زرتاج گل صاحبہ سے میں کبھی نہیں ملا۔ ان کی ذات، خاندان اورسیاسی تاریخ سے بھی ہرگز آگاہ نہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے لغاری خاندان کو مگر خوب جانتا ہوں۔ مرحوم سردار فاروق خان لغاری سے پہلی ملاقات 1982میں ہوئی تھی۔ اپنے خاندانی اور بیوروکریٹک پس منظر کی وجہ سے وہ روایتی سیاست دانوں کی طرح رپورٹروں کی دلجوئی سے اجتناب برتتے تھے۔ میری تحریروں کی انہوں نے پہلی ملاقات ہی میں کافی تعریف کی۔ اس ملاقات کے بعد سے تعلق گہرا ہوتا چلا گیا۔ 1988کے انتخابات کے بعد وہ اسلام آباد منتقل ہوئے تو ان سے دوستانہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
سردار صاحب اور خواجہ طارق رحیم نے لاہور کے ایچی سن کالج میں کئی برس اکٹھے گزارے تھے۔ ان دونوں کے مابین بے تکلفانہ تعلقات تھے۔ پرانے لاہوری ہونے کے ناطے میں اور خواجہ صاحب بھی ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے۔ ان کی وجہ سے لغاری صاحب کے ساتھ تعلقات توانا تر ہونا شروع ہو گئے۔ پاکستان کا صدر منتخب ہونے کے بعد کئی بار انہوں نے مجھے ایوان صدر بلایا۔ ان کے ساتھ ہوئی آف دی ریکارڈ گفتگو کی بدولت مجھے کئی دھانسو خبروں کا پتہ چل جاتا۔ ان ملاقاتوں ہی کی وجہ سے مجھے بہت پہلے اندازہ ہو گیا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے رویے سے ناخوش ہو رہے ہیں۔ ستمبر 1996میں بالآخر مجھے یقین ہوگیا کہ وہ آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کو برطرف کرنے کو تیار ہو رہے ہیں۔ میں نے کئی سینئر سیاستدانوں سے اس خدشے کا اظہار کیا تو انہوں نے میرا مذاق اڑایا۔ اشاروں کنایوں میں لیکن اپنے کالموں کے ذریعے میں اپنے خدشے کا اظہار کرنے سے باز نہ آیا۔ میرے لکھے اور دوستوں کو بتائے خدشات بالآخر آصف علی زرداری تک بھی پہنچ گئے۔ نومبر 1996میں دوسری بے نظیر حکومت کی برطرفی سے عین دس دن قبل انہوں نے مجھے وزیراعظم ہاﺅس طلب کیا۔ میرے ایڈیٹر فاروق مظہر صاحب مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر ان کے پاس لے گئے۔ اس ملاقات میں آصف صاحب بہت اعتماد سے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ ”لغار (لغاری) ہماری حکومت کو برطرف کرنے کی خواہش تو رکھتا ہے مگر اس خواہش پر عمل درآمد کی ہمت سے محروم ہے“۔ وہ غلط ثابت ہوئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ طولانی تمہید کے بعد آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ فاروق صاحب کے فرزند اویس لغاری اپنے والد کے ساتھ تعلق کی وجہ سے میرا بہت احترام کرتے ہیں۔ محترمہ زرتاج گل نے 2018کے انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کیا۔ میں حیران رہ گیا۔
2018کے انتخابی عمل پر واجب یا غیر واجب سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ سردار فاروق لغاری سے گہرے تعلق کے باوجود میں نے ان کے سیاسی وارثوں کی شکست کو مگر کھلے ذہن سے تسلیم کرنے کی کوشش کی۔ بہت خلوص سے اس امکان پر غور کیا کہ زرتاج گل صاحبہ نے ایک Drivenسیاسی کارکن کی لگن اور توانائی سے ڈی جی خان میں تحریک انصاف کے لئے ابھری امیدوں کو Grass Roots Activismکے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے لغاری خاندان کو ان کے ”ا?بائی حلقے“ میں شکست سے دو چار کردیا ہوگا۔اس تجزیے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے یہ امید بھی باندھ لی کہ محترمہ زرتاج گل صاحبہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہونے کے بعد سیاسی میدان میں مزید کامیابیوں سے ہم کنار ہوں گی۔ ضمنی انتخاب کے ذریعے لیکن اویس لغاری پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید محترمہ زرتاج گل کی کامیابی One Time Flukeتھا۔ ان کی جماعت کو فی الوقت ڈی جی خان میں طویل المدتی گہرائی اور گیرائی میسر نہیں ہوئی۔محترمہ زرتاج گل صاحبہ کے پاس مگر اسے Build کرنے کے لئے بہت وقت اپنی جگہ موجود تھا۔سوشل میڈیا پر لیکن آج سے چند ماہ قبل ایک وڈیو وائرل ہوئی۔ اس وڈیو میں ماحولیات کی وزیر ہوئی محترمہ زرتاج گل بہت اعتماد سے یہ دعویٰ کرتی سنائی دیں کہ پاکستان میں ہوئی غیر معمولی بارشیں اللہ کی رحمت ہیں۔ یہ رحمت عمران خان صاحب جیسے نیکوکار شخص کو ووٹ دینے کا اجر ہیں۔ Grass Roots Activismکی بدولت قومی اسمبلی میں پہنچنے والے کسی مستند سیاسی کارکن کو مذکورہ قصیدہ گوئی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ مزید افسوس یہ سوچتے ہوئے بھی ہوا کہ محترمہ زرتاج گل صاحبہ ماحولیات کی وزیر ہیں۔ ان کے دفتر میں سینکڑوں ایسی فائلیں موجود ہوں گی جن میں مستند اعداد و شمار، نقشوں اور چارٹس کی مدد سے ماحولیات کے موضوع پر تحقیق کرنے والوں نے متنبہ کیا ہو گا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان کا موسم بھی بدل رہا ہے۔ بے وقت کی غیر معمولی بارشیں اس کا ثبوت ہیں۔ خلقِ خدا کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ موسمی تبدیلیوں پر گہری توجہ دیتے ہوئے ممکنہ آفات سے نبردآزما ہونے کے راستے بنائے جائیں۔ اس وڈیو کو دیکھنے کے بعد میں نے محترمہ زرتاج گل صاحبہ کے بیانات پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ وہ میرے اندازوں سے قطعاََ برعکس ثابت ہوئیں۔گزشتہ تین دنوں سے مگر وہ ایک بار پھر میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ان کی ہمشیرہ کی نیکٹا جیسے ادارے میں تعیناتی زیر بحث ہے۔ تحریک انصاف کے دل و جان سے حمایتی افراد بھی اس تعیناتی کا دفاع نہ کر پائے۔ وزیراعظم کے بااعتماد معتمد نعیم الحق نے بلکہ اس کا نوٹس لئے جانے کی خبر سنائی ہے۔محترمہ شبنم گل صاحبہ کی تعیناتی کے لئے اپنائے حیران کن طریقہ کار کی بابت چسکہ بھری کہانیاں سناتے اینکر خواتین و حضرات اس اہم بات کو لیکن عموماََ نظرانداز کئے ہوئے ہیں کہ پاکستان ان دنوں FATFکی واچ لسٹ پر ہے۔ دہشت گردی کے فروغ کے لئے مبینہ طور پر ہوئی منی لانڈرنگ کی بنیاد پر ابھری اور پھیلتی تنظیموں پر نگاہ رکھنے کے لئے نیکٹا کو حتمی نگہبان بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔اس ادارے میں ایک اہم عہدے پر ہوئی تعیناتی مگر سکینڈل کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس کے اچھلنے کے بعد FATFمیں بیٹھے لوگ ہمارے نیکٹا کے بارے میں کئے دعوے کو کس طرح لیں گے اس کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں۔ حکومت کو Damage Controlکے لئے ہر صورت فوری طور پر انضباطی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ