میرے کئی باقاعدہ قاری اس بارے میں بہت حیران ہوتے تھے کہ میں حکمران جماعت کا ذکر کرتے ہوئے اسے ”نون کے لاحقے والی مسلم لیگ“ کیوں پکارتا ہوں۔ بدھ کی شام سپریم کورٹ سے آئے فیصلے کے بعد شاید انہوں نے اپنے سوال کا جواب پالیا ہو۔ذہنوں میں ابہام اگر اب بھی باقی ہے تو مجھے کہنے دیجئے کہ مذکورہ فیصلہ فقط نواز شریف کو ہی اس جماعت کی سربراہی کے لئے نااہل قرار نہیں دیتا۔ ”نون“ کا مطلب ہے نواز شریف۔اپنے نئے قائد کے انتخاب کے بعد قانونی اعتبارسے اب اس جماعت کو پاکستان مسلم لیگ (نون) کہلانا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ نواز شریف کو ”جھوٹا“ اور ”خائن“ بتاکر وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ کیا گیا تھا۔ اب وہ حکمران جماعت کی سربراہی کے اہل بھی نہیں رہے۔جن بنیادوں پر نااہلی ہوئی ہے وہ انہیں اس جماعت کا ”رہبر“ یا ”سرپرست“ وغیرہ کہلانے کی بھی اجازت نہیں دے گی۔ الیکشن کمیشن کی دستاویزات میں کسی ایسی جماعت کا وجود بررقرار رکھنا ناممکن ہوجائے گا جو کسی نہ کسی صورت اپنا رشتہ نواز شریف سے جوڑنے پر بضد رہے گی۔
خدارا اسے پھکڑپن شمار نہ کیجئے گا ۔ حکمران جماعت کو اگر اب بھی اپنے ساتھ نون کے لاحقے کو لگائے رکھنا ہے تو بہتر یہی ہے کہ چودھری نثار علی خان کو اس جماعت کی قیادت سونپ دی جائے۔ نواز کے بجائے نثار والے نون کے لاحقے والی مسلم لیگ بغیر کسی مشکل کے اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی۔ نثار کے انتخاب سے یہ پیغام بھی مل جائے گا کہ مسلم لیگی اب بھی ”محب وطن“ ہوا کرتے ہیں۔ تخلیق پاکستان کا شرف حاصل کرنے والی مسلم لیگ سے اس جماعت کے تعلق کا دعویٰ بھی اپنی جگہ برقرار رہے گا۔
”جی حضوری“ اس جماعت کی سرشت میں شامل ہے۔ شبہ ہے تو یاد کرلیجئے فیلڈ مارشل ایوب خان کی قیادت میں قائم ہوئی کنونشن مسلم لیگ یا مسلم لیگ کا وہ ”احیائ“ جو جنرل ضیاءکے طویل مارشل لاءکے بعد پیرپگاڑا مرحوم نے محمد خان جونیجو کے ذریعے کروایا تھا اور بالآخر جنرل مشرف کے مشیر طارق عزیز اور آئی ایس آئی کے جنرل ضمیر کی کاوشوں سے جوڑی وہ مسلم لیگ جسے چودھری برادران نے گودمیں لیا تو پاکستان مسلم لیگ (ق) بناڈالا۔
مسئلہ ان دنوں فقط نواز شریف کی ذات ہی نہیں نون کے لاحقے والی مسلم لیگ بھی ہے۔اس جماعت میں نہال ہاشمی تھے۔ طلال چودھری اور دانیال عزیز ہیں۔ ان دونوں پر بھی توہینِ عدالت کے الزام کے تحت عدالتی کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے۔ نواز شریف اور ان کی دختر بھی اپنی تقاریرکی وجہ سے مشکل میں ہیں۔ عدالتوں میں ان کی تقاریر کو براہِ راست نشر کرنے پر پابندی کی درخواستیں پیش ہوچکی ہیں۔
شاید ان پر عملی کارروائی کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ عمران خان صاحب نے بدھ ہی کے روز سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے چند لمحے قبل یہ دعویٰ کیا کہ ”آئندہ تین ہفتوں میں“ نواز شریف جیل بھیج دئیے جائیں گے۔ عمران خان کے سیاسی گروبھی ایسا ہونے پر اصرار کررہے ہیں۔ نواز شریف اور ان کی دختر کو احتساب عدالت نے عمران خان صاحب کے بیان کردہ شیڈول کے مطابق جیل بھیج دیا تو کہاں کے جلسے اور وہاں ہوئی تقاریر کی براہِ راست ٹی وی سکرینوں پر رپورٹنگ؟ قصہ مختصر نواز شریف کو ایم کیو ایم کے بانی کی طرح سیاسی منظرِ عام سے غائب کردینے کے امکانات روشن ہورہے ہیں۔
پاکستانی سیاست کے وسیع تر تناظر میں ذاتی طورپرشاید مجھے نواز شریف کی یہ ”عدم موجودگی“ زیادہ پریشان نہ کرے۔ لوگ ملتے ہیں۔ پھول کھلتے ہیں۔ عروج کا مگر زوال بھی ہوتا ہے۔ عدم سے معدوم کا سفر جاری رہتا ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔وغیرہ وغیرہ۔
شدید پریشانی بنیادی طورپر یہ سوچتے ہوئے ہورہی ہے کہ بدھ کی شام آئے فیصلے نے اس ملک میں ٹھوس آئینی بحران پیدا کردیا ہے۔قانون سازی فقط پارلیمان کا حق ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کی کج فہمی اور تنگ نظری کی بدولت یہ حق چودھری افتخار کے دنوں میں اپنے ہاتھوں لٹادیا تھا۔ججوں کی تعیناتی کے ضمن میں ہوئی 20ویں آئینی ترمیم قانون سازی کے حق کو سرنگوں کرنے کا واضح اظہارتھی۔ اس کے بعد عدالت عظمیٰ کو فقط پارلیمان کے بنائے قوانین کی تشریح وتوجیہہ کا اختیار ہی نہیں رہا۔ وہ اس کے بنائے کسی بھی قانون کو آئین کے منافی ٹھہراکر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی حق دار بھی ہوگئی۔
نون کے لاحقے والی مسلم لیگ نے یہ اختیار آئین میں 20ویں ترمیم کی صورت عدالت عظمیٰ کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا تھا۔ جواب آں غزل کے طورپر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی جو جلسوں میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا بھی گناہ عظیم شمار کرتے ہیں ،راولپنڈی کے بقراطِ عصر کی بصیرت آموز قیادت میں سپریم کورٹ کے روبرو ”تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک….“ ہوگئے۔ وہ قانون رد ہوگیا جو 62/63کے تحت نااہل ہوئے فرد کر کسی سیاسی جماعت کی قیادت کا حقدار بنائے ہوئے تھا۔
حقیقی آئینی بحران مگر پارلیمان کے بنائے قانون کی منسوخی نہیں ہے۔ بدھ کی شام جو فیصلہ آیا وہ سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں پر ہونے والے انتخاب کے بالکل قریب آیا ہے۔ ان نشستوں کے لئے جن لوگوں کو نوازشریف کے دستخطوں سے سینٹ کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے ٹکٹ جاری ہوئے ہیں،مختصر فیصلے کی روشنی میں وہ اس انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینے کے اب اہل نہیں رہے۔ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کو اب 45دنوں میں نیا قائد منتخب کرنا ہوگا۔ وہ قائد ہی ایسے ٹکٹ جاری کرنے کا مجاز ہوگا۔
سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں پر انتخاب مگر 3مارچ کو ہونا ہیں۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سینٹ کی 10جنرل نشستوں پر کاغذاتِ نامزدگی کا عمل فائنل ہوچکا ہے۔نون کے لاحقے والی مسلم لیگ نے اس حوالے سے 7نام دئیے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اس جماعت کو بے پناہ اکثریت حاصل ہے۔ وہ کسی اور جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کو منتخب کربھی لیں تو 7نشستیں خالی رہیں گی۔
سینٹ جسے ایوانِ بالا کہا جاتا ہے وفاقِ پاکستان کی علامت ہے۔ یہ ایک مستقل ادارہ ہے جہاں وفاق کی ہر اکائی کو مسادی نمائندگی حاصل ہے۔ پنجاب سے خالی ہوئی نشستوں کے بھرپور انتخاب کے لئے اب الیکشن کی تاریخ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ کچھ ایسے قوانین بھی بنانے ہوں گے جو تاریخ کی اس تبدیلی اور نئے کاغذاتِ نامزدگی کی راہ ہموار کریں۔ سیاسی ہیجان اور اندھی نفرت وعقید ت میں تقسیم ہوئے ماحول میں ایساہونا ممکن نظر نہیں آرہا۔ سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں پر بروقت انتخاب نہ ہوپایا تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نگران حکومتوں کے تحت انتخابات کی گنجائش بھی معدوم ہونا شروع ہوجائے گی۔
عدالتی معاملات میں مداخلت میرا حق نہیں۔ یہ خواہش کرنے میں مگر کوئی حرج نہیں کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں پر کاغذات نامزدگی کا عمل مکمل ہونے سے قبل ہی سنادیتی۔ میری نظر میں پریشان کن حد تک دیر میں آئے اس فیصلے کے بعد سے سوال یہ بھی اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ 28جولائی 2017کی تاریخ سے نااہل قرار پائے نواز شریف کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کی بطور وزیر اعظم ”نامزدگی“ بھی جائز ہے یا نہیں۔ اگر وہ جائز نہیں ہے تو شاید وزیر اعظم کا انتخاب بھی ازسرنو کروانا پڑے۔
یہ کالم لکھنے تک بدھ کے فیصلے کی وجہ سے ذہنوں میں جو سوالات اُٹھے ہیں ان کے جوابات نہیں آئے تھے۔افراتفری اور ہیجان شدید تر ہوگئے ہیں۔ میرے خوفزدہ ہوئے ذہن میں یہ شدت کم ہوتی نظر نہیںآرہی ۔اگرچہ خواہش بہت شدید ہے کہ کوئی مناسب راستہ نکل آئے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ورنہ….وہی ہوگا جو اس ملک میں کم از کم چار مرتبہ ہوچکا ہے۔ ہمیں تاریخ دہرانے سے مگر احتیاط اس لئے برتنا ہوگی کہ اب کی بار وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ بیٹھا ہوا ہے۔ FATFکا اجلاس بھی جاری ہے اور تجارتی خسارہ ہمیں جلد ہی IMFکے روبرو کشکول لے کرجانے پر مجبور کرنے ہی والا ہے۔
(بشکریہ :روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ