ہماامیر شاہ ایک خوش مزاج وخوش شکل اینکر ہیں۔ کچھ عرصہ ایک چینل میں میری کولیگ بھی رہیں۔ اِن دنوں جیو ٹی وی کے لئے مارننگ شو کرتی ہیں جس میں ان کا ساتھ دینے والے اینکر بھی اپنے خوش گوار انداز کی وجہ سے مجھے بہت پسند ہیں۔ غالباً ان کا نام عبداللہ سلطان ہے۔
یہ کالم لکھنے سے قبل یا اسے مکمل کرلینے کے بعد میں اکثر ان کا شو دیکھتا ہوں کیونکہ اس میں روایتی مارننگ شو والا سطحی پن نہیں ہوتا۔ یہ کالم لکھنے سے قبل مگرجو Segmentمیں نے دیکھا اس نے تھوڑا پریشان کردیا اور جو موضوع میرے ذہن میں تھا اسے نظرانداز کرتے ہوئے اس Segmentکے حوالے سے کچھ لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔
جولائی 2018کے انتخابات کے لئے چلائی مہم نے ہمارے کئی اینکر خواتین وحضرات کو حلقوں میں جانے پر اُکسایا ہے۔ مقصد ان حلقوں کے رائے دہندگان کا موڈ معلوم کرنا ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ آئندہ کونسی سیاسی جماعت حکومت بناسکے گی۔
اینکر خواتین وحضرات کو لیکن اکثر حلقوں میں پہنچتے ہی وہاں پھیلے تعفن سے ناگواری محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اکثر حیران ہوکر خودکلامی کے انداز میں ہم سے یہ سوال کرتے پائے جاتے ہیں کہ لوگ اس تعفن زدہ ماحول میں سانس بھی کیسے لے سکتے ہیں۔ اس کے بعد توجہ کوڑے کے ڈھیرسے ہوتی ہوئی پانی کی نایابی تک پہنچ جاتی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اس انتخابی مہم میں اگرچہ اہم مسئلہ دکھائی نہیں دے رہی۔ کوڑے کے ڈھیر اور پانی کی عدم دستیابی کا ذمہ دار یقینا اس شخص کو ٹھہرایا جاتا ہے جو متعلقہ حلقے سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوا تھا۔
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سیاست دانوں کے خلاف ان دنوں شدید نفرت کی لہر پھیلی ہوئی ہے۔ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی حیران کن کامیابی اسی نفرت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اس کی کامیابی نے اپنا اثرپولینڈ اور ہنگری جیسے ممالک میں بھی دکھایا۔ اٹلی میں تو کمال ہوگیا جہاںایک دوسرے سے قطعی متضاد سوچ رکھنے والی دو جماعتیں طرزِکہن کے خلاف نفرت کی وجہ سے اس ملک میں برسوں سے حاوی سیاسی جماعتوں کو شکست دے کر مخلوط حکومت بنائے ہوئے ہیں۔
گزرے اتوار امریکہ کے پچھواڑے میں واقع میکسیکو میں آندرے نامی شخص براہِ راست انتخاب کے ذریعے وہاں کا صدر منتخب ہوا ہے۔ کسی زمانے میں وہ دارالحکومت کا میئررہا تھا۔ اس کے بعد صدارتی انتخاب میں تین بار حصہ لیا۔ ہر بار بری طرح ناکام رہا کیونکہ غربت کے خاتمے کے حوالے سے اس کے نظریات قابل عمل نہیں سمجھے جاتے تھے۔ حکمران اشرافیہ کی کرپشن کے خلاف مسلسل مجاہدانہ زبان استعمال کرتے ہوئے لیکن بالآخر اس بار وہ بھاری اکثریت سے اپنے ملک کا صدر منتخب ہوگیا ہے۔
عالمی سیاست پر چھائے رحجانات پرنظر رکھنے والے مبصرین اب اس پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔باور کیا جارہا ہے کہ اگر وہ کرپشن اور غربت کے خلاف اپنے وعدوں کو کوئی عملی صورت دینے میں کامیاب ہوگیا تو لاطینی امریکہ میں ایک بار پھربائیں بازو کے نظریات کو مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوجائے گی اور اس مقبولیت کے اثرات یقینا دنیا کے دیگر پسماندہ ممالک تک بھی ضرور پہنچیں گے۔
برازیل،مثال کے طورپر پاکستان سے بہت دور واقع ہے۔ آج سے کئی برس قبل وہاں غریب پرور ہونے کی دعوے دارایک جماعت اقتدار میں آئی تو اس نے غریب ترین گھرانوں کو ماہانہ کیش دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اتنا مقبول ہوا کہ ورلڈ بینک جیسے اداروں نے بھی اسے ایک ماڈل کے طورپر لیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس کی بھنک پڑی تو اس سکیم کو انہوں نے پاکستان میں بھی متعارف کروانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے قاتلوں نے مگر انہیں مہلت نہ دی۔ 2008کے انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی پیپلز پارٹی نے مگر ’’بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ سکیم‘‘ کو ان کی وراثت سمجھ کر لاگو کیا۔ بین الاقوامی ادارے اس منصوبے کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں اور اسے برقرار رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ اگرچہ پیپلز پارٹی بذاتِ خود اس منصوبے کا سیاسی فائدہ نہیں اٹھاپائی۔ غالباََ اس کی قیادت کو خود بھی خبر نہیں کہ مذکورہ منصوبے کے اثرات کو Votesمیں کیسے ٹرانسفر کرنا ہے۔
بات مگر ایک مارننگ شو کی ہورہی تھی۔ ہما اور ان کے ساتھی اینکر نے اعلان کیا کہ انتخابی موڈ دیکھنے وہ بھی کراچی کے اس حلقے میں گئے تھے جہاں سے بلاول بھٹو زرداری بھی قومی اسمبلی کی ایک نشست کے امیدوار ہیں۔ یہ علاقہ لیاری کہلاتاہے۔ 1970سے مسلسل پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتا رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری یہاں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اس علاقے کی سیاسی تاریخ بیان کرنے کے بعد عبداللہ نے اعلان کیا کہ وہ لیاری کے "Natives”سے ملنے گئے تھے۔
لیاری کے رہائشیوں کے لئے "Natives”کا استعمال میرے لئے حیران کن تھا۔ یہ لفظ عموماََ امریکہ کے سفید فام رہائشی ریڈانڈینز کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ برطانوی دورِ غلامی میں ہمارے اجدادکے لئے سامراجی اشرافیہ بھی یہ ہی لفظ استعمال کرتی تھی۔ "Natives”کااستعمال میری دانست میں حاکم ومحکوم میں تقسیم دکھاتا ہے۔
ٹی وی سکرین پر برانڈڈسوٹ پہن کر جب کوئی پاکستانی اینکر اس لفظ کو استعمال کرے تو اس کا رویہ حاکمانہ اور Elitistہوگا۔ یہ لیاری کو اسی طرح دکھانے کی ایک کوشش ہے جیسے کسی زمانے میں نیویارک کی خوش حال مڈل کلاس اس شہر کے Harlemوالے علاقے کو دیکھی تھی۔ سیاہ فام اکثریت کا علاقہ جہاں جرائم پیشہ اور منشیات کے عادی شمار ہوتے لوگ رہا کرتے تھے۔
لیاری کو بھی ٹی وی سکرینوں پر کئی برسوں تک وہاں کی گینگ وار کے مسلسل تذکروں کی بدولت کراچی کا Harlemبناکر پیش کیا گیا تھا۔ گویا مین سٹریم سے کٹا کوئی علاقہ جہاں نجانے کس نوعیت کے "Natives”رہتے ہیں۔ ان "Natives”سے بہرحال گفتگو کرنے مارننگ شو کی ٹیم لیاری پہنچ گئی۔ وہاں کے چیل چوک سے اس علاقے کے تعارف کا آغاز کیا۔ کوڑے کے ڈھیر اور ان کی بدولت پھیلے تعفن سے بات پانی کی عدم دستیابی تک پہنچی اور Segmentختم ہوگیا۔ ہما کو البتہ یہ گلہ رہا کہ جب انہوں نے مائیک چند راہ چلتی خواتین کے سامنے کیا تو ان میں سے کسی ایک نے بھی ان کے ساتھ گفتگو نہ کی۔ ایک خاتون کو بلکہ ان کے ہمراہ چلتی کوئی بچی اینکر سے دور کرتی بھی نظر آئی۔
میرے پسندیدہ ساتھیوں کو یاد ہی نہ رہا کہ لیاری میں کئی برسوں تک ایک طویل اور وحشیانہ گینگ وارہوئی تھی۔ اس جنگ کی یاد نے یہاں کے باسیوں کے ذہنوں میں جوخوف بٹھایا ہے وہ ابھی تک دور نہیں ہوا۔ اس زمانے کی پھیلائی تقسیم کے اثرات ہی کی وجہ سے گزرے ا توار کے دن بلاول بھٹو زرداری کے قافلے پر اسی لیاری کی ا ٓگرہ تاج کالونی میں پتھراؤ ہوا تھا۔
ایسے علاقے میں "Natives”کے روبرو مائیک رکھ کر سوال کرنے والا اینکر اپنے لباس،زبان اور رویے کی وجہ سے Intimidating نظر آتا ہے۔ اپنے دل میں چھپائے خیالات کو "Native”اس کے سامنے بے ساختگی سے بیان ہی نہیں کرسکتا۔ کاش میرے پسندیدہ اینکرز اس پہلو کو بھی ذہن میں لاپاتے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ