بات فقط ”سیزن“ لگانے کی ہے۔ ایم کیو ایم کے انتخابی نشان پر جو لوگ 2013 میں سندھ اسمبلی پہنچے تھے اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں قطعاًََ پراعتماد نہیں۔ مصطفےٰ کمال کی جانب سے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایک مکان میں کھولی ”ہٹی“ ایم کیو ایم کے روایتی ووٹ بینک کو متاثر نہیں کر پائی۔ فاروق ستار کے گرد جمع ہوئے لوگ بنیادی طورپر ”اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ“ والی پریشانی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ایم کیو ایم کے MPAsخود کو کسی بھی جماعتی نظم سے علیحدہ ہوکر سینٹ کے انتخابات کے دوران آزادانہ طورپر ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں 2018کے بعد ”غیر سیاسی“ زندگی گزارنے کے لئے کچھ رقم بھی مل سکتی ہے۔
تھوڑی راحت کے ساتھ گوشہ نشینی کی سہولت۔ بات فقط ”سیزن “ لگانے کی ہے۔ گزشتہ دو روز سے مگر ہمارے ٹی وی چینلز ہیجانی آوازوں کے ساتھ تاثر یہ اجاگر کرنے میں مصروف ہیں کہ فاروق ستار کی سربراہی میں بچی ایم کیو ایم میں بھی ”نظریاتی اختلافات“ پیدا ہوگئے ہیں۔ کامران ٹیسوری کا نام بھی بہت گونج رہا ہے۔اربابِ رقم کی جی حضوری کے بعد پیر پگاڑا کی فنکشنل مسلم لیگ سے گزرتے ہوئے یہ صاحب ایم کیو ایم کی صفوں میں گھس آئے تھے۔ دوستوں کی مدد کرنے میں فیاض شمار ہوتے ہیں۔
فاروق ستار کا یہ خیال بھی ہے کہ ایم کیو ایم کے چند مشتبہ افراد کی ”سکیورٹی کلیئرنس“ درکار ہوتو ان صاحب کی سفارش بہت کام آتی ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کی بقاءکے لئے لہذا ضروری ہے کہ انہیں سینٹ کا رکن منتخب کروالیا جائے۔عامر خان کے گردجمع ہوئے لوگ مگر کامران ٹیسوری کو ”گھس بیٹھیا“ قرار دیتے ہیں۔ان کا اصرار ہے کہ سینٹ کے ٹکٹ دیتے وقت ایم کیو ایم صرف ”نظریاتی طور“ پر پکے کارکنوں کو ترجیح دے۔ دونوں گروہوں کے مابین کئی ملاقاتوں کے باوجود یہ کالم لکھنے تک معاملہ حل نہیں ہوا تھا۔ نظر بظاہر ”حل“ ہوبھی گیا تو ”سیزن“ کی کشش اپنی جگہ برقرار ہے گی۔اس کے جلوے سینٹ انتخابات کے دوران ہر صورت دیکھنے کو ملیں گے۔
یہ حقیقت مگر اپنی جگہ قائم رہے گی کہ چند بہت ہی ٹھوس، مناسب اور واجب وجوہات کی بنیاد پر 1978میں قائم ہونے والی ایم کیو ایم اپنے عروج کی انتہاؤں تک پہنچنے کے بعد اب فضا میں تحلیل ہونا شروع ہوچکی ہے۔ اس کی بقاءیا کسی بھی شکل میں احیاءممکن ہی نہیں۔ سندھ میں ”شہری“ کا لفظ قیامِ پاکستان کے بعد سے 2000ءکے آغاز تک صرف اُردو بولنے والے ان خاندانوں تک مختص رہا جو برطانوی ہند میں ان صوبوں کے رہائشی تھے جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک جدا وطن کے قیام کی خواہش ان ہی صوبوں میں شدید تر رہی۔ پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ان صوبوں سے لاکھوں افراد نقل مکانی کرکے نئے ملک آگئے۔ کئی ٹھوس وجوہات کی بناءپر ان کی بے پناہ اکثریت نے کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کو اپنا مسکن بنایا۔کراچی نئے ملک کا دارالحکومت بنا۔
جمہوری نظام مگر اسے نصیب نہ ہوا۔ 1950کی دہائی شروع ہوتے ہی انگریزوں کی تربیت یافتہ افسر شاہی نے سیاست دانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کرنا شروع کردیا۔ اُردو بولنے والوں کو افسر شاہی سے خاص شکایات نہیں تھیں۔ ان کے نمایاں لوگ بلکہ ”علی گڑھ“ کے ترجمان تصور ہوتے تھے۔ سرسید کے پیروکار مانے یہ افسر لسانی عصبیتوں سے بالاتر ہوکر پاکستان کو متحداور جدید بنانے کی لگن میں جٹے نظر آئے نوکر شاہی کے عروج نے مگر عسکری قیادت کو بھی ”ملک سنوارنے“ کے لئے Vanguardکا کردار ادا کرنے پر اکسایا۔ 1958ہوگیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان ”انقلاب“ لے آئے۔ دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا اور ریاستی فیصلہ سازی کے عمل میں کراچی کا کردار ثانوی ہوگیا۔
1964کے صدارتی انتخاب میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں کھڑے ہوکر سندھ کے”شہریوں“ نے اس ضمن میں اپنے دُکھ کا اظہار کیا۔آمرانہ نظام کی بدولت بالآخر پاکستان 1971میں دولخت ہوگیا تو بنگلہ دیش میں محصور ہوئے ”پاکستانیوں“ کو ہم نے اپنانے سے انکار کردیا۔ 1973کے آئین سے قبل ہی سندھ میں لسانی بل بھی آگیا۔ اس صوبے کے ”شہریوں“ نے محسوس کیا کہ روایتی جاگیرداروں کی محتاج بنائی ”نئی سیاست“ میں ان کے لئے آگے بڑھنے کی کوئی گنجائش نہیں۔کوٹہ سسٹم نے سرکاری ملازمتوں کے حوالے سے بھی کئی مشکلات کھڑی کردیں۔مغائرت کا احساس جس نے بالآخر ایم کیو ایم کو جنم دیا اور مضبوط سے مضبوط تربنایا۔
1988کے بعد سے آئی ہر حکومت میں اس جماعت نے اپنے جثے سے کہیں بڑھ کر ڈکٹیشن دیتے ہوئے اپنا حصہ وصول کیا۔ ایسا کرتے ہوئے لیکن وہ اپنی Core Constituencyکے بنیادی مسائل حل نہیں کر پائی۔ لسانی بل اور کوٹہ سسٹم اپنی جگہ موجود ہے۔ اپنی طاقت کے نشے میں چور ایم کیو ایم یہ حقیقت بھی تسلیم نہ کر پائی کہ سندھ کا Demographic Profile ٹھوس معاشی وجوہات کی بناءپر تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ کراچی اس وقت دنیا کا وہ واحد شہر ہے جہاں پشتو بولنے والے پشاور اور مردان کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ اندرونِ سندھ کے سندھی بولنے والے ہنرمند اور نچلے متوسط طبقے بھی کثیر تعداد میں اس شہر میں آبسے ہیں۔گزشتہ چند برسوں سے جنوبی پنجابی کے قصبات سے بھی ہزاروں خاندان وہاں منتقل ہورہے ہیں۔
Demographicحوالوں سے ابھری نئی حقیقتوں کا تقاضہ تھا کہ سندھ میں”شہری“ کی ترکیب کو ازسرنو Defineکیا جاتا۔ اس کی روشنی میں نئی سیاست ہوتی جو کراچی میں نہیں سندھ کے تمام شہروں کے رہائشیوں کو ایسے ”شہری“ بناتی جن کے حقوق و فرائض ہوتے ہیں اور ریاست کے ساتھ ان حقوق کے حصول کے لئے لسانی اور نسلی تقسیم سے بالاتر ہوکر کسی Inclusive پلیٹ فارم کے ذریعے مکالمے کا آغاز ہوتا ہے۔ اپنی جداگانہ شناخت پر بضد MQMیہ پلیٹ فارم مہیا نہ کر پائی۔ اس کے Exclusive روئیے نے بلکہ کراچی میں موجود دیگر لسانی گروہوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ اس کی نقالی میں اپنے لئے مختص ”علاقے“ بنائے۔
ان علاقوں میں ریاست کے اندر متوازی ریاستیں قائم کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی۔اس تڑپ نے بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے رحجانات کو فروغ دیا اور بالآخر ہماری ریاست کو اپنے طاقت ور ترین اداروں کے ذریعے غیر معمولی اقدامات اٹھاکر کراچی میں امن کی بحالی کے سامان پیدا کرنا پڑے۔غیر معمولی اقدامات کی بھی مگر ایک Expiry Date ہوتی ہے۔ دیرپا امن لیکن جاندار سیاسی عمل کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس عمل کو متعارف کروانے کے لئے تازہ سوچ والے ذہن درکار ہیں۔ فی الوقت وہ منظرِ عام پر نہیں آئے ہیں۔ ایم کیو ایم کی تحلیل کا عمل البتہ تیزی سے جاری ہے۔ اس دوران سینٹ کے انتخابات کا ”سیزن“ آگیا ہے۔ایم کیو ایم کے MPAs اس سے کچھ ذاتی فوائد حاصل کرنے کے بعد تاریخ کی کھائیوں میں گم ہوجائیں گے۔
(بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ