بہت سوچنے کے باوجود میں اب تک جان نہیں پایا ہوں کہ ہم لوگ اس بنیادی حقیقت کو سمجھ کیوں نہیں پارہے کہ میڈیا ایک صنعت ہے۔ انڈسٹری‘ کاروبار‘دھندا‘ ہر کاروبار کی طرح اس کا بھی حتمی ہدف منافع کمانا ہے۔ ہر صنعت کی طرح اسے اپنے قیام کےلئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سرمائے سے مشینری لگائی جاتی ہے ۔ اخبار چھاپنے کےلئے کاغذ اور خوبصورت چھپائی کےلئے نفیس ترین نوعیت کی سیاہی درکار ہے۔ ٹی وی صحافت کےلئے سٹوڈیوز، OB گاڑیوں، کیمروں اور سیٹلائٹ کے ذریعے نشریات کو یقینی بنانے کےلئے بھی سرمایہ درکار ہے۔ کوئی بے وقوف شخص ہی نیکی کردریا میں ڈال والے جذبے کے ساتھ کسی بھی دھندے میں سرمایہ کاری کےلئے آمادہ ہوتا ہے۔
ہر دھندے کو لیکن کوئی ”سودا“ بھی بیچنا ہوتا ہے۔ صحافت کا سودا ”خبر“ ہے۔ اور ”خبر“ اس وقت بنتی ہے جب کوئی انسان کتے کو کاٹ لے۔انہونی اور معمول سے ہٹ کر ہوا کوئی واقعہ ۔میڈیاکا اصل مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ جب اپنا ”سودا“ بازار میں لاتا ہے تو ریاست ومعاشرے کے طاقت ور لوگوں کو پریشان کردیتا ہے۔ انہیں اشتعال دلاتا ہے۔ کافی عرصہ برداشت کرنے کے بعد یہ طاقتور لوگ بالآخر کچھ ریڈلائنز کھینچ دیتے ہیں۔ ”خبر“ کےلئے علاقے مختص کردئیے جاتے ہیں۔ ان علاقوں اور حدود سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔اپنے ”سودے“ کو پرکشش رکھنے کےلئے صحافت مگر ”ممنوعہ“ علاقوں میں گھسنے پر ہمہ وقت مجبور رہتی ہے۔
صحافت ہمارے ہاں بطور صنعت انگریز کے دور میں متعارف ہوئی تھی۔غیر ملکی حکمرانوں نے اس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اُبلتے غصے کے اظہار کو بھی کمال مہارت سے Regulateکیا۔ سو طرح کے ضوابط کے ہوتے ہوئے بھی لیکن مثال کے طورپر تحریک خلافت کے دنوں میں چند اخبارات حریت فکر کے بلندآہنگ داعی بن گئے۔ مولانا محمد علی جوہر کا ”کامریڈ“ہو یا مولانا ظفر علی خان کا ”زمیندار“۔ یہ اخبارات صحافتی دھندے کی مجبوریوں سے آزاد ہونے کی کوشش میں بالآخر بند ہوگئے۔ ٹھوس کاروباری تقاضوں کی وجہ سے اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائے۔
خالص معاشی وجوہات کی بنا پر پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر میں اخبارات کا زندہ رہنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ چند روز قبل لکھے ایک کالم میں گارڈین کاحوالہ دے چکا ہوں۔ کئی دہائیوں تک یہ اخبارات صحافت کی اعلیٰ ترین اقدار کا بھرپور نمائندہ تصور ہوتا تھا۔ چٹ پٹی خبروں کے ذریعے لوگوں تک پہنچے Tabloidاخباروں نے اسے اشاعت کی دوڑ میں پچھاڑدیا۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی۔ یہ اخبار اب کاغذ پر پرنٹ ہوا میسر نہیں۔صرف webپر نظر آتا ہے۔ اس میں چھپی کسی خبر یا مضمون پر جائیں تو آخر میں ایک اپیل بھی شائع ہوئی نظر آتی ہے جو قاری سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اس اخبار کو زندہ رکھنے کےلئے ”چندے“ کی صورت کچھ رقم عطا کردیں۔ بے تحاشہ اخبارات ایسے بھی ہیں جنہیں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے Subscribe کئے بغیر آپ ان میں چھپی خبریں اور مضامین پڑھ ہی نہیں سکتے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد یقینا کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ ان کی بے پناہ اکثریت مگر انٹرنیٹ کو اپنے سمارٹ فونوں میں موجودViberیا Whatsappوالی Appsکے ذریعے دوستوں اور خاندان والوں سے رابطے کےلئے استعمال کرتی ہے۔فیس بک کے جلوے اپنی جگہ موجود ہیں اور ٹوئٹر والی سہولت کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔
میرے علم میں تحقیق کے مسلمہ اصولوں کے تحت جمع ہوئے اعدادوشمار نہیں آئے جو یہ طے کرنے میں مدد دیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کا کتنے فی صد حصہ سمارٹ فونز وغیرہ کے ذریعے اخبارات کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہے۔ اپنے تئیں تھوڑی تحقیق کے بعد اندازہ ہورہا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ سمارٹ فونز یا کمپیوٹر کے ذریعے اخبارات کی ویب سائٹس پر جانے والے افراد ویسے بھی عموماََ عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جہاں معاشی استحکام یا خوش حالی میسر نہیں ہوتی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میرے کالم کو پڑھنے کےلئے Subscriptionوالا تالہ لگادیا جائے تو قارئین کی انتہائی قلیل تعداد بہت ہی معمولی رقم دینے کو بھی تیار ہوگی۔ اس کالم کے ذریعے رزق کمانے کےلئے لہذا مجھے نوائے وقت کے پرنٹ ایڈیشن کی زیادہ سے زیادہ اشاعت پر انحصار کرنا ہوگا۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ فی الوقت میسر نہیں۔
اپنے رزق سے جڑی اس خودغرضی کی بدولت ہی میں تواتر کے ساتھ اس کالم میں خبردارکررہا ہوں کہ پاکستان میں پرنٹ صحافت کا زندہ رہنا دن بدن ناممکن دِکھنا شروع ہوگیا ہے۔ اس امکانات کا ذکر مگر میرے کئی سینئر اور قابلِ احترام ساتھیوں کی جانب سے سرسری اندازمیں بھی نہیں ہورہا۔ مجھے خدشہ ہے کہ شاید ہمارے قارئین کو پرنٹ صحافت کی موت کی خبر واقعہ ہوجانے کے بعد آئے گی اور جانے والے لوٹ کر نہیں آیا کرتے۔
معافی کا طلب گار ہوں۔ محض اپنے رزق سے جڑی خود غرضی کی وجہ سے پاکستان میں پرنٹ صحافت کی سرعت سے ہوتی موت کے ذکر میں اُلجھ گیا۔ اس کالم کے ذریعے بنیادی بات یہ سمجھانا تھی کہ میڈیا بنیادی طورپر ایک صنعت ہے۔ ”خبر“ اس کا ”سودا“ ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں اقتدار پر قابض افراد اور قوتیں اس دھندے کو ملیامیٹ کرنے پر تلی بیٹھی ہیں۔صحافت کو اس کے ”سودے“ سے محروم کردینے کے بعد ختم کرنے کی سفاک ترین مثال ترکی کے ”سلطان اردوان“ نے فراہم کی ہے۔ بھارت کے نریندر مودی نے اس کے بنائے راستوں کو اپنایا۔ ان دنوں ہنگری اور پولینڈ جیسے ممالک میں اسی روایت پر شدت سے عمل کیا جارہا ہے۔ چند ہی روز قبل امریکہ کی سابق وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ نے نیویارک ٹائمز کے صفحہ اوّل کےلئے ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون کے ذریعے 80سالہ میڈلین نے نہایت دُکھ کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ دنیا بھر کی کئی حکومتیں بہت تیزی کے ساتھ فسطائیت کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ گلوبلائزیشن کی وجہ سے خود کو مقابلے کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانے والے معاشروں اور طبقات کے دلوں میں درآئے غصے نے ”آزادی اظہار“ کو خوشحال طبقات کے ”چونچلوں“ اور ”عیاشی“ میں شمار کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ دل وجان سے ایسے ”دیدہ وروں“ کا انتظار کررہے ہیں جو میڈیا کے ذریعے پھیلائی ”فروعات“ سے جان چھڑاکر ان کی بہتری اور خوش حالی پر توجہ دیں۔
مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان میں بھی میڈلین کے بیان کردہ تعصبات لوگوں کے ذہنوں پر تیزی سے حاوی ہورہے ہیں۔ ان تعصبات کے فروغ ہی نے ہمارے دائمی حکمرانوں کے بااثر حلقوں میں یہ خواہش ڈالی ہے کہ پاکستانی میڈیا کو ہر صورت ”راہِ راست“ پر لایا جائے۔ میڈیا کی جن صورتوں یعنی ٹی وی نیٹ ورک اور اخبارات وغیرہ کے ہم عادی ہیں مناسب حد تک ”راہِ راست“ پر آچکے ہیں۔ جو ”تخریب کار“ ابھی تک بچے ہوئے ہیں ان کا مکو ٹھپنے کا وقت بھی بہت تیزی سے قریب آرہا ہے۔
اصل سوال مگر اپنی جگہ موجود رہے گا اور وہ یہ کہ روایتی میڈیا کو ”راہِ راست“ پر لانے کے بعد بھی خلقِ خدا کے ذہنوں میں اُٹھے کئی نئے سوالات اور ان کے اظہار کو ناممکن بنایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ میری عاجزانہ رائے میں ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر خلقِ خدا کے ذہنوں میں اُبلتے سوالات کا خاتمہ ممکن ہی نہیں۔ میری بات پر یقین نہیں تو پشاور میں مقیم کسی دوست کو فون کرکے پوچھ لیں کہ اتوار کے روز اس شہر میں کس نے جلسہ کیا ہے۔ اس جلسے کو ہمارے میڈیا نے انتہائی فرماں برداری سے نظر انداز کیا۔ وہاں مگر جو باتیں ہوئیں وہ فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک دنیا بھر میں پہنچ چکی ہیں۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ ایسی باتوں کو قواعد وضوابط اور معاشی تقاضوں میں جکڑے روایتی میڈیا کے ذریعے ہی کسی نہ کسی صورت لوگوں کے سامنے آنے دیا جائے۔ سوائے اس عرض گزاری کے میں اس ضمن میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ