چوروں اور لٹیروں کی شامت کے نام پر اقتدار میں آنے والی حکومت ،احتساب سب کے لیے کا نعرہ لگانے والی جماعت اپنا ہدف مکمل کر چکی کہ نوازشریف اور زرداری جیل میں ہیں ۔اب فیصل واڈکی مبینہ دھمکی بھی زبان زدعام ہے کہ ”پانچ ہزار بندہ لٹکا دیا جائے تو نظام بہتر ہو سکتا ہے“ ۔ایک بات حوصلہ افزا ہے اب اربوں روپے جو روزانہ لوٹے جارہے تھے وہ اب ملکی خزانے میں جمع ہورہے ہیں۔ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ بھی بند ہو چکی ہے۔ کروڑوں کا کمیشن جو مافیا کے خزانوں میں جارہا تھا وہ اب نہیں جارہا ۔ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاﺅس کے اخراجات جو ”بھینسوں “ کی مد میں تھے وہ بھی بچت سکیم کا حصہ ہیں۔
ہم مطمئن ہیں کہ نواز شریف اور زرداری کے قریبی دوست اور رشتہ دار جو اعلیٰ سرکاری و حکومتی عہدوں پر براجمان تھے اور سرکاری خزانہ لوٹ رہے تھے وہ بھی قصہ پارینہ ہوچکے یا پھر نیب کی زد میں آگئے ۔ اب جن کو افسر، عہدے دار یا ترجمان تعینات کیا گیا ہے سراسر”میرٹ “ پر کیا گیا ۔گزشتہ ادوار میں جو اقربا پروری تھی وہ اب نہیں کیونکہ زلفی بخاری ، نعیم الحق اور ان جیسے کئی پردہ نشین تو خدائی فوجدار ہیں جو اللہ کے فضل سے ہمیں ”عطا “ہوئے ہیں۔
جو لوگ نواز، زرداری اور مشرف کی حکومتوں میں وزیر رہے ، مشیر رہے وہ موجودہ حکومت نے صرف اس لئے کابینہ میں شامل کئے کہ وہ اب ایمان لائے ہیں پہلے تو لٹیرے تھے، چور تھے ،ڈاکو تھے۔اور پچھلی حکومتوں کی کہانیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ”مخبر“ بھی تو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
ایمانداری ، پارسائی ، چلہ کشی اور خاتون اول کی شب خیزی کے باوجود وطن عزیز پاکستان”پیچھے “ ہی جارہا ہے۔ غریب اور مڈل کلاس اب اپنی نوجوان اولاد کو گالیاں دیتی ہے جنہوں نے خودکشی کی دھمکی دے کر تحریک انصاف کو ووٹ دلوائے تھے اور نیا پاکستان ہمارے ”مقدر “میں لکھ دیا گیا۔
روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے جواب نہیں لوٹے جارہے ، وہ بھی معیشت کو سہارا نہیں دے پارہے ، کمیشن جو کھایا جارہا تھا اب نہیں کھایا جارہا مگر ہم روپے کو مستحکم نہیں کرپارہے ۔ اپنوں کو نوازنے اور عہدوں پر بٹھانے کی ”رسم محبت “جاری ہے۔
دوستوں اور یاروں کو سرکاری کارواں میں شامل کرکے نئے پاکستان کا مذاق بنایا جارہا ہے۔ ڈالر اونچی اڑان بھرچکا اور مزید اونچا جارہا ہے ۔ ٹیکس پر ٹیکس صرف ان سے لیا جارہا ہے جو اپنی تنخواہ پہلے ہی پندرہ دنوں میں خرچ بیٹھتے ہیں ۔ احتساب کا عمل انتقام بنتا جارہا ہے ۔امور حکومت سمجھ نہیں آرہے اور اپنی نا اہلی تسلیم کرنے کا حوصلہ کسی میں نہیں ۔ جب چور اور ڈاکو حکومت میں تھے تو چینی، آٹا ، گھی ، ادویات سستی تھیں۔ ہسپتالوں میں دوائی مفت تھی اور پارکنگ سستی ، میڈیکل ٹیسٹ ہر غریب آدمی کے لئے مشکل کا باعث نہ تھے۔ بجلی اور گیس سستی تھی، پیٹرول پہنچ میں تھا، احساس تحفظ تھا مگر یہ سب آسانیاں وہ چور اور ڈاکو ساتھ لے گئے اور قوم کو ایماندار اور دیانتدار حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے۔ فیصلہ ساز قوتیں بھی تماشہ دیکھ رہی ہیں کہ سرکاری نعرہ ”ابھی آپ نے گھبرانا نہیں“ اس پر کب تک اور کیسے عمل کرائیں؟ قوم ایک اور تجربے کی بھینٹ چڑھائی جارہی ہے ۔ بات برداشت سے باہر ہوچکی ہے ، لاوا پک چکا ہے، اس سے پہلے کہ نہتی اور مہنگائی کی ماری قوم اپنا فیصلہ خود کرے، اسے ریلیف دیا جائے۔پانچ سال پرانی تنخواہوں والی قوم کو 2050والا بجٹ دے کر ”گھبرانا نہیں“ کی نصیحت شائد اب قابل عمل نہ رہے۔
نواز شریف اور زرداری کو لٹکاﺅ یا لوٹا ہوا مال برآمد کراﺅ مگر عوام کو نئے پاکستان کے لئے دیے گئے ووٹ پر پچھتانے کے لئے زندہ چھوڑ دو۔
ہر ضرورت کی چیز کو بجٹ میں عیاشی کا سامان سمجھ کر مہنگا کردیا گیا ۔ بھلا پیمپر ، فیڈر، ادویات ، میک اپ کا سامان اور خشک دودھ کون سی عیاشی کے زمرے میں آتا ہے؟ بجلی کسی رقاصہ کا نام ہے جو سامان تعیش سمجھ کر قوت خرید سے دور کردی گئی ۔ قوم نے تبدیلی کے خواب کی تعبیر چاہی تھی اور چوروں ، لٹیروں کو ٹھکرایا تھا ، اک نیا پاکستان بنایا تھا مگر اب لگتا ہے ” چور تو اچھے تھے“ کا نعرہ قومی نعرہ بن رہا ہے۔