تہذیب اور تخلیق کسی معاشرے کے بامقصد تشخص کی عمارت کے دواہم ستون ہیں۔تہذیب سماج کے تنظیمی اصولوں کی عملداری۔جب کہ تخلیق زندگی کے اخلاقی اور جمالیاتی رویوں کی کارپردازی ہے ۔تہذیب اور تخلیق دونوں آپس میں اس طرح گندھے ہوئے ہیں جیسے پھول میں رنگ اورخوشبو ایک ہی جگہ جمع ہیں۔تہذیب ماضی کی طویل مسافت میں سماجی قافلے کے قدموں کے نشانات ہیں جس کی جھلملاہٹیں روزمرہ زندگی میں دکھائی دیتی ہیں اورتخلیق اسی تہذیب کے بطون میں کارفرما وہ نظام اخلاق وجمال ہے جس کی بدولت سماج اپنی قدری حیثیت کے طورپر پہچانا جاتا ہے ۔کسی بھی سماج کاآرٹ معروضی طورپرا س کی تہذیب اور موضوعی حیثیت میں اس کی تخلیقی توانائی کی نشاندہی کرتا ہے۔
کیا ادب کسی جغرافیے میں موجود معاشرے کے ”ہے“ کو بیان کرنے کا ذمہ دار ہے یا اس کی جولان گاہ”چاہیے“کی وسعتیں اور امکانات بھی ہیں۔یہ سوال دراصل ”واقعیت اور مثالیت“پربنیاد رکھتا ہے اور ادب کے مقصدی اورغیرمقصدی نقطہ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔
کسی ادیب سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اخلاق سدھار تحریک کے جھنڈے کے سائے میں سانس لے۔ اگرچہ عجیب سی خواہش ہے لیکن بے معنی نہیں جب یہ کہاگیا کہ ”ادب تنقید حیات ہے“ یامیکسم گورگی نے ”ادب کو انسانیت کا نقاد“ قراردیا یا والٹر پیٹر نے ”ادب کو کمالات صناعی اورفضائل باطنی کی جمالیات“ اورعلامہ اقبال نے ”شاعری کو جزویست از پیغمری“سے تعبیر کیا ہے تودراصل ادب کو مقصدی پیرہن میں ملبوس ہونے کی بات کی ہے۔مسرت رسانی اور مسرت یابی اپنے طورپر ایک اعلی ترین مقصد ہے۔گویا ادب کسی بھی حالت میں مقصدیت سے پہلوتہی نہیں کرسکا۔البتہ یہاں ایک بات واضح طورپر سمجھ لینی چاہیے کہ مقصد ادبی اثریت کاوہ خاموش اور خفیہ کارندہ ہے جو دھیرے دھیرے بغیر بلند بانگ اعلان کے معاشرے کی روح میں اثر کرتا جاتا ہے ۔یہی ادب آفاقی گردانا جانے کے قابل ہے۔ جونقاد ادب کوبرائے ادب تک محدود رکھنے کے علمبردار ہیں اور ادب کو مسرت تک رہنے کی تلقین کیاکرتے ہیں وہ بھی دراصل ادب سے ایک مقصد کاحصول چاہتے ہیں ۔اگرچہ بقول ان کے مسرت کسی تخلیق کامقصد نہیں بلکہ ادب کا بنیادی وصف ہے جبکہ مقصدی ادب کے حامی نقاد بھی مقصد کے اعلان اور اظہار کو اعلی ادب کے لیے مضرسمجھتے ہیں۔
ہمارے خیال میں ادب اپنی وصفی نوعیت میں جمال آفرین ہوتا ہی ہے ۔وہ اس صفت سے خالی نہیں ہوتا۔ورنہ وہ اپنے آپ کو ادب کہلوانے کی صلاحیت سے عاری ہوجائے گا۔گویا وہ تاریخ ،جغرافیہ، صحافت یا بعض دیگر علوم کی فہرست میں توشامل ہوسکے گا لیکن تخلیقی ادب کی فہرست میں نہیں رکھا جاسکے گا۔شہد کی مٹھاس اس کابنیادی اور ذاتی وصف ہے اس صفت سے کوئی مشہد دستبردارنہیں ہوسکتا۔لیکن دیکھنے اور سوال کی بات یہ ہے کہ شہدانسان کو مٹھاس کاذائقہ دینے کے علاوہ اور کیا دے رہا ہے۔ادب زندگی کاترجمان،شارح اور نقاد ہونے کی حیثیت سے وہی مقاصد رکھتا ہے جوزندگی اور انسانیت کے مقاصد ہیں۔۔اگرادیب کسی خاص جغرافیے اور ایک خاص معاشرے میں سانس لیتا،مشاہدہ کرتا اور سوچتا ہے تواس کا ادب بھی اسی سماجی ماحول میں جنم لیتا ہے۔گویا ادب کوزندگی اور زندگی کوادب سے کسی صورت میں الگ نہیں کیاجاسکتا۔یعنی ادب رہبانیت کاقائل نہیں۔معاشرے کے عناصر میں جوباہمی آویزش ،کھینچا تانی اور کشمکش کی صورتیں ہیں ان کاراستہ تصادم کی طرف جاتا ہے۔لڑائی جھگڑے ،فساد،افراتفری،قتل وغارت گردی ،مذہبی لسانی ،معاشی اورسیاسی انتہاپسندی ،مفادات کے ٹکراﺅ کی وجہ سے انتشار جنم لیتا ہے۔
ایسے میں ادب اورادیب کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔جب معاشرہ انحطاط و ادبار اورذلت کاشکارہوجائے ۔جب نسل آدم انتشار وہیجان میں گھر جائے اور سکون و ا من کی تلاش میں سرگرداں ہو۔اس صورتحال میں تہذیبی قدریں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوجائیں گی۔یہاں تخلیق ،تہذیب کوناتوانی سے بچانے کافریضہ ادا کرتی ہے اور ادیب بچشم نم اور بہ قلب حزیں معاشرے کے تن شکستہ میں زندگی کی روح پھونک کرمسیحائی کرتا ہے۔قوم کے افراد کی سوچ میں مثبت تبدیلیاں لانے اور اخلاقی تربیت کرنے میں ادیب کاکردار سب سے اہم ہے۔
معاشرے میں قیام امن کی خواہش دراصل نظام عدل کی خواہش ہے ۔عدل کی جڑیں مضبوط کیے بغیر کوئی معاشرہ اپنے اندر امن قائم رکھنے کی صلاحیت پیدانہیں کرسکتا۔وہ نہ صرف قیام امن میں ناکام ہوگا بلکہ بدامنی اور انتشار کے علاوہ کئی دوسری مصیبتیں بھی سراٹھالیں گی اور جب یہ زہرمعاشرے کے جسم کی شریانوں وریدوں میں سرایت کرجائے گا تو پھراس کاعلاج فسد خون کے علاوہ نہیں ہوسکے گا۔اسی لیے افلاطون جیسا UTOPIAکاتصور دینے والا مفکر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ”فن لطیف کےلئے ضروری ہے کہ وہ فلسفے کے ماتحت چلے۔معاشرے کے ارتقاءکے لیے اخلاقی ذریعہ بنے۔اس کا (فن لطیف ) اعلیٰ ترین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ نیکی کے حسن اور بدی کی بدصورتی کواجاگر کرے“۔
نیلگوں آسمان کے نیچے دنیا کا کوئی خطہ زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہیں ہے جہاں ادب یا ادیب نے ظلم کی حمایت کی ہو۔ماضی کا کوئی لمحہ ایسانہیں ہے جب اہل قلم نے جبر اوربدامنی کاساتھ دیا ہو۔پیغمبر اور ادیب کے کردار میں کم ازکم ایک پہلو مشترک ہوتا ہے کہ وہ پیدائشی طورپر ظلم کی بدصورتی کے خلاف ایک خوبصورت نظام امن کے داعی اور ایک تہذیبی معاشرے کی تشکیل کے تمنائی ہوتے ہیں۔ کرہ ارض کے انسان کدے میں جہاں بھی انسانیت،ظلم اور جبر کی آگ میں جھلسے گی ۔شاعر،ادیب بول پڑے گا اس کی روح تڑپ اٹھے گی۔اس کا قلم حرکت میں آئے گا۔ گویا
معلوم نہیں درد سے نسبت مری کیا ہے
چوٹ آئی ہے شیشے پہ تو میں بول پڑا ہوں
ادیب کی اسی فطری دردمندی اور امن پسندی کی وجہ سے اقبال نے شاعر ادیب کو ”دیدہ بینائے قوم“ کہا ہے
قوم گویا جسم ہے،افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست وپائےقوم
محفل نظم حکومت،چہرہ ء زیبائے قوم
شاعر رنگیں نواہے دیدہ ء بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو،روتی ہے آ نکھ
کس قدرہم درد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
ادیب کسی بامقصد معاشرے قافلے کے ایسے فکری رہبر ہوتے ہیں جوسماج کے باقی افراد کے مقابلے میں زیادہ فلسفیانہ صداقتوں کے ساتھ ایک اعلی شعور،ایک ارفع تخیل اور زیادہ سچی اور شادمان طبعیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ہرلحظہ نیا طور،نئی برق تجلی ان کے پیش نظر ہوتی ہے وہ سماج کے لوگوں کے لیے اعلی پائے کی حکمت ،مسرت اور نیکی کے موجد ہوتے ہیں۔انبیاءکرام کو چھوڑ کر باقی پوری انسانی تاریخ کا کوئی سیاست دان،کوئی بادشاہ،کوئی جرنیل ،فساد فی الارض ،بدامنی اورآدم کی ارزانی کااتنا برملا ،واضح اور سچا مخالف نہیں ہوسکتا جتنا شاعر اور اہل قلم ہوتا ہے۔
ارباب فکر اور صاحبان بصیرت کی کوئی جماعت اس امر کا فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھے کہ اگرارضی حیات سے ادب کے تخلیق کاروں کومنہا کردیا جاتا یا سرے سے ادب کی فردوس قلب وروح بہارجاوداں کو نکال دیا جاتا تو کیا پھربھی دنیا کے معاشروں کی علمی،جذباتی ،نفسیاتی ،فکری اور تہذیبی ہیئت ایسی ہی ہوتی یاتہذیبی و فکری بدصورتی کادیواستبداد ہرسو رقص کررہا ہوتا۔دنیا کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کوئی معاشرہ ظلم و استبداد کے غلبے میں آیا ۔جب بھی روئے زمین پر ظلمت کے مکروہ سائے منڈلانے لگے جب بھی سماج دشمنی کی بادسموم چلنے گی یا تو پیغمبر ان عظیم المرتبت کی مقدس آواز کی روشنی نے غرور ظلمت توڑ ا یا اہل قلم کی پردانش اور گداز صدائے دل نشین کام آئی۔
آج معاشرہ نفسیاتی ،سیاسی اور اخلاقی ناہمواری کے دور سے گزررہاہے ۔علاوہ ازیں دیگر اقوام عالم کی تیزرفتار معاشرت کا سامنا بھی ہے۔اب اہل قلم کے اخلاقی کردار کے اس شعبے کی جو سماج میں موجودہیجان انگیز کیفیتوں کو سکون اور احترام آدمیت کی میٹھی اور ٹھنڈی روشنی عطا کرے۔زیادہ ضرورت ہے انسانی معاشرے کا وہ کردار جوقوم کے ہرفرد اور ریاست کے ہر شہری میں اخلاقی قدروں پر بے خوف عمل کرنے کی خواہش پیدا کردے۔دراصل تہذیبی اور جمالیاتی کردار ہوگا۔جس معاشرے میں فرد کی ہستی کو ترقی اورارتقاءکامناسب خوشگوار ماحول اور حوصلہ افزائی مل سکے۔ وہی معاشرہ ”پرامن “کہلانے کا حقدار ہوگا اور اس ماحول کی بامقصد بنیاد اس درد مند حکیم کے قلم کی روشنائی فراہم کرتی ہے جواپنی فکر کوتخلیقی سانچوں میں ڈھالتا ہے۔
فیس بک کمینٹ