پرسوں پاکستان میں تئیس مارچ کی عام تعطیل تھی، پہلے تیئس مارچ کا دن قرار داد لاہور سے قرار داد پاکستان میں بدلا پھر یوم پاکستان ہو گیا۔ہمیں یہی پڑھایااور بتایاگیا تھاکہ انیس سو چالیس میں اس دن لاہور کے اس میدان میں جہاں اب مینار پاکستان ایستادہ ہے، جو پاکستانی قوم کی عظمت کا ا ستعارہ ہے،قائد اعظم کے چند رفقاء نے ایک قرار داد پیش اور منظور کی تھی،جس میں مسلمانان ہند کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اور اس کے نتیجے میں سات سال بعد پاکستان معرض وجود میں آگیا تھا۔ہاں۔ اس قرارداد کو شاعر مشرق علامہ اقبال کا خواب بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہ بھی پڑھایا اور بتایا جاتا رہا کہ اس قراداد کے صرف سات سال بعد قائم ہو جانے والی مملکت خداداد،روئے زمین پر ایسی واحد مملکت ہے جو کسی خونی یا فوجی انقلاب کے بغیر ووٹ کی طاقت سے بنی ہے۔تب سے لیکر آج تک اس دن کو ایک یاد گار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں، قومیں ایسے دن منایا کرتی ہیں۔اس بار خراب موسم کی وجہ سے اس دن کی سرکاری تقریبات دو دن کی تاخیر سے پچیس مارچ کو اسلام آباد میں منائی گئیں۔
میں اپنے گھر کے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ان تقریبات کی براہ راست نشریات سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور میرے گھر میں کام کرنے والے دیہاڑی دار مزدوروں اور مستریوں کی کام کے دوران پیدا ہونے والی مختلف آوازیں، اس لطف اندوزی میں مسلسل مخل ہو رہی تھیں۔ایک لمحے کو مجھے خیال آیا کہ یہ کیسے پاکستانی ہیں، جنہیں اپنے پیارے وطن، یوم پاکستان کی ذرا بھی پرواہ نہیں، نہ یہ ٹی وی سکرینوں پر ِ ،،جگ جگ جیئے میرا پیارا وطن،،جیسے دلپذیر ملی نغمے کی دھن سن کر جھومتے ہیں،اور نہ ہی،،وطن کی مٹی عظیم ہے تو۔عظیم تر ہم بنا رہے ہیں،،کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پرسوں تئیس مارچ کے دن بھی،جب تمام سرکاری دفاتر بند اور سرکاری بابو چھٹی منا رہے تھے تو دیہاڑی دار طبقے کے یہ نمائندہ افراد،قومی دن کی یاد منانے کی بجائے اسی طرح مزدوری کرنے میں جتے ہوئے تھے،بلکہ اس دن تو ان کی وجہ سے ہمیں بچوں کے ساتھ کہیں گھومنے پھرنے جانے کا پروگرام بھی کینسل کرنا پڑا تھا۔
انہی گڈ مڈ خیالات کے ساتھ میری نظریں ٹی وی سکرین سے ہٹ نہیں پا رہی تھیں، کیا منظر تھا،چاک و چوبند فوجی دستوں کی پریڈ، سلامتی کے ضامن جدید اسلحے کی نمائش، سلامی دیتے ہوئے طیاروں کی اڑان، حکومتی زعماء کی آمد کے مناظر، ان کو دیا جانے والا پروٹوکول، مہمانوں کی کرو فر، غرض سب کچھ دیکھنے کی چیز تھی۔ اور جب صدر مملکت ایک آراستہ و پیراستہ بگھی میں تشریف لائے،توزمین پر صدر مملکت کے قدم پڑنے سے پہلے،پیارے وطن کی مٹی پر قیمتی قالین ڈال کر وطن کی مٹی کو،،گواہ،، بنا لیا گیا تھا کہ ہم اسے،،عظیم تر،، بنانے کی جدوجہد میں کس قدر مصروف ہیں۔
ہم نے مغلیہ دور حکومت تو نہیں دیکھا، مگر مغلیہ دور کی کہانیوں پر مبنی فلمیں بہت دیکھی ہیں۔ باقی فلموں کو چھوڑیئے صاحب۔ ایک مغل اعظم ہی نہیں بھولتی۔ شہنشاہ معظم کی آمد پر ہٹو بچو کی صدائیں، باوردی سپاہیوں اور خادموں کا کورنش بجا لانا،اکبر اعظم نے گھوڑے کی پشت سے اترنا ہو، یا ہاتھی سے، یا پھر دو گھوڑوں والی بگھی سے۔خادموں کا جھک جھک کرظل الٰہی کے قدم زمین پر رکھے جانے کے اہتمام میں دل وجان سے جتے رہنا۔حکمران اور عوام کی محبت کی یہ مثال اور کمال ہمیں نہیں بھولتا۔
اور یہ سب کچھ کل ہمیں،مدینہ کی ریاست کا خواب دیکھنے والوں میں دامے، درہمے، سخنے، شامل اپنے مرنجان مرنج صدر مملکت عارف علوی کو سلامی کے چبوترے کے سامنے رکی، دو اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی خوبصورت بگھی سے اترتے دیکھ کر یاد آگیا۔واہ۔کیا منظر تھا،جب ایک خادم نے صدر مملکت کا پاؤں زمین کی طرف بڑھتے دیکھ کر بڑی سرعت سے بگھی کا پائے دان کھولا اور ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔میرا خیال ہے کہ ایسی عام تعطیل سے عام آدمی کا کچھ لینا دینا نہیں تو نہ سہی، جو وطن کی مٹی میں دن رات اپنا خون پسینہ بہا کر بھی،، وطن کی مٹی گواہ رہنا،، کی دھن سن کر، جھومنے کی بجائے،اینٹیں،پتھر،گارا ڈھوتا رہتا ہے۔میں اپنے ان فرسودہ خیالات کو جھٹک کر پھر ٹی وی دیکھنے لگا،جہاں سکرین پر،ہنستے،کھیلتے، خوش لباس و خوش شکل افراد ہاتھوں میں ہلالی پرچم لیے جھوم جھوم کر گا رہے تھے۔۔،،وطن کی مٹی گواہ رہنا،،۔ اور باہر وطن کی مٹی سے بنے گارے کی،،تگاری،، ایک دبلے پتلے سے مزدور نے سر پر اٹھا رکھی تھی،جس کے جسم پر بوسیدہ لباس اور پاؤں میں پلاسٹک کا بنا، پھٹا ہوا بوٹ تھا۔