اس کالم کے چند باقاعدہ قاری ناراض تو نہیں مایوس ضرور ہوئے ہیں۔ انہیں گلہ ہے کہ میں نے عمران خان صاحب کی جانب سے تمام تر سکیورٹی خدشات کے باوجود PSL-2 کا فائنل کھیلنے کے لئے لاہور آئے غیر ملکی کھلاڑیوں کے بارے میں استعمال ہوئے توہین آمیز الفاظ کو نظرانداز کر دیا ہے۔ یہ الزام تو نہیں لگا کہ میں نے تحریک انصاف کے ساتھ کوئی ’’مک مکا‘‘ کر لیا ہو گا۔ اشاروں کنایوں میں البتہ اس خدشے کا اظہار ضرور ہوا کہ شاید عمران خان کے انٹرنیٹ پر بیٹھے متوالوں نے بالآخر مجھے ’’بکری‘‘ بنا دیا ہو گا۔
اپنے ’’بکری‘‘ ہو جانے کی فکر سے مجھے یاد آیا کہ منگل کی شام سے انٹرنیٹ پر میرے بھائی اور کئی حوالوں سے پاکستان میں ٹی وی صحافت کے بانی مانے ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کی ایک کلپ نے بہت دھوم مچا رکھی ہے۔ اس کلپ کی بدولت تاثر یہ پھیل رہا ہے کہ ’’فیصلہ ہو چکا ہے‘‘۔آئندہ کچھ گھنٹوں میں منظرِ عام پر آ جائے گا۔اس کے بعد آنے والا وقت نواز شریف اور اسحاق ڈار کے لئے بہت کڑا ہے۔ سپیکر ایاز صادق کی شاید لاٹری نکل آئے گی۔
ایاز صادق سے تین یا چار سرسری ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ایک یا دو مرتبہ ٹیلی فون پر بات بھی ہوئی۔ ان کے بھائی سردار محمود اگرچہ میرے کافی قریب ہیں۔ ہمارے ایک بہت ہی سینئر اور میرے ساتھ ہمیشہ بہت شفقت فرمانے والے صحافی افضل خان صاحب کے داماد ہیں۔ شاید اس حوالے سے ایاز صادق کو اگر وہی عہدہ مل جائے جس کی توقع ڈاکٹر صاحب کو ہے تو ’’دربار‘‘ تک رسائی کا راستہ نکل آئے گا۔ اگرچہ میرے وسوسوں بھرے دل کو خدشہ یہ بھی ہے کہ ایاز صادق میں راجہ پرویز اشرف والی خوبیاں موجود نہیں ہیں۔ نواز شریف اپنے عہدے پر کسی عدالتی فیصلے کی وجہ سے قائم رہنے کے قابل نہ رہے تو قومی اسمبلی بھی اپنی بقیہ مدت خیروعافیت سے برقرار نہیں رکھ پائے گی۔’’ہم تم ہوں گے جنگل ہوگا‘‘ والا معاملہ ہو گا۔رونق البتہ بہت لگ جائے گی۔کالموں اور ٹی وی سکرینوں کے ذریعے مجھ ایسے لفظ فروشوں کا کاروبار بھی چمک اُٹھے گا۔ سیاسی استحکام ہمارے دھندے کے لئے مندا ثابت ہوتا ہے۔ اس سے کچھ روز کے لئے نجات مل جائے گی۔
یہاں تک پہنچا تو خیال آیا کہ مجھ سے عمران خان کے ریمارکس کو نظرانداز کرنے کا شکوہ کرنے والوں کو گلہ ہو گا کہ سردار ایاز صادق کے ’’روشن مستقبل‘‘ کو زیر بحث لا کر میں درحقیقت فرار کے بہانے ڈھونڈ رہا ہوں۔ بہلاوے گھڑ کر قارئین کی توجہ کسی اور جانب مبذول کرنا چاہ رہا ہوں۔ اپنی جان چھڑانے کے لئے لہٰذا فی الفور یہ لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے لاہور آئے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’’پھٹیچر‘‘‘ اور ’’ریلوکٹا‘‘ کہا تو اچھا نہیں کیا۔ان کی جانب سے ان الفاظ کے استعمال نے البتہ مجھے ہرگز حیران نہیں کیا۔ خان صاحب بنیادی طور پر ایک باؤلر ہیں۔ آج سے کچھ ہفتے قبل میں نے نیویارک ٹائمز میں چھپے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے باؤلر کی نفسیات کو بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔ مجھے اپنے لکھے ہوئے کالموں کا ریکارڈ رکھنے کی عادت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک عزت مآب جج صاحب نے پانامہ کیس کی سماعت کے دوران کھلے الفاظ میں یہ حقیقت بیان کر دی تھی کہ اخبارات پڑھنے کے بعد ردی کے ڈھیر میں پھینک دئیے جاتے ہیں۔ یہ ردی بازار میں بکتی ہے تو پرانے اخبارات کے صفحات میں پکوڑے لپیٹ کر بیچے جاتے ہیں۔ پکوڑوں کو ڈھانپنے والے صفحات کا ریکارڈ کیوں رکھنا۔ ویسے بھی ’’ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے‘‘ کہ اپنی تحریریں سنبھال کر اس کے ذخیرے پر اتراتے پھریں۔
گزشتہ کالموں کا ریکارڈ البتہ موجود ہوتا تو میں باؤلر کی نفسیات پر لکھے اس کالم کے اقتباسات اس کالم میں ڈال کر مزید لکھنے کی اذیت سے خود کو محفوظ بنا لیتا۔ بہرحال باؤلر کو ہر صورت کریز پر کھڑے بلے باز کو پریشر میں رکھنا ہوتا ہے۔ بلے باز اپنی جگہ ڈٹا رہے تو ایک مقام ایسا بھی آ جاتا ہے جہاں باؤلر اپنی گیند کے ذریعے اس کے پیچھے زمین میں گڑی کلی کو اُڑانے کی بجائے باؤنسر پھینک کر بلے باز ہی کو گراؤنڈ سے سٹریچر پر باہربھیجنے کے جنون میں مبتلا نظر آتا ہے۔
عمران خان کی ’’کریز‘‘ ان دنوں میدانِ سیاست ہے۔ نواز شریف بلے باز ہیں۔ گزشتہ اننگز جو اگست 2014ء میں ہوئی تھی عمران خان نے انہیں دھرنے کے ذریعے LBW کرنے کی کوشش کی تھی۔ایمپائر نے مگر اُنگلی کھڑی نہ کی۔ گزشتہ سال نومبر میں عمرن خان نے پھر لاک ڈاؤن کیا۔ ان کا یہ ’’باؤنسر‘‘ کم از کم نواز شریف کو سپریم کورٹ کے روبرو لے آیا۔ راولپنڈی کی لال حویلی میں بیٹھے بقراط کو یقین ہے کہ سپریم کورٹ سے اب نواز شریف کا ’’سیاسی تابوت‘‘ ہی برآمد ہو گا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کو شاید یہی بات آئندہ چند گھنٹوں میں ہوتی نظر آ رہی ہے۔
PSL-2 کے لاہور میں ہوئے فائنل کو عمران خان صاحب نے درحقیقت پانامہ سے توجہ ہٹانے والا ایک شعبدہ سمجھا تھا۔ اسے روکنے کے لئے انہوں نے لاہور میں فائنل کروانے کے فیصلے کو ’’پاگل پن‘‘ قرار دیا۔ کرکٹ کی دُنیا کا عمران خان جیسا سٹار جب کھلے عام بلند آواز میں لاہور میں ہوئے فائنل کو خوفناک دہشت گردی کا ممکنہ نشانہ قرار دے تو پھٹیچر سے پھٹیچر ترین غیر ملکی کھلاڑی بھی اس شہر میں آنے سے گھبراجائے گا۔ ’’ریلوکٹا‘‘ بالآخر ’’کٹا‘‘ ہی ہوتا ہے۔ اسے کتنے ہی ڈالر کیوں نہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا جائے ’’خودکشی‘‘ کو تیار نہیں ہوتا چاہے اس کا تعلق افریقہ ہی سے کیوں نہ ہو۔ بہرحال کچھ ’’پھٹیچر‘‘ اور ’’ریلوکٹے‘‘ لاہور آنے کو تیار ہو گئے۔ عمران خان نے انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا تو خود کو محض ایک باؤلر ہی ثابت کیا۔ اس کی بابت حیران وپریشان کیوں ہونا؟
ویسے حق بات یہ بھی ہے کہ عمران خان کو خبر نہیں تھی کہ وہ لاہور میں فائنل کے لئے آئے غیر ملکی کھلاڑیوں کے بارے میں جو الفاظ استعمال کر رہے ہیں وہ کیمرے پر ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ اپنے تئیں وہ سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے ایک وفد سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گپ شپ لگا رہے تھے۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ محفلوں میں ہم ’’افریقہ‘‘ کے بارے میں وہی فقرے بلاجھجک کہتے ہیں جو عمران خان نے ادا کئے۔ ’’افریقہ‘‘ ہماری نظر میں پسماندگی کی علامت ہے۔ یہاں کے باسی انسان نہیں ’’حبشی‘‘ ہوا کرتے ہیں۔ انہیں غلام بنایا جاتا تھا۔ ہم میں سے بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ اساطیری حوالوں سے حسن کی علامت مانی قلوپطرہ کا تعلق افریقہ سے تھا۔ اس خطے سے دریائے نیل نکلتا ہے۔ سونے اور ہیروں کی کانوں سے یہ خطہ مالامال ہے۔ ہالینڈ اور بلجیئم کی ساری خوش حالی کی بنیاد یہی کانیں رہی ہیں۔ جدید دور میں مزاحمت کی ایک عظیم علامت، نیلسن منڈیلا- بھی افریقہ کا بیٹا تھا۔ عمران خان اسی براعظم میں اگرچہ ’’بابر غوری‘‘ بھی ڈھونڈتے پائے گئے تھے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ عمران خان خفیہ طور پر ریکارڈ کئے کلمات کے منظرِ عام پر آنے کے بعد انہیں Own کرنے پر ڈٹ گئے۔ یہ شکوہ نہیں کیا کہ ’’ آف دی ریکارڈ‘‘ ملاقات کے بہانے انہیں چکمہ دیا گیا۔ عمران خان کی یہ ’’مردانگی‘‘ ان کے چاہنے والوں کو بہت بھائی ہے۔ ان کا ’’ہیرو‘‘ اپنے کہے پر ڈٹ گیا۔ غالب کے محبوب کے لب اتنے دلکش تھے کہ ’’رقیب گالیاں کھا کے بھی بدمزہ نہ ہوا‘‘۔ عمران خان کے ذہن سے بھی اکثر ایسی ہی کرامات چھلک جایا کرتی ہیں۔ ’’تم ایک نظر میرا محبوب نظر تو دیکھو‘‘۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ