کام لیں تو تلخ حقائق بالآخر آپ کو لچک دکھانے کو مجبور کردیتے ہیں۔
پیر کے روز تلخ حقیقت یہ سامنے آئی کہ آئی ایم ایف سے ابتدائی معاہدہ ہوجانے کے باوجود اسٹاک ایکس چینج ’’تاریخی‘‘ حد تک گرگیا۔ اتوار کی رات حفیظ شخ صاحب نے ٹی وی پر نمودار ہوکر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی نوید یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے سنائی تھی کہ پیر کے دن ’’بازار‘‘ میں اس کے بارے میں خوش گوار ردعمل دیکھنے کو ملے گا۔ نتیجہ اس کے برعکس آیا۔
سٹاک ایکس چینج پر پیر کے روز حاوی ہوئی مندی اور خوف نے حکومت کو پیغام یہ دیا ہے کہ اس ملک کے سرمایہ کار IMFسے سمجھوتے کی شرائط طے ہوجانے کے باوجود مطمئن نہیں ہوئے۔ انہیں مبینہ ’’ٹیکس چوروں‘‘ کے دلوں میں جاگزیں ہوئے خوف سے نجات کے لئے ’’ایمنسٹی سکیم‘‘ کی اشد ضرورت ہے۔ اسی باعث منگل کے روز کابینہ کا اجلاس اس سکیم کو منظور کرنے میں عجلت دکھائے گا۔ جان کی امان طلب کرتے ہوئے اگرچہ یہ سوال بھی اٹھا رہا ہوں کہ اگر ممکنہ ’’ٹیکس ایمنسٹی‘‘ سکیم کو کابینہ سے منظور کرانے کے بعد صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فی الفور لاگو کر دیا گیا اور سٹاک ایکس چینج نے پھر بھی رونق نہ دکھائی تو اس بار دوش کس کے سر رکھا جائے گا؟
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ