مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے کہاہے کہ ’جب بھی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا، اُسے سیاسی بحرانوں میں دھکیلا گیا‘۔ انہوں نے گزشتہ روزمسلم لیگ( ن) خیبر پختونخوا کے صوبائی عہدیداروں سے ملاقات کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اپوزیشن ملک میں آئین کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق سلب کرنے کے الزامات عائد کررہی ہے۔
نواز شریف نے اپنے مختصر تبصرے میں یہ وضاحت نہیں کی کہ ملک کو کون بحران کی طرف دھکیل رہا ہے اور کیا ماضی میں بھی انہی عناصر نے جمہوری طور سے منتخب حکومتوں کے لیے بحران یا مسائل پیدا کیے تھے۔ عام قیاس کے مطابق اس وقت مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہے اور اسے کسی ریاستی طاقت کی طرف سے کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہے۔ حالانکہ ماضی میں منتخب حکومتوں اور اسٹبلشمنٹ میں اختلافات کی وجہ سے ہی بحران پیدا ہوتے تھے۔ خود نواز شریف کی آخری حکومت کو پہلے ڈان لیکس اور پھر پانامہ پیپرز کی وجہ سے جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، اس کی بنیادی وجہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ نواز شریف کے اختلافات ہی تھے۔ اس کے بعد عمران خان اگرچہ اسٹبلشمنٹ کی تائید و حمایت سے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن ایک بار پھر عسکری قیادت ایک سویلین لیڈر کے تمام فیصلوں کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھی اور اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت ختم کردی گئی۔ ملک میں کسی کو یہ شبہ نہیں ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن پارٹیوں کی بجائے اسٹبلشمنٹ کی خواہش و کوشش کی وجہ سے کامیاب ہوسکی تھی۔
اس بار بہر حال ملکی سیاست میں یہ صورت حال موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس اقتدار پر قابض اور اقتدار سے باہر سیاسی عناصر متعدد امور پر اختلاف رائے کا شکار ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ ایسے میں کیا ایک سیاسی لیڈر یاپارٹی کی سہولت کے لیے نام نہاد سیاسی بحران کی وجہ تسمیہ تبدیل کی جاسکتی ہے؟ اگر جمہوری عمل میں سیاسی اختلافات کے ساتھ نہیں چلا جاسکتا تو پھر اس ملک میں جمہوریت کی بات کیسے کی جاسکتی ہے؟ ماضی کے مقابلے اس وقت سیاسی گروہوں کے درمیان اختلاف تصادم کی صورت اختیار کررہا ہے۔ یہ صورت حال اسٹبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی حکومت کے خلاف سازش کرنے کے برعکس ہے۔ ماضی میں نواز شریف بھی اسٹبلشمنٹ پر اپنی حکومت کے خلاف سرگرم رہنے کا الزام عائد کرتے رہے تھے۔ اب یہی الزام عمران خان لگا رہے ہیں لیکن نواز شریف اس واویلا پر کان دھرنے کی بجائے، اب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ موجودہ بحران کی ساری ذمہ داری عمران خان اور تحریک انصاف پر ڈال کر حکومت کی ناکامیوں کے لیے دلیل لائی جاسکے یا انتخابی دھاندلی کے الزامات کو نظر انداز کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ حالانکہ ملکی سیاست میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو ملک میں سیاسی استحکام کے لیے کام کرنے کی ضرورت تھی ۔ بدقسمتی سے اس کے برعکس عمران خان کی مقبولیت سے خائف سرکاری پارٹی ،تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے اور منتشر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اس کا ایک مظاہرہ گزشتہ دو روز کے دوران اسلام آباد میں ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’قومی کانفرنس کے انعقاد کے سلسلہ میں دیکھنے میں آیا۔ اس قومی کانفرنس کا اہتمام مسلم لیگ کے سابق رہنما اور اب ’عوام پاکستان‘ پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی اور نواز شریف کے دیرینہ رفیق و سیاسی ساتھی اور پشتون خوا ملی عوام پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کیا تھا۔ اس میں تحریک انصاف کے علاوہ اس وقت حکومت سے باہر کم و بیش سب سیاسی گروہوں نے شرکت کی۔ البتہ تحریک انصاف کے خوف میں مبتلا مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پہلے بھرپور کوشش کی کہ اسلام آباد کا کوئی ہوٹل اس کانفرنس کے لیے جگہ فراہم نہ کرے۔ جب ایک ہوٹل نے یہ حامی بھر لی تو دوروزہ اجلاس کا ایک روز مکمل ہونے کے بعد ہوٹل انتظامیہ نے دوسرے روز کے لیے اپنا ہال دینے سے معذرت کی۔ اس کھینچا تانی میں کانفرنس تو اسی ہوٹل میں منعقد ہوگئی لیکن حکومت کی بدحواسی مزید عیاں ہوئی۔ حالانکہ اگر کوئی ہوٹل اپوزیشن پارٹیوں کو جگہ دینے پر آمادہ نہیں تھا تو حکومت کو کسی سرکاری ہال میں یہ کانفرنس منعقد کرنے کی پیش کش کرنی چاہئے تھی۔ سیاسی عمل میں فاصلے کم کرنے کا اور کیا طریقہ ہوسکتا ہے؟
حکومت نے تو ہزیمت اٹھائی ، اس کا حساب اسے خود دینا پڑے بلکہ خمیازہ بھگتنا پڑے گا لیکن نواز شریف جیسا قومی لیڈر بھی اس موقع پر اپوزیشن کی اہمیت و ضرورت کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ حالانکہ اس کانفرنس کا اہتمام کرنے والے لوگوں میں ان کے سابق معتمد اور دوست شامل تھے۔ نواز شریف کو سیاسی اختلاف کے حق اور رائے کی آزادی کے بنیادی اصول کے نام پر اپوزیشن کانفرنس کی حمایت کرنی چاہئے تھی۔ اگر وہ کچھ اور کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے تو پارٹی لیڈر کے طور پر ایک بیان میں ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کی کانفرنس یا کنونشن کی حمایت کرتے اور اپنے بھائی کی حکومت کو مشورہ دیتے کہ اسے روکنے کی بچگانہ کوششیں نہ کی جائیں۔ ایسے بیان سے حکومت بھی دباؤ محسوس کرتی اور نواز شریف کا سیاسی قد بھی بلند ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ ابھی تک عمران خان کے ساتھ چلی آرہی ذاتی عداوت بھلانے اور اس سے آگے بڑھنے کے قابل نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے وہ ملک کو متوازن اور ہوشمندانہ سیاسی قیادت بھی فراہم نہیں کرپارہے۔
جاتی عمرہ میں خیبر پختون خوا کے پارٹی لیڈروں سے باتیں کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا ہے کہ ’ پاکستانی عوام کی خوشحالی اور ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنا ن لیگ کا ایجنڈا ہے۔ جب بھی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ، اسے سیاسی بحرانوں میں دھکیلا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ایک بار پھر ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے پاکستان کی معشیت کو بحالی کے راستے پر ڈالا ہے۔ پاکستان کی ترقی کا سفر اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک تمام صوبے اس میں شریک نہ ہوں۔ ملک میں سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل ترقی کے لیے ناگزیر ہوتا ہے‘۔
میاں صاحب کو مختصر بیان دینے کی بجائے قومی سیاسی امور پر تفصیلی بیان جاری کرنا چاہئے یا کسی انٹرویو میں اپنے زریں خیالات کا اظہار کرنا چاہئے۔ یوں مختصر جملوں اور اشاروں میں کی گئی باتیں عام طور سے پورا مافی الضمیر بیان کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ اس کے باوجود اس بیان میں سیاسی استحکام اورپالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے لیکن یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ایک جمہوری انتظام میں استحکام کے نام پر آمریت مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت پر ایک طرف گزشتہ سال کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے کامیابی کا سنگین الزام ہے جس کا جواب دینے سے مسلسل گریز کیا جارہا ہے۔ تو دوسری طر ف اس حکومت نے تحریک انصاف کو دبانے اور اختلاف رائے روکنے کے لیے قانونی و انتظامی ہتھکنڈے اختیار کیے ہیں۔ ایسے میں حکومت خواہ ’جمہوری‘ طور سے منتخب ہونے کا دعویٰ کرتی رہے لیکن اسے نمائیندہ حکومت کی حیثیت اور قدر ومنزلت حاصل نہیں ہوسکتی۔ معاشی اصلاح کے نام پر کسی ایک پارٹی کو ملک پر یک طرفہ طور سے آمرانہ طرز حکومت مسلط کرنے کی اجازت دینا ،اس تمام سیاسی جد و جہد سے منہ موڑنے کے مترادف ہوگا جو اس ملک کے عوام نے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران کی ہے۔ جمہوری کامیابی کے لیے قانون کے احترام علاوہ اختلاف رائے برداشت کرنے کا حوصلہ درکار ہوتا ہے لیکن شہباز شریف کی حکومت ان دونوں بنیادی اصولوں کو نظر انداز کررہی ہے اور ملک میں سیاسی جبر کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ بدقسمتی پارٹی کا لیڈر ہونے کے باوجود نواز شریف بھی اس صورت ھال کو تبدیل کرانے کی کسی کوشش کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں ہیں۔
نواز شریف نے ترقی کے سفر میں سب صوبوں کی شرکت پر بھی زور دیا ہے ۔ تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کی صاحبزادی مریم نواز کی حکومت اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر نہروں کے ایک ایسے منصوبے کا آغاز کررہی ہیں جس کی وجہ سے سندھ میں شدید بے چینی ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کی حکومت بھی اس عوامی احتجاج کو نظر انداز کررہی ہے لیکن اگر باہمی مواصلت کی بنیاد پر دیگر صوبوں میں پیدا ہونے والی بے چینی دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی تو اس سے صوبوں میں مل جل کر چلنے کا جذبہ بڑھنے کی بجائے کم ہوگا۔ اسی طرح خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔ ان صوبوں میں عوامی سطح پر نوجوان قیادت بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے تو اسے ریاست کو لاحق خطرہ قرار دے کر بات کرنے اور بنیادی مسائل اجاگر کرنے سے روکا جاتا ہے۔ ایسے میں جمہوری یا بین الصوبائی ہم آہنگی کا کون سا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے؟
اس دوران دو عالمی اداروں نے پاکستان میں جمہوریت اور بنیادی حقوق کی دگرگوں صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے۔ واشنگٹن میں قائم ایک تنظیم ’فریڈم ہاؤس‘ کی سالانہ رپورٹ میں سیاسی حقوق اور سول آزادیوں کے معاملہ میں پاکستان کی رینکنک کو گزشتہ سال کے مقابلے میں مزید تین درجے کم کیا گیا ہے۔ یہ تنظیم دو دہائی سے دنیا بھر میں جمہوریت کی صورت حال اور آزادیوں کو لاحق خطرات کا جائزہ لے رہی ہے۔ اسی طرح ’اکنامسٹ‘ کے ڈیموکریسی انڈکس میں گزشتہ سال کے دوران میں پاکستان میں جمہوریت کی صورت حال میں 6 درجے کمی کی گئی ہے اور اسے دنیاکے ان دس ملکوں میں شامل کیا گیا ہے جہاں جمہوریت مشکلات کا شکار ہے۔ اس انڈکس میں 165 ملکوں میں جمہوری رجحانات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جائزے میں انتخابی عمل، حکومتی کارکردگی، سیاسی سرگرمیوں و ثقافت اور شہری حقوق کی صورت حال کو پرکھا جاتا ہے۔ نواز شریف کو تحریک انصاف کی سیاست سے پریشان ہونے اور اس پر ناراض رہنے کی بجائے عالمی اداروں کی طرف سے سامنے آنے والے ان جائزوں پر توجہ مبذول کرنی چاہئے تاکہ ملک میں واقعی ترقی و استحکام کا راستہ ہموار کیا جاسکے۔
اس وقت حکومت خود کو سب پر افضل اور غلطیوں سے پاک قرار دے کر یک طرفہ فیصلے کرنے اور ان کی تشہیر میں مصروف ہے۔ سیاسی وابستگیاں مستحکم کرنے کے لیے کابینہ میں غیر ضروری توسیع کے ذریعے قومی خزانے کو زیر بار کیا جارہا ہے۔ جمعرات کو ہی صدر مملکت نے 13 نئے وزیروں اور11 وزرائے مملکت سے حلف لیا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں کسی حکومتی اقدام کو قابل اعتبار نہیں سمجھتیں۔ ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے نام سے بننے والے سیاسی اتحاد میں تحریک انصاف کے علاوہ متعدد سیاسی جماعتیں شامل ہیں جن کے ساتھ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے سیاسی روابط رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ اتحاد مضبوط و مستحکم ہوگیا تو ملکی سیاسی بحران میں اضافہ کا سبب بنے گا لیکن دوسری طرف جبر کے ہتھکنڈوں سے کسی سیاسی تحریک کو دبانا ممکن نہیں ہوتا۔
’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘نے اسلام آباد کانفرنس کے اختتام پر جاری بیان میں فوری انتخابات کو ملکی مسائل کا حل قرار دیا ہے۔ حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اس ایک نکاتی سیاسی مطالبے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ مشکوک انتخابات کے سائے سے نکلنے کا شاید یہ ایک بہتر اور باعزت آپشن ہو۔
( بشکریہ : کاروان َ۔۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ