بہت ہی دنوں بلکہ برسوں کے بعد اتوار کی صبح یہ کالم لکھنے کی خاطر اُٹھا ہوں تو فضا میں وہ رعنائی ہے جو بہار وبرسات کے موسموں میں اس شہرکے باسی معمول کے طورپر لیا کرتے تھے۔ دس بجنے میں کچھ منٹ رہ گئے ہیں مگر آسمان کے ایک حصے پر بادلوں کے تہوں نے گھپ اندھیرا کررکھا ہے۔ جو حصے ان بادلوں سے ذرا دور ہیں وہاں سورج کی روشنی پھوٹنے کی ضد میں مبتلا ہے۔ گہرے سیاہ رنگ کے مقابل پیلے رنگ کے بہت ہی وسیع ٹکڑے۔ دونوں رنگ ایک دوسرے کے ساتھ بہت شانتی کے ساتھ ٹکے رہنے کو آمادہ ہیں۔ دل ہلادینے والی کڑک کے ساتھ مگر آسمان ایسا ہونے نہیں دے رہا۔ مکئی کی فصل سے تازہ نکالے سٹے کی پیلاہٹ کا گھوراندھیرے سے مقابلہ جاری ہے اور بہت شور کے ساتھ برستی بارش اس دنگل کوجیسے ڈھول بجاتے ہوئے وحشیانہ بنارہی ہے۔
مجھ ایسے بے ہنر کے لئے پراسرار اور دل موہ لینے والی اس صبح کو بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس صبح کے سحر کو گرفت میں لانے کے لئے ہالینڈ کے شہرئہ آفاق مصور وان گو کی ضرورت ہے جسے یقین تھا کہ وقت کا ہر لمحہ بہت ہی عارضی اور سورج کی روشنی اور بادلوں کی آوارگی کی وجہ سے ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ روشنی اشیاءکے رنگوں کو ہر وقت بدلتی رہتی ہے۔ ان رنگوں کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے Shadesکو پہچاننے کی آنکھ مگر ہر انسان کو نصیب نہیں ہوتی۔ وان گو کو رب کریم نے مگر نگاہِ خاص سے نوازا تھا۔ لمحوں کو اس نے کینوس پر مقید کرنے کی کوشش تاعمر جاری رکھی اور اس لگن نے اسے دیوانہ بنادیا۔کینوس پر جو رنگ وہ دکھا گیا ان دنوں نادرونایاب شمار ہوتے ہیں۔ بازار میں بکنے آئیں تو نیلامی میں ایک تصویر کی قیمت کروڑوں ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ خود مگر بدترین غربت کا شکار رہا۔ بے کسی کی موت مرا۔
لفظوں میں آج کے اسلام آباد کی فضا کو بیان کرنے کے لئے کم از کم منیر نیازی درکار ہیں جنہیں رعد کی صدا اور درختوں کو چھیڑتی تیز ہوا میں تنہا پھولوں کی بے چارگی حیران کن سادگی کے ساتھ بیان کرنے کی بے پناہ صلاحیت نصیب ہوئی تھی۔
وان گو ہو یا منیرنیازی، وہ دونوں لمحہ موجود کو تصویر یا نظم کی صورت بیان کرکے زندہ رکھنا اس لئے چاہتے تھے کہ ہمیں یاد رہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ مسلسل بدلتا ہے۔ اس پر قابو پانے کی کوشش مت کرو۔ معصومانہ سی ایک درخواست جسے گلزارنے ”بہنے دو“ والے نغمے میں بے ساختگی سے بیان کردیا ہے۔
میرے اس کالم کے موضوعات کو ویسے بھی کسی نہ کسی صورت ”سیاسی“ ہونا ضروری ہے اور گزشتہ کئی روز سے چند کرم فرما جن کی ان حلقوں تک رسائی ہے جو اس ملک کے سیاسی منظرنامے بنایا اور بگاڑا کرتے ہیں،مجھے بتارہے تھے کہ آئندہ انتخاب کے ذریعے Hungپارلیمان حاصل کرنے کی گیم لگ چکی ہے۔ ایسی پارلیمان کو یقینی بنانے کے لئے نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے کئی بہت ہی تگڑے Electablesکو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں۔بہت ہی ٹھوس وجوہات کی بنا پر اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبارسے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے Electablesکی اکثریت ”لوٹا“کہلوانے کو تیار نہیں ہورہی۔ ریاستی شکنجہ ان کے خلاف زیادہ زور سے کساگیا تو ”آزاد“ امیدوارکے طورپر آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کو ترجیح دیں گے۔ ان کا ”آزاد“ ہوجانا بھی Hungپارلیمان لانے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔
جو بات مجھ تک پہنچ رہی تھی کئی دنوں تک میں نے اسے نظرانداز کیا۔ گزشتہ چار دنوں سے مگر جی ٹی روڈ سے دور بسے شہروں اور قصبوں سے کئی Electablesکے قریب ترین لوگوں نے ٹیلی فون کئے اور مجھ سے ”یہ کیا ہورہا ہے“سمجھنے کی کوشش کی۔ برسوں سے عملی طورپر ریٹائر ہوئے رپورٹر کے پاس مگر کوئی موثر جواب موجود نہیں تھا۔ وہ حلقے جو ہمارے سیاسی منظرنامے ترتیب دیتے ہیں ان سے کوئی رابطہ ہی نہیں۔کاہل دل رابطے کی کوشش کرنے کو بھی آمادہ نہیں۔ ہورہے گا کچھ نہ کچھ والا رویہ اپنارکھا ہے۔
”کچھ“ البتہ ہورہا ہے۔8اپریل 2018والے اسلام آباد کی صبح کی طرح سیاسی منظر نامے کو معمول سے ہٹ کر بنانے کی کوشش جاری ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ مطلوبہ منظرنامہ مجھے یا آپ کو اسلام آباد کے اپریل کی دوسری اتوار کی صبح کی طرح دلکش نظر آئے گا یا نہیں۔
سیاسی منظر نامے ترتیب دینے والوں کی قوت سے انکار نہیں۔ 2002کے انتخابات کے بعد میر ظفر اللہ خان جمالی کو اس ملک کا وزیر اعظم بنا ہی دیا گیا تھا۔1985کے آغاز تک مجھ ایسے باخبر سمجھے رپورٹر بھی محمدخان جونیجو کے نام سے ناواقف تھے۔ معین قریشی بھی اچانک نمودار ہوگئے تھے اور ایک صاحب ہوا کرتے تھے شوکت عزیز۔ 1999سے 2008تک اس ملک کی معیشت کے بارے میں پالیسی سازی کے حوالے سے ”زار“ کہلایا کرتے تھے۔ ظفر اللہ جمالی کی فراغت کے بعد وزیر اعظم بھی منتخب ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے آج کے شاہد خاقان عباسی کے حقیقی پیشروتھے۔ اگرچہ درمیان میں راجہ پرویز اشرف بھی آئے تھے۔
فی الوقت میرے ذہن پر Electablesکو سمجھنے کی دھن سوار ہے۔ دل مضطر یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ 2018میں ان کو مہروںکی صورت گھمانے سے اپنی پسند کی گیم کیسے بنائی جاسکتی ہے۔ 2002تک حنیف عباسی نام کا شخص Electableشمار نہیں ہوتا تھا۔ 2013کے انتخابات تک نام نہاد Electableبن گیا تو راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط عصر کی فراست کی بدولت عمران خان نے اسے قومی اسمبلی کے حلقے سے شکست دے دی۔ پشاور شہر کے حوالے سے بلور خاندان Electablesکی حتمی علامت سمجھا جاتا تھا۔ 2013کے انتخابات میں لیکن حاجی غلام احمد بلور صاحب کو عمران خان ہی نے شکست دی تھی۔
عام انتخابات میں ”لہر“ نام کی بھی ایک شے ہوا کرتی ہے۔اگر یہ چل پڑے تو Electablesکسی کام کے نہیں رہتے۔1970کے انتخابات ہوئے تو مثال کے طوپر ڈاکٹر مبشر حسن، خورشید حسن میر اور ملک مختار اعوان وغیرہ ہرگز Electablesنہیں شمار ہوتے تھے۔ لاہور،راولپنڈی اور ملتان جیسے شہروں میں ان تینوں نے لیکن Electablesکی ضمانتیں ضبط کروادی تھیں۔
چکوال کے سردار عباس 2013میں بھی Electablesتھے۔ قومی اسمبلی تک مگرپہنچ نہ پائے۔ اس بات کی لہذا کیاضمانت کہ 2018کے انتخابات سے قبل PTIمیںشامل ہوجائیں تو ان کا قومی اسمبلی کی نشست جیتنا یقینی ہوجائے گا۔سرگودھا کا قریشی خاندان برسوں سے ناقابلِ تسخیر Electablesسمجھا جاتا تھا۔ 1985میں لیکن ایک نووارد نصرت علی شاہ نے اس خاندان کو قومی اسمبلی تک پہنچنے نہ دیا۔ تحریک انصاف اپنے ایک بنیادی رکن کونظرانداز کرکے اس کے کسی نمائندہ کو اپنا بناکر اب سرگودھا سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لئے کھڑا کردے تو فتح کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔ Electablesپر قصہ مختصر میری ناقص رائے میں ضرورت سے زیادہ انحصار کیا جارہا ہے۔ کسی ممکنہ ”لہر“ پر توجہ نہیں دی جارہی۔
یہاں تک لکھنے کے بعد خیال آیا کہ میں کن فضولیات میں اُلجھ گیا ہوں۔ سورج کی تپش نے بالآخر بادلوں کو مات دے دی ہے۔ بارش تھم چکی ہے اور بادلوں کی کڑک سے سہمی ہوئی درختوں کی شاخیں اب اطمینان کی انگڑائی لیتی نظر آرہی ہےں۔ منظر جو ہمہ وقت بدلتے رہتے ہیں،ان کی خوب صورتی بیان کرنے کا ہنر اگر میسر نہیں تو کم از کم قلم چھوڑ کر ان سے لطف اندوز تو ہوا جاسکتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ