پرانے پاکستان میں جو کچھ ہوتا رہا وہ ایک تاریک تاریخ ہے۔رہبر رہزن رہے ، محافظ چور ہوئے اور وطن عزیز کے لئے ”قرض اتارو ملک سنوارو“ جیسے ڈرامے بھی رچائے گئے۔ ”سب سے پہلے پاکستان“کا نعرہ تو ابھی کل کی بات ہے ۔پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے جتنے بھی منصوبے بنے اور جب جب بنے ان کا مقصد صرف عام آدمی کی جیب پر ڈاکہ ڈالنا تھا نتیجتاً غریب غریب تر اور امیر امیر ترین ہوتے گئے۔
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہ مذہب ، کبھی بنام وطن
اب نئے پاکستان کے ساتھ ہی پرانے پاپیوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں وہ جو آمدنی سے زیادہ اثاثوں کے مالک بنے اور وہ بھی جو ریاست کے اختیارات مقتدر اعلیٰ بن کر استعمال کرتے رہے سب فرار چاہتے ہیں اس احتساب سے جس کا ابھی صرف اعلان ہوا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے منصب سنبھالتے ہی وہ تقریر کرڈالی جو ہر شہری کے دل کی آواز تھی۔ نہ جانے کیوں یہ سارا بیانیہ اپنا اپنا سا لگا۔ مدینے جیسی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان ایک بہت بڑا اعلان ہے وہ ریاست جس میں شرابیوں ، زانیوں، مشرکوں اور قاتلوں کو سدھرنے کا موقع دیا گیا اور پھر وہ ایسے سدھرے کہ سرکاردوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت نے انہیں عالی مرتبت کردیا ۔ وہ جنہیں طلوع اسلام کے فوری بعد شراب نوشی سے نہ روکا گیاوہ خود مشروب بے خود سے نفرت کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ پاکیزگی ان کے وجود کا حصہ بنتی چلی گئی
پرانے پاکستان کے پرانے پاپی مدینے جیسی ریاست کا اعلان ہوتے ہی گناہوں سے توبہ کا موقع چاہتے ہیں۔ مدینے کی وہی ریاست جس کی بنیاد نبی پاک ﷺنے رکھی اسی فا رمولہ کو نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں فالو کیا ۔ بےنظیر بھٹو نے چارٹر آف ڈیمو کریسی میں Truth & Reconciliationکو منشور بنایا، ٹیکس چوروں ، رشوت خوروں، لٹیروں ، اختیارات کے تجاوزات کے ماہروں ، عارضی اقتدار کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھنے والے بیورو کریٹوں، محکمہ انٹی کرپشن ، پولیس ، ایف آئی اے، کسٹم اور محکمہ صحت جیسے اداروں کو منفعت کے لئے استعمال کرنے والوں ،تعلیم اور میڈیکل کے شعبوں کو کاروبار بنانے والوں کو اگر کسی فارمولے کے تحت معافی دی جائے تو وہ اپنے ناجائز اثاثوں کا نصف حصہ ”ایمانداری“ سے بحق سرکار جمع کروا کر راہ راست پر آسکتے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان اگر Truth & Reconciliationلاگو کرتے ہیں تو قومی خزانے میں وہ رقم بھی جمع ہوسکتی ہے جو کرپٹ اشرافیہ نے اپنی آئندہ نسلوں کے ایڈوانس مستقبل کے لئے کہیں پاتالوں میں چھپا رکھی ہے۔ بیرون ملک پڑی ہوئی دولت اسی اصول کے تحت واپس لا کر گردش میں لائی جاسکتی ہے جس سے دونوں فریقین مفاد میں رہیں گے۔ ایک طرف لوٹی ہوئی دولت کا کچھ حصہ خزانہ سرکار میں جمع کرواکر” پیشہ ور لٹیرے “اپنے ضمیر کی لعن طعن سے محفوظ ہوجائیں گے اور دوسری طرف وطن عزیز کو اس کی ”مسروقہ جائیداد“ بھی واپس مل جائے گی۔
عمران خان کے اقتدا ر میں آتے ہی قوم میں جو اعتماد کا بحران پیدا ہوچکا تھا وہ کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ نئی حکومت کو کئی معاشی و داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے وہیں اسے جمہوری نظام کو مستحکم کرنے اور جمہوری اقدار کو سربلند رہنے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ تنقید برائے تنقید کے بجائے اگر نئی حکومت کو کھل کر کام کرنے دیا جائے تو عمران خان کی سب خوبیاں خامیاں عوام کے سامنے ہوں گی۔ مستقل مخالفت عمران خان کے ان عیبوں پر بھی پردے کا کام دے گی جو اس کی اپنی حکومت کے لئے خطر ہ ہوسکتے ہیں۔ پہلی تقریر میں ہی وا ہ واہ کی داد سمیٹنے والا عمران خان عوام کی توقعات کے نصف تک بھی پورا اتر سکا تو کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بشرطیکہ وہ ”محلاتی سازشوں“ کا شکار نہ ہوجائے وہ سازشیں جو فوزیہ قصوری ، حامد خان ،جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین جیسے نظریاتی ورکروں کو خان صاحب سے دور کرتی گئیں ۔جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا اور تعلیم و صحت کو عام آدمی کے لئے عام کرنا نئے پاکستان میں بڑا کام ہوسکتا ہے ورنہ اعلانات ، دعوے اور ڈینگیں تو سیاست دانوں کی تقریروں کا حصہ رہے ہیں ۔ عمران خان کو اس بات کا بھی ادراک ہونا ضروری ہے کہ اس کے ووٹر کسی ”لاحاصل عشق“کے مارے نہیں بلکہ جدید دور کے نوجوان ہیں جو پہلی”آزمائشی نمائش“ کے شوق میں ووٹ دے گئے مگر آئندہ وہ ووٹ صرف کام کی بنیاد پر دیں گے اور یہ بھی یادرکھنا ضروری ہے کہ عوام میں کام کی بنیاد پر مقبول ہونے والے لیڈر کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا رہا ہے ؟ اک نئے رخ سے بنیاد سفر رکھتے ہوئے ہماری تمنائیں نئے پاکستان کے لئے نیک ہیں۔تخت یا تختہ کے اس کھیل میں فی الحال وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو تخت مبارک ہو۔
فیس بک کمینٹ