اسلام آباد : پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے جبکہ آرمی چیف اپنی مدت میں توسیع نہیں چاہتے وہ رواں سال نومبر میں ریٹائر ہوجائیں گے۔پریس بریفنگ کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں بحث کے نکات پر بات نہیں کر سکتا، لیکن میرا خیال ہے کہ اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں نہ اسے قبول کریں گے، وہ اپنی مدت پوری کرکے رواں سال 29 نومبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔
امریکا کی جانب سے فوجی اڈے مانگے جانے کے حوالے سے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان سے اڈوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ کیا جاتا تو فوج کا مؤقف بھی سابق وزیر اعظم کی طرح ’ایبسولوٹلی ناٹ‘ ہوتا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں انکشاف کیا کہ سابق وزیر اعظم نے سیاسی بحران کے حل کے لیے آرمی چیف سے رابطہ کیا تھا۔
میجر جنرل بابر افتخار نے اسٹیبلشمنٹ کی اپوزیشن جماعتوں سے ملاقات کے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے بھی ایسا سنا ہے، تحقیقاتی صحافت بہت آگے بڑھ چکی ہے، اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے، ایسا کوئی رابطہ نہیں ہوا، کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور ایسی کوئی بات نہیں ہے‘۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے اسے بیرونی اثرورسوخ کے ذریعے بڑھایا جارہا ہے، کچھ دراڑیں ضرور وجود رکھتی ہیں جنہیں بیرونی اثرو رسوخ سے بڑھایا اور پھر اس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے سیاست اور نیشنل سیکیورٹی سے متعلق خیالات کو منفی شکل دی جارہی ہے، اس میں کچھ خیالات حقیقی بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس کو بیرونی اثرورسوخ سے اس تیزی کے ساتھ بڑھایا جارہا ہے جسے بغیر تصدیق کے آگے شیئر کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنی سوسائٹی کو ان اثرات سے بچانے کے لیے ہمیں بہت مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، یہ حکومتی سطح پر بھی کرنا پڑے گا اور انفرادی سطح پر بھی کرنا پڑے گا، تمام اداروں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا، ہم نے بحیثیت ادارہ اس حوالے سے اپنے طورپر اقدامات اٹھائے ہیں، ڈس انفارمیشن کیمپین کا بہت بڑا ٹارگٹ ہماری فوج ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے جو جنگ لڑی ہے وہ اپنے عوام کے بل بوتے پر لڑی ہے، اگر عوام فوج کے ساتھ نہ کھڑے ہوں تو جن ملکوں میں یہ حالات تھے آج ان کے حالات دیکھ لیں، کدھر گئی وہ فوج اور کیا حالت ہے اس ملک کی۔
انہوں نے کہا کہ مشرقی بارڈر پر کوئی خطرہ نہیں ہے، ہم نے اس پر نظر رکھی ہوئی ہے، بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کیے جاتے رہے ہیں اس حوالے سے اہتمام بھی رہتا ہے۔
فوج کے اندر جانبدار اور غیرجانبدار کی لڑائی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ فوج ’یونیٹی آف کمانڈ‘ کے فیکٹر پر چلتی ہے، چیف آف آرمی اسٹاف جس جانب دیکھتا ہے اسی جانب آرمڈ فورس بھی دیکھتی ہے، آج تک اس میں نہ تبدیلی آئی ہے نہ ان شا اللہ آگے کبھی آئے گی، الحمداللہ فوج کے اندر کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور پوری فوج اپنی لیڈرشپ پر فخر کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کا دارومدار سیاسی استحکام پر ہے، دفاع اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، سیاسی استحکام اصل عنصر ہے جو معیشت اور سیکیورٹی سمیت تمام چیزوں کو آگے بڑھاتا ہے، اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو اسے یقینی طور پر نیشنل سیکیورٹی کو نقصان پہنچے گا،
انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ ایک سیاسی عمل کا حصہ تھا، جمہوریت میں یہ چیزیں ہوتی رہتی ہیں لیکن اس دوران عدم استحکام ضرور آیا، جس دن نئی حکومت آئی اس دن اسٹاک ایکسچینج اوپر گئی اور ڈالر نیچے آیا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کسی حدتک استحکام آرہا ہے، اس کو برقرار رہنے کے لیے تھوڑا وقت لگے گا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہ کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا اس روز ان کی طبیعت ناساز تھی، وہ آفس بھی نہیں آئے تھے، اس کی اور کوئی وجہ نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی انخلا سے افغانستان میں ویکیوم آیا تھا، ابھی تک وہاں کی موجودہ حکومت کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، ان کی فوج اور ایجنسیز ابھی اس طرح سے کام ہیں کررہیں اس لیے وہاں خلا موجود ہے جس کا فائدہ وہاں موجود دہشتگردوں نے اٹھایا، ان کے خلاف وہ بھی کاروائیاں کررہے ہیں، الحمداللہ ہم اس قابل ہیں کہ دہشتگردی کی اس لہر کو پیچھتے دھکیل سکیں۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی ملک کا نام نہیں لوں گا لیکن اگر سی پیک کسی ملک کے مفاد میں نہیں ہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ اس کو مؤخر کرنے کے لیے اقدامات کریں لیکن الحمد اللی سی پیک جاری ہے، اس کے تحفظ کی ذمہ داریاں ہاک فوج خود سرانجام دے رہی ہے، یہ ایک بہت بڑا اسٹریٹجک پراجیکٹ ہے اور ہماری چین کے ساتھ دوستی کا بہت بڑا مظہر ہے، جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے ہم نے اس دوران سی پیک کی رفتار کو کم نہیں ہونے دیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس بریفنگ کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج آپ کو پاکستان کی قومی سلامتی، پاکستان آرمی کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں ، آپریشن ردالفساد کے تحت حالیہ اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنا ہے اور فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں ہونے والی بات چیت پر بھی آگاہی دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشنز کور کمانڈر کانفرنس ہوئی اور اس میں پاکستان آرمی کے تمام فارمیشن کمانڈرز نے شرکت کی، کانفرنس کے شرکا کو پاک فوج کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اور خطے کے حالات کے تناظر میں درپیش سیکیورٹی چیلنجز ان کے حوالے سے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس بریفنگ دی گئیں جبکہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ حکمت عملی سے بھی آگاہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کی بارڈر سیکیورٹی مکمل طور پر برقرار ہے اور مسلح افواج اور متعلقہ ادارے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ فارمیشن کمانڈر بریفنگ میں آپریشن ردالفساد کے تحت انٹیلی کی بنیاد پر آپریشنز اور مغربی سرحدوں کی مینجمنٹ کے حوالے آگاہ کیا گیا، پچھلے چند مہینوں میں بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں نے امن عامہ کو خراب کرنے کی بے انتہا کوشش کی لیکن ہمارے بہادر آفیسرز اور جوانوں نے ان مذموم عزائم کو بھرپور طریقے سے ناکام بنایا۔
انہوں نے بتایا کہ اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 128 دہشت گردوں کو ہلاک اور 270 کو گرفتار کیا گیا اور ان آپریشنز کے دوران 97 آفیسرز اور جوانوں نے شہادت نوش کی، پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
( بشکریہ : ڈان نیوز )
فیس بک کمینٹ