میری ناقص رائے میں پیر کی رات پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب کو پریس کانفرنس سے تفصیلی خطاب کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔یہ بات درست ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے بعد صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی فون کیا۔اس فون کے ذریعے ہوئی گفتگو کے اہم نکات ایک پریس ریلیز کے اجراء کے ذریعے ہم عامیوں کے روبرو لائے جاسکتے تھے۔شاہ محمود قریشی صاحب نے مگر ایک ’’ہنگامی‘‘ نظر آتی پریس کانفرنس سے خطاب غالباََ ہمیں یہ سمجھانے کے لئے ضروری سمجھا کہ امریکی صدر نے درحقیقت پاکستانی وزیر اعظم کے ایماء پر بھارتی وزیر اعظم سے فون پر گفتگو کی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ نظر بظاہر حقیقت پرمبنی ہے۔ اس دعویٰ کا بہت مان سے ذکر کے بعد لیکن مجھ جیسے ذات کے رپورٹر یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہیں کہ نریندرمودی سے گفتگو کے ذریعے ڈونلڈٹرمپ نے پاکستان کے لئے ’’کیا‘‘ حاصل کیا۔ فوری تناظر میں اس سوال سے بھی کہیں زیادہ اہم یہ معلوم کرنا ہوگا کہ کیا ٹرمپ کی مودی سے ہوئی گفتگو کی بدولت مقبوضہ کشمیر کی وسیع وعریض جیل میں محصور ہوئے 80لاکھ انسانوں کو تھوڑی ’’ریلیف‘‘ ملی یا نہیں۔یہ کالم لکھنے تک مقبوضہ کشمیر میں کرفیو بدستور نافذ تھا۔موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی بحال نہیں ہوئے ہیں۔لینڈ لائن والے فون بھی خاموش ہیں۔دو ہفتوں سے مسلط ہوئے لاک ڈائون میں ذرا نرمی کی بھی کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی۔حکومتِ پاکستان کو محض فون پر ہوئی گفتگو کی بناء پر سینہ پھیلاتے ہوئے کریڈٹ لینے کی لہذا کوئی ضرورت نہیں تھی۔ٹرمپ کا سفارتی انداز میں وزیر خارجہ کی جانب سے ’’شکریہ‘‘ ادا کرنے کی ٹھوس بنیاد فی الحال میسر نہیں ہے۔
پیر کی سہ پہر نریندر مودی کے دفتر سے ٹویٹس کے ذریعے ہمیں یہ بتایا گیا کہ امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان فون پر 30منٹ لمبی گفتگو ہوئی ہے۔مذکورہ گفتگو کے اہم نکات کو چار مختصر ترین پیروں میں بیان کردیا گیا۔ ان پیروں کو غور سے پڑھتے ہوئے ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ پاک-بھارت کشیدگی اس گفتگو کا حقیقی موضوع رہی ہے۔سادہ ترین الفاظ میں ہم یہ باور کرسکتے ہیں کہ ٹرمپ نے فون اٹھاتے ہی نریندرمودی کو یاد دلایا ہوگا کہ گزشہ جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کشمیر کے موضوع پر اجلاس شروع ہونے سے چند لمحے قبل پاکستان کے وزیر اعظم نے اسے فون کیا تھا۔ اس فون کے ذریعے عمران خان صاحب نے یقینا ڈونلڈٹرمپ کو یاد دلایا ہوگا کہ 22جولائی کے روز اس نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی خواہش کو بروئے کار لائے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرے میں ہوئے اجلاس میں لیکن امریکہ نے فرانس کے ساتھ مل کر مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات کے بارے میں ’’تشویش‘‘ کے باقاعدہ اظہار کی بھی مخالفت کردی۔ بھارت کو برسرِ عام سبکی سے بچانے کے بعد ٹرمپ نے پیر کے روز مودی سے یقینا اس خواہش کا اظہار کیا ہوگا کہ پاک-بھارت کشیدگی کو مزید سنگین بنانے سے روکا جائے۔پیر کے روز بھارتی حکومت کی جانب سے جاری ہوئی پریس ریلیز کو غور سے پڑھیں تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ کی مذکورہ خواہش کے جواب میں نریندرمودی نے عمران خان صاحب کے حالیہ بیانات کاحوالہ دیا ہوگا جن کے ذریعے وہ بھارتی وزیر اعظم کو دورِحاضر کا ’’ہٹلر‘‘ پکارنا شروع ہوگئے ہیں۔ ’’سخت اور اشتعال انگیز (Extreme Rhetoric)‘‘ لہجے اور الفاظ کے استعمال کا ذکر اسی تناظر میں ہوا۔بھارتی پریس ریلیز میں اگرچہ عمران خان اور پاکستان کا براہِ راست نام لینے کے بجائے "Certain Leaders in the Region” یعنی(جنوبی ایشیائ) کے ’’چند رہ نماؤں‘‘ کے بیانات کا ذکر ہوا۔ اس کے علاوہ ’’دہشت گردی‘‘ کی داستان بھی دہرائی گئی۔
بھارتی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہوئے بیان کے چند گھنٹے گزرنے کے بعد امریکہ نے بھی سرکاری طورپر نریندمودی سے ہوئی گفتگو کی ’’خبر‘‘ دے دی۔ واشنگٹن سے جاری ہوئی ریلیز کی ابتداء ہی میں یہ بیان کردیا گیا کہ پاک-بھارت کشیدگی مذکورہ گفتگو کا بنیادی فوکس رہی۔ پاکستان کے وزیر اعظم سے ہوئی گفتگو کے بارے میں رات گئے تک واشنگٹن سے کوئی پریس ریلیز جاری نہیں ہوئی تھی۔ ٹرمپ نے البتہ ایک مختصرٹویٹ لکھی ہے۔تفصیلی خبرفی ا لوقت شاہ محمود قریشی صاحب کی پریس کانفرنس کے ذریعے ملی ہے۔پاکستانی زاویہ نگاہ سے پیر کے روز ٹرمپ کی جانب سے بھارتی اور پاکستانی وزیر اعظم کو کئے فون گلاس کو یقینا آدھا بھرا دکھاسکتے ہیں کیونکہ نظر بظاہر امریکی صدر پاک- بھارت کشیدگی کو کم تر کرنے کے لئے ’’ٹیلی فون ڈپلومیسی‘‘ سے کام لیتا نظر آرہا ہے۔ وسیع تر تناظر میں امریکی صدر کی یہ کاوش ہمارے لئے باعثِ اطمینان ہونی چاہیے۔ معاملہ مگر طویل المدتی تناظر تک محدود نہیں ہے۔ ہمارے لئے فوری پریشانی کا اصل سبب مقبوضہ کشمیر پر مسلط ہوا لاک ڈائون ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی وحشیانہ پائمالی اور نفی ہورہی ہے۔ اپنے گھروں میں محصور ہوئے لاکھوں کشمیریوں کی مسلسل ذلت واذیت کے ہوتے ہوئے پاکستان کشیدگی کو کم تر بنانے میں کوئی کردار ادا کر ہی نہیں سکتا۔اس جانب پیش قدمی بھارت کی جانب سے ہوئی نظر آنا ہوگی۔ اس کی جانب سے امن کی خواہش کا ٹھوس اظہار فقط اسی صورت ممکن ہے اگر فوری بنیادوں پر مقبوضہ کشمیر میں روزمرہّ زندگی کے معمولات کی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔ مجھے خدشہ ہے کہ امریکی صدر اس ٹھوس حقیقت کو نظرانداز کئے ہوئے ہے۔ ’’بنیادی انسانی حقوق‘‘ ویسے بھی اس کی نگاہ میں فروعی معاملات ہیں۔ وہ ان کے بارے میں اس حد تک لاتعلق ہے کہ 11ہفتے گزرجانے کے باوجود اس نے ہانگ کانگ میں جاری تحریک کا ذکر تک نہیں کیا ہے۔وہ امریکہ کا پہلا صدر ہے جس نے اسرائیل کو مجبور کیا کہ وہ امریکی کانگریس کی دو منتخب اراکین کو اپنے ہاں آنے کی اجازت نہ دے۔ ان دوخواتین کا ’’جرم‘‘ فقط مسلمان ہونا ہے اور ان میں سے ایک کا آبائی تعلق فلسطین سے ہے۔جو صدر اپنے ہی ملک کے منتخب اراکین کانگریس کے خلاف مذہبی تعصب کی بنا پر کسی دوسرے ملک کو اُکسانا شروع ہوجائے اس سے یہ امید رکھنا کہ وہ مقبوضہ وادی میں محصور ہوئے 80لاکھ مسلمانوں کی زبوں حالی کے بارے میں فکرمند ہوگا میری دانست میں خام خیالی ہوگی۔پاک-بھارت کشیدگی اسے محض اس لئے پریشان کررہی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان اپنی بھرپور توجہ افغانستان کے معاملات پر مبذول نہیں رکھ پائے گا۔ٹرمپ کی شدید خواہش ہے کہ قطر میں جاری امریکہ -طالبان مذاکرات جلد از جلد کسی معاہدے کی تکمیل تک پہنچیں۔ اس کے قریب ترین مشیر بے چین ہیں کہ اگر ممکن ہو تو ستمبر کی 11تاریخ کے دن وہ کابل میں نمودار ہوجائے اور اپنے سامنے نائن الیون کی برسی کے دن طالبان ااور ا مریکہ کے مابین معاہدے پردستخط ہوتے دیکھے۔ نائن ا لیون کی برسی کے دن اگر ٹی وی سکرینوں پر اس کی پسند کا منظر نہ بن پایا تب بھی وہ بے چین ہے کہ آئندہ ماہ منعقد ہونیوالے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وہ افغانستان کا مسئلہ ’’حل‘‘ ہوجانے کی نوید سنادے۔امریکی صدر کو خدشہ ہے کہ آرٹیکل 370کی تنسیخ کے بعد وہ اپنی خواہش کے ٹائم ٹیبل کے مطابق افغان مسئلہ کو ’’حل‘‘ کرنے میں سرعت سے کامیاب ہوتا نظر نہیں آئے گا۔ مودی سرکار کے 5اگست کے روز اٹھائے اقدام نے جنوبی ایشیاء میں پنجابی محاورے والا ایک ’’نیا کٹا‘‘ کھول دیا ہے۔پاکستان مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات کو نظرانداز کرہی نہیں سکتا۔کشمیریوں پر کوہِ غم ٹوٹا ہو تو ہمارے ہاں کا کوئی بھی حکمران فقط امریکہ کی سہولت کے لئے افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے پر توجہ نہیں دے سکتا۔وحشیانہ لاک ڈائون کی بدولت دُنیا سے کٹ کر گھروں میں محصور ہوئے لاکھوں کشمیریوں کی ذلت واذیت کو نظرانداز کرتے ہوئے افغانستان میں ہمارے لئے ٹرمپ کی پسند کا ماحول بنانا ممکن ہی نہیں ہے۔شاہ محمود قریشی صاحب کا اصل ہدف واشنگٹن کو واضح الفاظ میں یہ بتانا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر مسلط ہوئے لاک ڈائون کا خاتمہ -پاک بھارت کشیدگی میں کمی لانے کی جانب پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ یہ قدم مگر پاکستان نے نہیں بھارت نے اٹھانا ہے۔بھارت وہ قدم اٹھالے تو پھر ہم سے کشیدگی میں مزید کمی لانے پر گفتگو ہو۔ اس سے قبل نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)