پروفیسر انورجمال کے فن کی کئی جہتیںہیں۔ وہ کئی کتابوںکے مصنف ہیں ۔ شاعر ، نقاد ،اورماہرِتعلیم کی حیثیت سے تو ہم انہیںمدت سے جانتے ہیںلیکن اب وہ مصور کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرا چکے ہیں ۔ گرد و پیش کے لئے پروفیسر انور جمال کی پہلی تحریر آپ سب کی نذر ہے (رضی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات جس نقطے سے شروع ہوئی ۔دائرے میں سفر کرتی ہوئی اسی نقطے پر آکر ختم ہوگئی۔طبل و علم اور جاہ وحشمت کی رعونت میں مخمور کل کاآمر آج کا زندانی ہے۔جمہوری اورآئینی راستے سے عوامی مینڈیٹ لے کرآنے والا وزیراعظم جسے آئین شکنی اورطاقت کے ذریعے مچھروں اور پسوﺅں کی بھنبھناہٹ سے آباد کال کوٹھڑی میں قید کردیاگیا۔۔آج پھرملک کاچیف ایگزیکٹوہے۔۔وقت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔مگر یہ فیصلے وہ انسان کی سوچ اور عمل کی روشنی میں کرتا ہے۔یہ بات اپنی جگہ مقام حیرت ہے کہ تاریخی جبریت اور تہذیبوں کی جدلیات کس طرح ثقافتوں،زبانوں،قبیلوں ، اوران کے رشتوں،ارتقائے انسانی اوراس سے متصادم قوتوں کوٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزارکر ایک بالکل نیا ”منظرنامہ“سامنے لاتی ہے۔۔۔۔یہ باتیں مجھے رانا محبوب اختر کی تازہ کتاب ”لوک بیانیہ اور سیاست“ میں موجود ”زبان“کے سلسلے میں تین مضامین پڑھ کرکرنی پڑیں۔
پاکستان میں تعلیم اور تعلیمی تحقیق کااعلی سطحی شعبہ ایوب آئزن ہاور فرینڈشپ کے نتیجے میں وجود میں آیا۔امریکہ پی ایچ ڈی اساتذہ ایجوکیشنل ریسرچ کی بہت بڑی لائبریری کے ساتھ پاکستان آئے اور امریکی مدد سے پنجاب یونیورسٹی کے تحت انسٹی ٹیوٹ آی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (آئی ای آر)کابہت بڑا شعبہ قائم ہا۔چارپانچ سال میں ایم ای ڈی اور پی ایچ ڈی کے پاکستانی سکالرز کی ایک معقول تعداد وجود میں آگئی۔میں نے 1975ءمیں یہاں داخلہ لیا۔ایک روز استاد محترم ڈاکٹر لی سٹونر (امریکن)کی کلاس ایجوکیشن ایڈمنسٹریشن میں ساتھ بیٹھے ہوئے سید اکبر حسین شاہ سے تفصیلی تعارف ہوا۔گرمی کی چھٹیوں میں ہم ایک ہی بس پر ملتان آئے۔ملتان سٹینڈ پر اترتے ہوئے انہوںنے مجھے محمودکوٹ آنے کی دعوت دی۔چھٹیوں میں ایک روز میں نے عباس خان مرحوم (جوبعد میں ڈائریکٹر فیڈرل گورنمنٹ ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ اسلام آبادرہے)کے ساتھ محمود کوٹ جانے کا پروگرام بھی بنایا لیکن میری فطری گریزپائی اور سستی اس پروگرام میں رکاوٹ بنی اور ہم اکبر شاہ جی کے باربار اصرار کے باوجود محمود کوٹ نہ جاسکے۔میں مرے کالج سیالکوٹ سے 1980ءمیں گورنمنٹ کالج سول لائنز ملتان تبدیل ہوکرآگیا۔یہاں چھوٹے سید اکبر حسین شاہ یعنی سید مظہر حسین گیلانی تقریباً دس سال تک میرے سینئررفیق کاررہے۔مظہرگیلانی بڑی سوچ کے ایک مدمخ اور دوراندیش انسان ہیں۔ان کارکھ رکھاﺅ،خوش گفتاری اور بلند ظرفی کودیکھ کر مجھے دوسری مرتبہ پھرمحمود کوٹ جانے کا اشیاق ہوالیکن۔۔
بھلاگردش جہاں کی چین دیتی ہے کسے انشاء
غنیمت ہے جو ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
۔۔۔۔زندگی کے منہ زور سمندر میں کمزور ،خس وخاشاک کی کیا بساط۔جدھرجدھرپانی کی موجیں ادھرادھر ناتواں تنکے۔نتیجہ محمود کوٹ نہ جاسکا۔۔۔اب میں نے رانا محبوب اختر کالوک بیانیہ پڑھا تو اکبرحسین شاہ کے ساتھ شہید آباد،محمود کوٹ اور وہاں کی گردوغبار کی اٹی ہوئی سفید روشنی کی ٹھنڈی پھوار میں علم وفضل کے چراغوں سے بھی ملاقات ہوگئی۔یہ کہانی کسی بیانیہ کی محتاج تھی۔ میں تو سید اکبرحسین شاہ کانوحہ بھی نہ کہہ سکا اورمظہر گیلانی کو پرسہ بھی نہ دے سکا۔مجھے متشکر ہونا چاہیے رانا محبوب اختر کا کہ انہوںنے مجھے پورا محمود کوٹ بھی دکھایا ور وہاں کے بادو در سے لپٹی ہوئی خلوص کی چاندنی اور مدفون چراغوں سے باہرامڈتی ہوئی علم وفضل کی سفید نیلگوں روشنی سے دامان دل و دماغ بھرنے کاموقعہ بھی دیا۔ایک روز سرکاری ضرورت کے سلسلے میں پروفیسر عاشق حسین کے توسط سے 2007ءمیں مجھے رانا محبوب اختر سے اول اول ملنے کاموقعہ ملا۔اوراب توپچھلے پانچ سالوں سے گاہے گاہے کنٹونمنٹ گارڈن میں صبح صادق کی پھوٹتی ہوئی خنک اورمقدس روشنی میں واک کے دوران ان سے ملاقات رہتی ہے ۔وہ جوش کے ساتھ اس تصور صبح کے قائل ہیں۔
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لےے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
فطرت اور فطرتی بوقلمونیوں کامشاہدہ ان کامحبوب مشغلہ ہے۔کنٹونمنٹ گارڈن ملتان میں پوپھٹنے کے وقت وہاں کے درویش اور بزرگ درختوں کی کرم گستری،صداقت گیر جذبوں سے لبریز تازہ شاخساروں کارقص ہوا۔خوشنما اور فطرت آشنا پرندوں کی تحمید اور تسبیح کی دل آویز صداﺅں اورمریم کے کردار کی طرح شفاف شبنم میں نہائے ہوئے پھولوں کاکلام میرے لیے وجہ کشش ہے۔گارڈن میں مری دلچسپی اورکشش کی دوسری وجہ رانا محبوب اختر کی دل کوچھونے والی مانوس صدائے عارفانہ بھی ہے ۔وہ واک کے دوران جب بھی ملے ۔اردو ،فارسی اور انگریزی کے دوچارشعر جذب ومستی کی حالت میں ضرور سنائے۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ پورے گارڈن میں مرے دل حسن آشنا کے لیے ایک ہی آواز محرم درددل کے طورپر سنائی دیتی ہے۔
آتی ہے غزل بن کے محبت کے سروں میں
صحرا ہے سماعت مری،آہو تری آواز
سمٹی ہیں تری ذات میں موسم کی ادائیں
گلریز ترا لہجہ ہے،خوشبو تری آواز
”لوک بیانیہ اور سیاست“ محبوب اختر کے ان کالموں کامجموعہ ہے جو اردگرد پھیلے سیاسی،سماجی اور معاشی ونفسیاتی مسائل کے موضوعات پر لکھے گئے ہیں۔محبوب اختر گلوب پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے بلاتمیز ،رنگ ونسل اوربلاامتیاز،زبان ومذہب ،معدے کی آسودگی کامساوی موقع فراہم کرنے کا پرچارک ہے۔اس کے کالموں میں عظمت آدم اوراحترام انسانیت کی لوجگمگاتی ہے۔وہ مشقت کے پسینے اورمزد کے سکوں کی قدر میں اس میزان کاقائل ہے جس کی طرف الٰہیاتی روشنی اشارہ نمائی کرتی ہے۔
”واقیمو الوزن باالقسط و لاتخسرالمیزان“
مصوری کے مروجہ اور نسبتاً جدید اسالیب میں ایک اسلوب ”موزیک“بھی ہے جس میں مختلف ہیئتوں اور رنگوں کے اجزاءسے ایک ”کل“تخلیق کیاجاتا ہے جو بے معنویت کو معنی اور لا کو الا بنادیتا ہے۔جدید مصوری میں یہ اسلوب جتنا مشکل سمجھا جاتا ہے اتنا ہی مقبول اورتخلیقی بھی ہے۔محبوب اختر کی تحریر پڑھ کر مجھے ان کے ہاں یہی اسلوب محسوس ہوا ۔ہرٹکڑے میں (Wisdom)کی پھوارپھوٹتی ہے اوران کو (Co-Relate)کرکے ایک بامعنی یکتائی تخلیق کی گئی ہے۔مجھے محمودکوٹ کے آموں کی مٹھاس اورخوشبو کاتوتجربہ نہیں لیکن میں سید اکبرحسین شاہ کی تعلیمی خدمات،مظہر گیلانی کے سیاسی و سماجی شعور اور رانا محبوب اختر کے وسیع مطالعہ اور اسلوب تحریر کا معترف ہوں۔
سوچ ہوتی ہے محترم انور
آدمی محترم نہیں ہوتے