یورپ کے فلسفیوں نے ”وقت“ کے تصور کو جانچنے میں بہت دیر لگائی۔ پنجابی زبان کے بے شمار محاورے ان کے برعکس صدیوں سے ”ویلے“ کی اہمیت کو مسلسل اجاگر کرتے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں ”ویلے“ (بروقت) اور ”کویلے“ (وقت کھو دینے) کے مابین تفریق کی پہچان پر بھی بہت اصرار رہا۔ ایک محاورہ تو یہ بھی کہتا ہے ”وقت“ کھودینے کے بعد ”کویلے“ میں ادا ہوئی نماز زمین پر سرٹکرانے کے سوا کسی اور فعل کی نمائندگی نہیں کرتی۔
”ویلے“ اور ”کویلے“ کے مابین میری مادری زبان جس تفریق پر اصرار کرتی ہے اس کا مجھے گزشتہ دو روز کے دوران شدت سے احساس ہوا۔ ہفتے کے روز انوارالحق کاکڑ کی بطور نگران وزیر اعظم نامزدگی کا حیران کن انداز میں اعلان ہو گیا تو طویل عرصے کے بعد اسی شام دوستوں کی محفل میں گپ شپ کا موقع ملا۔ مذکورہ محفل میں موجود صحافیوں اور سیاستدانوں کی اکثریت بالعموم بہت ”باخبر“ تصور ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک مہمان بھی تاہم کاکڑ صاحب کی نامزدگی کی توقع نہیں باندھ رہا تھا۔ میری طرح ان کی اکثریت بھی اس تاثر میں مبتلا رہی کہ غالباً جلیل عباس جیلانی ہی بالآخراس عہدے کے لئے نامزد کر دیے جائیں گے۔
جلیل عباس جیلانی صاحب کا نام محض چند افراد کی خواہش کی بدولت گردش میں نہیں آیا تھا۔ نگران وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین ”ڈھونڈنے“ والوں نے آج سے تقریباً تین ہفتے قبل ان سے ”انٹرویو“ نما ملاقاتیں کی تھیں۔ 2018 ء کے انتخاب کے قریب بھی ان کا نام نگران وزیر اعظم کے طور پر کچھ حلقوں کی جانب سے تجویز ہوا تھا۔ بہرحال ان سے روابط کی بات چلی تو ان تک رسائی کے حامل چند صحافی دوستوں نے ”جھاڑا“ لینے کے لئے فون کرنا شروع کردئے۔ جلیل عباس مہذب اور صاف گو آدمی ہیں۔ نہایت انکساری سے محض اس امر کی تصدیق کرتے رہے کہ ان سے رابطے یقیناً ہوئے ہیں۔ اس کا تاہم ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کا بطور نگران وزیر اعظم نام ”فائنل“ ہو گیا ہے۔
بہرحال جیلانی صاحب سے گفتگو کے بعد چند صحافیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا نام بطور نگران وزیر اعظم اشاروں کنایوں میں لینا شروع کر دیا۔ رپورٹنگ کے انتہائی مشقت طلب شعبے سے عرصہ ہوا میں ریٹائر ہو چکا ہوں۔ ہمارے ہاں ایک محاورہ مگر خبردار کرتا ہے کہ ”چور“ اس پیشے سے تعلق چھوڑدینے کے بعد بھی ”ہیراپھیری“ سے باز نہیں آتا۔ جیلانی صاحب کا نام اشاروں کنایوں میں لیا جانے لگا تو میرے اندر دفن ہوا رپورٹر کفن پھاڑ کر حرکت میں آ گیا۔ ان کے ساتھ میری سرسری شناسائی ہے دوستی نہیں۔ براہ راست رابطے سے لہٰذا گریز کیا۔ ان کے دوستوں میں شمار ہوتے چند افراد سے رابطے کیے۔ ان روابط کی بدولت دریافت یہ بھی ہوا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حال ہی میں ہوئے معاہدے پر کامل عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے کسی ماہر معیشت کو نگران وزیر اعظم لگانے کی بات چل رہی ہے۔
اس تناظر میں غیر سیاسی قوتوں کی ترجیح ڈاکٹر حفیظ شیخ ہیں۔ اسلام آباد میں اس حوالے سے ”باخبر“ حلقوں میں یہ بات بھی چلی کہ وہ چند دن قبل امریکہ کے شہر بوسٹن سے پاکستان لوٹ کر خاموشی سے گھر بیٹھے اپنی تعیناتی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ”سیاسی قوتوں“ کو البتہ ان کا نام اس خدشے میں مبتلا کرنا شروع ہو گیا کہ انتخابات کو مزید ٹالنے کے جواز ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ غالباً اسی باعث مسلم لیگ (نون) کی جانب سے نگران وزیر اعظم کو منتخب وزیر اعظم کے مساوی اختیارات فراہم کرنے والا قانون پارلیمان سے منظور کروانے سے قبل یہ ”خبر“ بھی چلی کہ اسحاق ڈار صاحب کو نگران وزیر اعظم کے منصب پر براجمان کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ جس روز یہ خبر شہباز رانا نے اپنے اخبار کے لئے لکھی عین اسی دن ڈار صاحب نے ایک ٹی وی نیٹ ورک کے لئے اپنا انٹرویو ریکارڈ کروایا۔ وہ انٹرویو اتوار کے دن ریکارڈ ہوا جبکہ اسے پیر کی شام نشر ہونا تھا۔ بہرحال مذکورہ انٹرویو کے دوران ڈار صاحب نے اس امکان کی سختی سے تردید کا تردد نہیں کیا کہ وہ نگران وزیر اعظم نامزد کیے جا سکتے ہیں۔
ڈار صاحب کی بطور نگران وزیر اعظم تعیناتی کے امکان نے اگرچہ مجھے ایک لمحے کو بھی مائل نہیں کیا تھا۔ نظر بظاہر ان کی ممکنہ تعیناتی کی بدولت آئی ایم ایف کو یہ پیغام دینا تھا کہ اس کے ساتھ ہوئے معاہدے پر ہوبہو عمل ہو گا۔ ڈار صاحب نے مگر اپنے رویے سے آئی ایم ایف کو ناراض کر دیا ہے۔ اسی باعث وزیر اعظم شہباز شریف کو بذات خود آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے پیرس میں ملاقاتوں کے دوران ”منت ترلے“ کرنا پڑے۔ ان کی بدولت بالآخر پاکستان کو تین ارب ڈالر ملنے کا وعدہ ہوا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوا معاہدہ پاکستان کے غریب، دیہاڑی دار اور نچلے متوسط طبقات کے لئے مزید مہنگائی کا باعث بھی ہو گا۔ فرض کیا اسحاق ڈار صاحب نگران وزیر اعظم بن جاتے تو ان کے دور اقتدار میں عوام پر مسلط ہوئی مشکلات مسلم لیگ (نون) کے ووٹ بینک کی مزید تباہی وبربادی یقینی بناتیں۔ واضح طور پر نظر آنے والے مذکورہ بالاحقائق کے باوجود نجانے کیوں مسلم لیگ (نون) کے مبینہ ”باخبر“ حلقے ڈار صاحب کا نام بطور نگران وزیر اعظم اچھالتے رہے۔ بالآخر خواجہ آصف کو اپنے مخصوص انداز میں اس امکان کو رد کرنا پڑا۔ خواجہ صاحب کے بیان کے بعد حفیظ شیخ نام نہاد ”باخبر“ حلقوں کے دوبارہ ”فیورٹ“ بن گئے۔ ان کی حکمران اتحاد میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کی جانب سے مخالفت نے مجھ جیسے صحافیوں کو بالآخر یہ سوچنے کو اکسایا کہ جلیل عباس جیلانی ہی ”ڈارک ہارس“ ثابت ہو سکتے ہیں۔
مجھ جیسے بے اختیار لوگوں کی ”بے خبری“ کو مزید بے نقاب کرنے کے لئے با اختیار قوتوں نے چند ہیولے بھی تراشے جو جلیل عباس جیلانی کی تعیناتی کو یقینی بنانے کا تاثر دینا شروع ہو گئے۔ گزشتہ بدھ کے روز وہ وزیر اعظم کے دفتر بھی گئے تھے۔ ان کی وہاں موجودگی کی خبر ٹی وی سکرینوں پر چلی تو بے تحاشا لوگوں نے فرض کر لیا کہ جیسے وہ شہباز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔ ان کے چند دوستوں نے البتہ مجھے بروقت مطلع کر دیا کہ جیلانی صاحب شہباز شریف سے نہیں بلکہ ان کے ایک غیر سیاسی معاون سے ملاقات کے لئے گئے ہیں۔ مذکورہ ”ملاقات“ کی خبر کے علاوہ چند لوگوں نے درست بنیادوں پر یہ دریافت بھی کر لیا کہ جیلانی صاحب کے اسلام آباد والے گھر کے اردگرد ”سکیورٹی“ کو یقینی بنانے والا عملہ غیر معمولی تعداد کے ساتھ متحرک نظر آ رہا ہے۔ ہم صحافیوں کی اکثریت لہٰذا ہیولوں کے تعاقب میں اصل خبر کا سراغ نہ لگا پائی۔ ”ویلا“ کھو دیا۔ اب ندامت ہی ندامت ہے۔
(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت)