لندن بیٹھ کر ایک جماعت کو محض ایک کمیونٹی کے رنج وغصے کو فسطائی انداز میں استعمال کرتے ہوئے چلانا نئے حالات میں ممکن نہیں رہاتھا۔ 2002سے ویسے بھی اس جماعت نے مسلسل11برس تک سندھ کے شہری علاقوں پر راج کیا تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے اپنے حقیقی سیاسی وزن سے کہیں زیادہ حصہ وصول کیا۔ اپنی Core Constituencyکو پھربھی مطمئن نہیں کر پائی۔ بابر غوری جیسے سینکڑوں کارکنوں کی Upward Mobilityضرور ہوگئی۔
لالوکھیت اور گولیمار کی گلیوں سے اُٹھے کئی لونڈوں نے ڈیفنس میں بنگلے بنالئے۔ ملائیشیا، دوبئی، لندن، تھائی لینڈ اور امریکہ میں کاروبار بھی جمالئے۔ اس سب کے باوجود ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کوشش جاری رکھی اور بالآخر ہماری ریاست کے سب سے بڑے طاقت ور ادارے کو آنکھیں دکھانا شروع کردیں۔ عروج کا زوال شروع ہوگیا۔
مصطفےٰ کمال نے ایک ہٹی کھول کر اس جماعت کا متبادل بننا چاہا۔ ناکام رہے۔ فاروق ستار نے باقی جماعت کو چلانا چاہا توقائدانہ صلاحیتیں نہ دکھاپائے۔ ان سے کہیں زیادہ متحرک افراد بہادر آباد دفتر میں نمودار ہوگئے۔ دریں اثناءاس جماعت کے ووٹ بینک کی بدولت سندھ اسمبلی میں بیٹھے افراد نے سینٹ کے انتخابات کے دوران سیزن لگالیا۔ سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی اعتبار سے مطمئن رہنے کا بندوبست کرلیا۔
وہ کمیونٹی جس کے جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ایم کیو ایم بنائی گئی تھی اپنی جگہ مگر اب بھی موجود ہے۔ چند گلے شکوے اس کمیونٹی کے بہت جائز بھی ہیں۔ سوچ مگر جذباتی ہے۔رنج سے غصہ کہیں زیادہ ہے اور اب اس بات کا ملال بھی کہ ان کے جذبات کی ترجمانی نہیں ہورہی۔ جنہیں اپنا سمجھا تھا تھک گئے۔ بک گئے۔بے کلی کے اس موسم میں عمران خان صاحب کے پاس ایک بار پھر یہ موقعہ آیا ہے کہ وہ ”نئے پاکستان“ کے بیانیے کے ساتھ سندھ کے شہری طبقات سے رجوع کریں۔ میرٹ کی بنیاد پر نچلے اور درمیانی طبقے کو یہ اُمید دلائیں کہ لسانی تعصبات سے بالاترہوکر بھی سیاست کی جاسکتی ہے۔ ایسی سیاست جس کا بنیادی مقصد رعایا کو شہری بنانا ہے جس کے حقوق ہوتے ہیں اور فرائض بھی۔
خان صاحب مگر بادشاہ آدمی ہیں۔ کراچی تشریف لے گئے تو فیلڈ مارشل ایوب خان کو یاد کرنا شروع ہوگئے۔ ان کے دس سالہ دورِ آمریت کے گن گانا شروع کردئیے۔ بہت فخر کےساتھ یاد کیا کہ ایوب خان جب امریکہ جاتے تھے تو وہاں کا صدر ایئرپورٹ آکر ان کا استقبال کرتا تھا اور کھلی گاڑی میں بٹھاکر انہیں وائٹ ہاؤس لے جاتا۔
ایوب خان کے امریکہ میں مبینہ طورپر ہوئے ”والہانہ“ استقبال کا ذکر کرتے ہوئے خان صاحب کو یاد ہی نہ رہا کہ نائن الیون کے بعد کسی امریکی صدر کے لئے بھی اب کھلی کار میں واشنگٹن یا نیویارک کی سڑکوں پر ”عوام میں گھل مل جانا“ ممکن ہی نہیں۔ سکیورٹی کا خوف مقبول ترین امریکی صدر کو بھی سونے کے پنجرے میں قید ہوا پرندہ بنادیتا ہے۔
امریکہ کی ایوب خان سے مبینہ محبت بھی کھوکھلی تھی۔خان صاحب کو شاید کسی نے بتایا نہیں کہ 1962میں بھارت ا ورچین کے درمیان ایک چھوٹی سی جنگ بھی ہوئی تھی۔ کنیڈی ان دنوں امریکہ کا صدر تھا۔ اسے ”کمیونسٹ چین“ کے خلاف ایک اتحادی مل گیا۔ 1950کے وسط میں ایوب خان نے ہمیں سیٹو اور سینٹو کا حصہ بنایا تھا۔ ان اتحادوں کی بدولت ہمارے سادہ لوح عوام کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان پرغیر ملکی جارحیت ہوئی تو امریکہ ہمارے تحفظ کے لئے کھڑا ہوجائے گا۔بھارت-چین جنگ کے بعد مگر امریکہ نے بھار ت کوجدید ترین اسلحہ فراہم کرنا شروع کردیا۔
1965میں پاک-بھارت جنگ ہوئی توامریکہ ہمارا واقف تک نہ بنا۔ اسلحے کی ترسیل روک دی۔ ہمیں جنگ بندی پر مجبور کیا۔اس جنگ بندی کے بعد بھی ایوب خان کو امریکہ نہیں سوویت یونین جاکر بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ ”معاہدہ تاشقند“ کرنا پڑا۔ امریکی بے وفائی کے سبب ہی ایوب خان نے الطاف گوہر سے جو کتاب لکھوائی انگریزی میں اس کا عنوان Friends not Mastersرکھا گیا۔ اُردو میں اسے ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ کہتے ہوئے مزید جی دار بنانے کی کوشش ہوئی۔
امریکہ کی صدر ایوب سے کھوکھلی محبت سے قطع نظر میری دانست میں اہم بات کراچی کے تناظر میں پاکستان کے پہلے فوجی آمر کے بارے میں اس شہر میں پائے جذبات ہیں۔ کسی معاشرے کو اجتماعی نفسیات کے حوالوں سے سمجھنے والے ماہرین ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ Collective Memory۔اجتماعی یادداشت شاید اس کامناسب ترجمہ ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ ایسی یادیں نسلوں تک سفر کرتی ہیں۔
اجتماعی یادداشت کسی کمیونٹی کی ذہن سازی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے حوالے سے کراچی کی یادیں بہت تلخ ہیں۔ کراچی کا بنیادی گلہ ایوب خان کے اس فیصلے سے شروع ہوتا ہے جس کے ذریعے پاکستان کا دارالحکومت اس شہر سے ایوب خان کے آبائی گاؤں ریحانہ کے نواح میں اسلام آباد کے نام سے بسائے نئے شہر منتقل ہوا۔
دارالحکومت منتقل ہوجانے کے بعد کراچی محض ایک ڈویژن یا ضلع کا نام رہ گیا۔ ایو ب خان کے دور میں صوبائی حکومتیں بھی نہیں تھیں۔ ون یونٹ تھا۔ لاہور مغربیِ پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ کراچی کو صوبائی دارالحکومت والی طاقت وقوت بھی ون یونٹ ختم ہوجانے کے بعد ملی۔ کراچی والوں کو گلہ مگر یہ رہا کہ صوبائی حکومت ”اندرونِ سندھ“ کو ترجیح دیتی ہے۔ اس شہر کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہ مگر بعد از ایوب خان دور کی باتیں ہیں۔ فی الوقت ایوب خان تک ہی محدود رہتے ہیں۔
کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوجانے کے بعد جو صدارتی انتخاب ہوا اس میں قائد اعظم کی بہن اور کڑے وقتوں کی غم گسار محترمہ فاطمہ جناح جنہیں ہم مادرِ ملت کہتے تھے ایو ب خان کی آمریت کے خلاف کھڑی ہوگئیں۔ وہ انتخاب براہِ راست ووٹوں کے ذریعے نہیں ہوتا تھا۔ BDممبر ہوا کرتے تھے۔ پورے ملک میں ان کی تعداد 80ہزار تھی۔
آج کا پاکستان ان دنوں مغربی پاکستان تھا۔بی ڈی ممبر یہاں 40ہزار تھے۔ پورے ملک میں ان سے Buy or Bullyوالے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ایوب خان کی حمایت میں ووٹ لئے گئے۔کراچی میں لیکن یہ ہتھکنڈے کامیاب نہ ہوئے۔مادرِ ملت اس شہر سے جیت گئیں۔
کراچی سے آئے ان واضح نتائج کے باجود جو عوامی جذبات کے بھرپور نمائندہ تھے ایوب خان کے فرزندِ ارجمند جناب گوہر ایوب خان نے اپنے والد کے صدارتی انتخاب میں ”کامیابی“ کا جشن منانے اس شہر میں ایک جلوس نکالا۔شہریوں نے مزاحمت کی تو فضاءمیں پستول لہرا کر ہوائی فائر ہوئے۔دلوں میں گرہ پڑگئی۔
ملکی سیاست کے کئی سنجیدہ طالب علم بہت شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی بنیاد درحقیقت گوہر ایوب خان کے رچائے جشن فتح کے دن ہی رکھ دی گئی تھی۔ خان صاحب مگر ایو ب خان کو فخر سے یاد کرتے ہوئے کراچی میں ایم کیو ایم کے تتر بتر ہوجانے کی وجہ سے پیدا ہوئے خلا کو پُرکرنے کی کوشش میں جت گئے ہیں۔ میں ان سے فقط ”اجتماعی یادداشت“ کا احترام کرنے کی درخواست ہی کرسکتا ہوں۔
(بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ