ریکوڈیک کے حوالے سے پاکستان کے خلاف فیصلہ آیا تو وزیر اعظم نے اٹارنی جنرل کو اپنے دفتر طلب کیا۔میڈیا کے ذریعے اس ملاقات کے بعد خبر یہ ملی کہ اٹارنی جنرل کو ایک عدالتی کمیشن بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہ کمیشن ان وجوہات کی نشان دہی کرے گا جن کے سبب ہمارے خلاف ایک عالمی ادارے کی جانب سے تقریباََ چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا۔ وجوہات اور متعلقہ واقعات کی نشان دہی کے بعد کیا ہوگا،اس کے بارے میں خاموشی ہے۔محض ایک صحافی ہوتے ہوئے اگرچہ جبلی طورپر میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر عملدرآمد کے لئے اٹارنی جنرل کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔ بھاری بھر کم جرمانہ پاکستان کو سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بنچ کی جانب سے آئے فیصلے کی وجہ سے عائد ہوا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اس بنچ کی سربراہی فرمارہے تھے۔ مجوزہ عدالتی کمیشن کو اصولی طورپر اس فیصلے کو اپنی توجہ کا مرکز بنانا ہوگا۔
اٹارنی جنرل کو ملی ہدایت پر مبنی خبر پر لیکن ہمارے میڈیا نے کماحقہ توجہ نہیں دی۔اندھی نفرت وعقید ت سے بالاتر ہوکر سوچا جائے تو عدالتی کمیشن کے ذریعے سپریم کورٹ کی جانب سے آئے فیصلے کو ’’زیر تفتیش‘‘ لانا ایک بہت ہی جرأتمندانہ فیصلہ ہے۔ کئی اعتبار سے یہ تاریخی بھی ہے کہ اس کے ذریعے ایک Precedent Set(نظیر) ہوجائے گا۔
وطنِ عزیز کی تاریخ میں ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ نے کئی ایسے فیصلے دئیے ہیں جو کئی وجوہات کی وجہ سے متنازعہ رہے۔ جسٹس منیر سے کہانی شروع ہوئی تو ایوب خان کے 1958میں لگائے مارشل لاء کو جائز ٹھہرانے پر منتج ہوئی، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف اس نظیر کی بدولت ہی کئی برسوں تک ہمارے بہت ہی بااختیار صدر رہے۔جنرل یحییٰ خان کے لگائے مارشل لاء کو سانحہ مشرقی پاکستان ہوجانے کے بعد سپریم کورٹ نے مشہور زمانہ عاصمہ جیلانی کیس کے ذریعے ’’ناجائز‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ فیصلہ ہوجانے کے باوجود مگر جنرل یحییٰ کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہوگا کہ ہمارے سپریم کورٹ نے جنرل ضیاء کی جانب سے جونیجو حکومت کی برطرفی کو بھی خلاف آئین ٹھہرایا تھا۔یہ فیصلہ مگر جنرل ضیاء کی ایک فضائی حادثے میں وفات کے بعد آیا۔جونیجو حکومت کو اس فیصلے کے باوجود بحال نہیں کیا گیا تھا۔ نئے انتخابات کی ضرورت پر اصرار ہوا۔
1988ء کے انتخابات کے ذ ریعے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو اسے صدر غلام اسحاق خان نے اگست 1990ء میں انہی بنیادوں پر فارغ کردیا جو جنرل ضیاء نے جونیجو حکومت کو برطر ف کرنے کا سبب بتائی تھیں۔جونیجو حکومت کی برطرفی کو ’’خلافِ آئین‘‘ ٹھہرانے والی سپریم کورٹ نے مگر صدر اسحاق خان کے فیصلے کو ’’آئینی‘‘ ٹھہرایا۔ اسی صدر اسحاق نے مگر جب 1993ء میں نواز شریف حکومت کو فارغ کیا تو جسٹس نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے اسے ’’خلافِ آئین‘‘ ٹھہراتے ہوئے وزیر اعظم کو ان کے منصب پر بحال کردیا۔مذکورہ فیصلے کو اس وقت کے سپیکر گوہر ایوب خان نے پارلیمان کی دیواروں پر نمایاں طورپر کندہ کروارکھا ہے۔اس فیصلے کے باوجود آرمی چیف کی مداخلت کی وجہ سے 1993ہی میں نئے انتخابات کروانا پڑے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ان انتخابات کی بدولت دوبارہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوگئیں۔ ان کی حکومت کو مگر 1996میں پیپلز پارٹی کے ’’فاروق بھائی‘‘ نے بطور صدر فارغ کردیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو جائز قرار دیا۔ نواز شریف اس فیصلے کے بعد ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ وزیر اعظم کے دفتر میں واپس آگئے۔ ان کی حکومت کو اکتوبر1999ء میں جنرل مشر ف نے ٹیک اوور کے ذریعے فارغ کردیا۔اس ٹیک اوور کو بھی سپریم کورٹ نے ایوب اور ضیاء کے مارشل لاؤں کی طرح جائز ٹھہرایا۔ منتخب حکومتوں کی تقدیر کے فیصلے کرنے والے ان تمام واقعات کا بخوبی جائزہ لیں تو آئینی اور قانونی معاملات کے حتمی ماہرین بھی یہ طے نہیں کرسکتے کہ ووٹ کے ذریعے قائم ہوئے اداروں کے ضمن میں ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کونسی ’’نظیر‘‘ ایک ریڈ لائن کی طرح لگارکھی ہے جس کی خلاف ورزی کسی صورت ممکن نہیں۔ریکوڈیک کا معاملہ اگرچہ اپنی سرشت میں ’’سیاسی‘‘ نہیں تھا۔حکومتِ پاکستان کا ایک غیر ملکی کاروباری ادارے کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کی افتخار چودھری صاحب کے بنچ نے تنسیخ کردی۔ اس تنسیخ کے خلاف وہ غیر ملکی کمپنی عالمی عدالت میں چلی گئی۔اس نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔عدالتی کمیشن کے ذریعے افتخار چودھری کی سربراہی میں قائم ہوئے بنچ کے فیصلے کے مضمرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک تاریخی نظیر مگر طے ہوجائے گی۔عمران حکومت اس کی روشنی میں سپریم کورٹ کے دیگر فیصلوں پر تقریباََ ’’نظرثانی‘‘ کا اختیاربھی حاصل کرلے گی۔ فرض کیا وہ ایسے اختیار کو استعمال نہ بھی کرے تو آئندہ آنے والی کوئی حکومت ’’عدالتی کمیشن‘‘ کے ذریعے ’’نظرثانی ‘‘ والے اختیارات استعمال کرنے کی جانب راغب ہوسکتی ہے۔اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر سپریم کورٹ کے ہماری حالیہ تاریخ میں ہوئے کونسے فیصلے ’’نظرثانی‘‘ کی زد میں آسکتے ہیں ان کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔یہ بات مگر ہمیں تسلیم کرنا ہوگی کہ ریکوڈیک کے ضمن میں آئے فیصلے کو زیر بحث لاتے ہوئے عمران حکومت ٹھوس حوالوں سے ایک تاریخی نظیر بنادے گی۔ میڈیا نے اس پہلو پر لیکن توجہ نہیں دی ہے۔ فی الوقت ساری گہماگہمی ملتان میں چوری چھپے بنائی ایک وڈیو کے گرد گھوم رہی ہے۔
دریں اثناء لندن کے ’’دی میل‘‘ میں ایک دھواں دھار خبربھی شائع ہوچکی ہے۔اس کے ذریعے الزام لگاہے کہ شہباز شریف اور ان کا خاندان برطانوی اداروں سے غریبوں کی مدد کے لئے آئی رقوم کو اپنا کاروبار چمکانے کے لئے استعمال کرتا رہا۔ ایمان داری کی بات ہے کہ چسکے کی طلب میں ان کہانیوں سے پنجابی محاورے والا میرا ’’رانجھا‘‘ بھی راضی ہوتا رہا ہے۔ان دوموضوعات کی وجہ سے ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر لگی رونق سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی لیکن میں غور سے اخبارات پڑھ کر یہ جاننے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ ریکوڈیک کے ضمن میں عدالتی کمیشن کے قیام کی ہدایت کے بارے میں کیا پیشرفت ہوئی ہے۔ مجھے اس ضمن میں کوئی خبر کسی اخبار میں نظر نہیں آئی۔ دیکھنا ہوگا کہ عدالتی کمیشن کے قیام والی بیل منڈھے چڑھے گی یا نہیں۔عدالتی کمیشن بن بھی گیا تو اس کے بنائے (TORs) Terms of Referenceکو بہت غور سے پڑھنا ہوگا۔فوری طورپر میرے جھکی ذہن میں اگرچہ یہ سوال کھدبد مچائے ہوئے ہے کہ مجوزہ کمیشن بن بھی گیا تو ’’فیدا کی‘‘۔چھ ارب ڈالر کاجرمانہ عائد ہوچکا۔ پاکستانی معیشت کسی طوراس جرمانے کا بوجھ اُٹھانہیں سکتی۔یوں محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے خلاف مقدمہ جیتنے والی کمپنی ہی سے کسی صورت مک مکا کی راہ نکالنا ہوگی۔ ’’حق بہ حقدار رسید‘‘ والا قصہ ہوجائے گا۔ریکوڈیک کے ذخائر سے ہم کوئی فائدہ اٹھانہیں پائے۔ ہم سے ’’مک مکا‘‘ کرتے ہوئے اس منصوبہ سے متعلق بین الاقوامی کمپنی اپنے منافع کو مزید بڑھانے پر توجہ دے گی۔ایک انتہائی افسوس ناک صورت حال کی طرف دھکیلنے والوں کی نشان ہی ہوبھی گئی تو ان افراد سے 6ارب ڈالر کی خطیر رقم وصول نہیں ہوسکتی۔ زیادہ سے زیادہ چند افراد کو جیلوں میں بھیجا جاسکتا ہے۔ ان کے جیل جانے سے وقتی مگر جذباتی تسکین ہی میسر ہوسکتی ہے۔ مالی حوالوں سے پاکستان کا جو نقصان ہوا اس کا ازالہ نہ ہوپائے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ