پی ڈی ایم کی داخلی لڑائی میں جو کچھ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی طعنہ بازی، الزام تراشی، لعن طعن اور ماضی کی سیاسی تلخیوں پر مبنی گفتگو دیکھنے کو مل رہی ہے وہ فطری امر ہے۔ پی ڈی ایم ایک غیر فطری اتحاد کے طور پر سامنے آیا تھا۔ ان میں واحد مشترکہ نکتہ وزیراعظم عمران خان کی سیاسی دشمنی کا تھا۔ جو لوگ بھی اس اتحاد سے کسی جمہوری جدوجہد، سول بالادستی یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کسی مزاحمتی تحریک کو دیکھنے یا اس سے نتیجے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے وہ غلطی پر تھے۔ پی ڈی ایم میں شامل دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اس اتحاد پی ڈی ایم کو بنیاد بنا کر اپنی سیاسی طاقت کی بحالی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ دونوں پی ڈی ایم کا جن دکھا کر طاقت ور یا بالادست طبقوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ ان سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو طے کیا جائے۔
حالیہ دنوں میں اسمبلیوں سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے یا لانگ مارچ کو حتمی بنانے پر جو اختلاف پی ڈی ایم میں دیکھنے کو ملا اس کا ایک نتیجہ اب ہمیں براہ راست الزام تراشیوں پر مبنی بیانیہ دونوں جماعتوں کی جانب سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بلاول بھٹو نے سیاسی طعنہ دیتے ہوئے شریف خاندان کی طرف اشارہ کیا کہ ماضی میں لاہور کا ایک سیاسی خاندان اقتدار کی سیاست میں سلیکٹ ہوتا رہا ہے۔ ان کے بقول مریم نواز کے بیانات کا جواب میں نہیں بلکہ پارٹی کا نائب صدر دے گا۔ اسی طرح رانا ثناء اللہ کے بقول وہ ویڈیو موجود ہے جس میں زرادری نے کہا تھا کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر یا لڑ نہیں سکتا۔ یعنی جو پی ڈی ایم عملی طور پر عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنے اور ان کی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے متحرک ہوئی تھی خود ہی آپس میں دست و گریبان ہو گئے ہیں۔پی ڈی ایم میں ایک نئی سیاسی کشمکش پیپلز پارٹی کو ساتھ رکھنے یا ان سے سیاسی جان چھڑانے کی شروع ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف یا مریم نواز کے درمیان بنیادی نکتہ پیپلز پارٹی کو موجودہ صورتحال میں ساتھ لے کر چلنے یا نہ چلنے کا زیر بحث ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی پوری کوشش ہے کہ وہ ان دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان جاری الزام تراشیوں پر سیز فائر کروا سکیں، لیکن لگتا ہے کہ بلی تھیلے سے کافی حد تک باہر آ گئی ہے۔
سینٹ میں قائد حزب اختلاف کے لیے بھی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور اگر اتفاق نہیں ہوتا تو بداعتمادی کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے کھیل میں پی ڈی ایم کو عملی طور پر دو جماعتوں یعنی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے یرغمال بنایا ہوا ہے یا مولانا فضل الرحمان اپنے ایجنڈے پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اس اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں لگتا ہے کہ اس داخلی سیاسی کھیل میں خود کو سیاسی طور پر تنہا محسوس کر رہی ہیں یا ان کو لگتا ہے کہ اس اتحاد میں ان کی اپنی سیاسی حیثیت ان بڑی جماعتوں کی سیاسی درباری کے کچھ نہیں۔
پاکستان کی عملی سیاست کسی اصول، نظریے یا فکری سوچ کی بنیاد پر نہیں کھڑی۔ اس سیاست کا بنیادی نکتہ اقتدار کی سیاست میں اپنے سیاسی حصہ کو یقینی بنانا ہے۔ اقتدار جائز طریقے سے ملے یا ناجائز طریقے سے اصل قوت اقتدار کے حصول کی ہی ہے۔ اس لیے اگر حکومت ہو یا حزب اختلاف ان کو اپنی اپنی سیاسی مجبوریوں یا مشکلات میں سیاسی یوٹرن لینے پڑیں تو اسے عملی سیاست کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ جب اصل نکتہ اقتدار کے حصول کا ہے تو ساری حکمت عملی یا فکر اسی دائرہ کار کے گرد گھومتی ہے۔
ہر سیاسی جماعت جب بھی کسی اتحاد کی سیاست کا حصہ بنے گی تو اسے اتحاد کے مقاصد سے زیادہ اپنی سیاست سے جڑے مفادات کی فکر ہوتی ہے اور اس کی جدوجہد اسی نکتہ کی بنیاد پر چلتی ہے۔ ابھی تو مسلم لیگ نون اور جے یو آئی یا پی ڈی ایم کو اس بات پر گلہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے استعفوں سے لاتعلقی کر کے ان کے اتحاد کو کمزور کیا ہے۔ لیکن اول تو استعفوں پر پیپلزپارٹی کو نکال کر بھی اتفاق ممکن نہیں۔ اگر اتفاق پیدا ہوا اور واقعی استعفوں کی حتمی بات سامنے آئی تو خود مسلم لیگ نون کا ایک دھڑا استعفوں کی سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کر دے گا۔
خود پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اتحاد کے سربراہ ہونے کے باوجود بڑے فیصلے کرنے کی قوت نہیں رکھتے اور فیصلوں کی اصل طاقت زرداری یا نواز شریف یا مریم کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود مولانا فضل الرحمان بھی حالات سے دلبرداشتہ ہیں اور اگر واقعی پیپلز پارٹی عملی طور پر پی ڈی ایم سے علیحدہ ہوتی ہے تو مولانا کی سیاسی تنہائی میں اور زیادہ اضافہ ہو گا۔
اگرچہ بلاول بھٹو کو دکھ ہے کہ پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کیوں ملتوی کیا اور کیوں اسے محض استعفوں سے مشروط کیا حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی استعفوں سے ہٹ کر لانگ مارچ کی بھی حامی نہیں تھی۔ کیونکہ اسے ڈر تھا کہ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کے سیاسی عزائم بلاوجہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی سیاست کو نمایاں کریں گے جو پیپلز پارٹی کو قبول نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی لانگ مارچ کی بنیاد پر ایک دن کے اجتجاج کی حامی ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اسلام آباد میں طویل لانگ مارچ کی حامی نہیں۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ مرکز کی قربانی کی صورت میں ان کو سندھ حکومت کی بھی قربانی دینی ہوگی جو ان کو قبول نہیں۔
پی ڈی ایم میں مریم نواز جارحانہ پالیسی کی حامی ہیں لیکن ان کو ایک بڑی مزاحمت اپنی ہی جماعت میں اس گروپ سے ہے جو کسی بھی شکل میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی سیاست کا حامی نہیں۔ ان میں سرفہرست شہباز شریف اور حمزہ شہباز ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ مریم نواز سیاسی سطح پر ٹکراؤ پیدا کرنا چاہتی ہیں جو ان کو طاقت کی سیاست میں اور زیادہ کمزور کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ حالیہ شریف خاندان کے اپنے خاندانی اجلاسوں میں ایک دوسرے کے درمیان مفاہمت اور مزاحمت کے درمیان سیاسی تلخی دیکھنے کو ملی ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ مسلم لیگ نون میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مخالفت کا کارڈ بڑی خوبصورتی سے اپنے سیاسی مفاد کے حق میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی سرپرستی بھی خود نواز شریف اور شہباز شریف بطور سیاسی ہتھیار کے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے جنگجو جو مریم نواز کے ساتھ ہیں ان کو یہ ڈر ہے کہ اگر مریم نواز گرفتار ہوتی ہیں تو سیاسی کمانڈ حمزہ شہباز کے پاس ہوگی جو مفاہمت سے آگے بڑھیں گے جو کم از کم مریم نواز کو سیاسی طور پر قبول نہیں ہو گا۔
پی ڈی ایم میں موجودہ صورتحال میں دو ہی سیاسی آپشن ہیں۔ اول مائنس پیپلز پارٹی اور پرانی تنخواہ پر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر چلنا۔ دونوں صورتوں میں پی ڈی ایم کی سیاسی افادیت کم ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی اگر خود کو یا اسے علیحدہ کیا جاتا ہے تو پھر صورتحال او رزیادہ بگاڑ کا شکار ہو گی کیونکہ پی ڈی ایم کی سیاسی طاقت کا کمزور ہونا جہاں ان کی سیاسی ناکامی ہو گی وہیں یہ حکومت کی بڑی کامیابی ہو گی کہ پی ڈی ایم خود ہی اپنی سیاسی کشمکش میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔
اگر پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کے ساتھ چلتی ہے تو ایجنڈا مفاہمت کا ہو گا اور پی ڈی ایم کو سخت گیر موقف کو چھوڑ کر مفاہمت یا ٹکراؤ کے بغیر آگے بڑھنا ہو گا۔ دوسری صورت سولوفلائٹ کی ہو گی جہاں پیپلز پارٹی دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر خود کو حزب اختلاف کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کے نتیجہ میں ہمیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں ایک نئی سیاسی سردجنگ بھی دیکھنے کو ملے گی جو 90 کی دہائی کی سیاست کو دوبارہ سامنے لا سکتی ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ