اب خدارا پھر ماضی قریب کی تاریخ کو نہ دہرایا جائے اورنئی حکومت کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔وزراءکے ذاتی” اعمال“کو حکومت کی نااہلی نہ سمجھا جائے۔ذہن کو 60فیصد تک مثبت رکھ کر حکومت کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ اگر عمران خان کو بلا خوف تنقید کام کرنے دیاگیا تودوباتیں واضح ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ قوم مایوسی سے نکل کر امید اور زندگی کی طرف لوٹ آئے گی۔یاپھر عمران خان کو میدان سیاست میں اتارنے والے اور تخت پر بٹھانے والے سیاسی قومہ میں چلے جائیں گے۔حکومت کے پہلے 100دن نہیں بلکہ پہلے دوسال کوئی دھرنا ، لانگ مارچ ،ٹرین مارچ اور نافرمانی کی ملک دشمن تحریک نہیں چلنی چاہیے۔ایسا اعلان بھی صرف عمران خان کو زیب دیتا ہے کہ قوم بجلی کے بل ادا نہ کرے۔ اب اگر اپوزیشن نے بھی ایسا کیا تو غداری کے مقدمے کی سزا موت ہی ہوا کرتی ہے۔اپوزیشن کی طرف سے عمران خان کے لیے مشکلات پھر سے سیاسی نظام کے لیے آسیب بن سکتی ہیں۔اور اگر عمران نے حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن والا کنٹینر سنبھال لیا تو اسے ہیرو بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔کیونکہ عمران کے ”مریدین“ بھی تو شعورکی بلندی کی آخری سطح پر براجمان ہیں۔ عمران خان کا نیا پاکستان بھی انقلاب کے طورپر سوچا اور سمجھا جارہاہے۔بالکل ایسے ہی جیسے وطن عزیز میں 1968ءتک 27اکتوبر کو ”یوم انقلاب“ کے طورپر منایا جاتاتھا اور ملک بھر میں اس روز تعطیل ہوا کرتی تھی۔ اخبارات ”قائد ا نقلاب“ صدرپاکستان فیلڈمارشل ایوب خان کی رنگین تصویر و الے ایڈیشن شائع کرتے تھے جن میں درباری قلم کار ایوب کے عیوب پر پردہ ڈالتے تھے اور لکھا کرتے تھے کہ انقلابی حکومت کی دوررس اصلاحات کے باعث ملک ترقی ،استحکام اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے اور ہر طرف چین ہی چین ہے۔پاکستانی قوم دس سال تک ”یوم انقلاب“ مناتی رہی مگر اس کا حقیقی مفہوم لوگوں کے ذہنوں میں یہ تھا کہ پرانے حکمرانوں کو گریبان سے پکڑ کر اقتدار سے نکال دیا جائے اور ایک نیا حکمران خو د کو نجات دہندہ کہہ کر ملک وقوم پر مسلط ہوجائے تو یہ عمل ”انقلاب “ کہلاتا ہے۔ سیدھی سادھی سادہ لو ح قوم کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ وہ جسے اب تک انقلاب سمجھتی تھی وہ تو دراصل اقتدار کی کرسی کا کھیل ہے۔ میرے عزیز ہم وطنو کی صدا سے جعلی ریفرنڈم تک بھی انقلاب سمجھا جاتارہا۔مگر کوئی انقلاب عوام کی زندگیوں میں ذراسی بھی تبدیلی نہ لاسکا۔ہر نئے انقلاب کے بعد پرانے معزول ”انقلابی “ کو جیل میں ڈالاگیا یا پھر موت کے گھاٹ اتار کر اس کو حقیقی انقلاب کا مفہوم سمجھا دیاگیا۔اپنے دور حکومت میں ناقص کارکردگی دکھانے والے جب دوبارہ عوام کے دربار میں جمہوری کشکول لے کر حاضر ہو ئے تو ان کے پاس خود کو معصوم و مظلوم ظاہر کرنے کا ایک نعرہ تھا کہ ”ہمیں کچھ کرنے ہی نہیں دیاگیا“۔اپوزیشن کے تمام دھڑے اگر واقعی ملک و قوم سے مخلص ہیں تو عمران خان کو ”کچھ کرنے“ کا موقع دیں ۔اگر وہ کچھ کرگیا یا پھر اپنے اعلانات کا نصف بھی کر گزرا تو حب وطن کی خاطر آپ اسے اپنا گرو مان لینا اور اگر وہ مکمل اختیارات کے باوجود کچھ بھی نہ کرسکا تو آپ کی واہ واہ ہو جائے گی۔ دونوں صورتوں میں اپوزیشن اتحاد اور ملک کا مفاد وابستہ ہے۔ اس تجویز کے برعکس عمران کو مظلوم اور معصوم بنا کر تاریخ کا حصہ بنانا ہے تو پھروہ بھی گناہ گاروں کی اس فہرست میں شامل ہوجائے گا جس کی پہلی سطروں میں گھسے پٹے لیڈروں کے نام ہیں۔اگر سابقہ حکومتوں کے ناکام وزیروں اور مشیروں کی ٹیم کے ساتھ عمران قوم کو کچھ دے جاتا ہے تولسانیت کو ہوا دینے والی ایم کیو ایم ،پنجاب کارڈ کی کھلاڑی ن لیگ ،بھٹو زندہ ہے کی گردان الاپنے والی پیپلزپارٹی ، مذہب کے نام پر قوم کو تقسیم کرنے والی متحدہ مجلس عمل اور پاکستان کے نام پر سیاسی جنگ چلانے والی ساری اکائیاں اپنی موت آپ مر جائیں گی مگر شرط صرف یہ ہے کہ عمران کو کچھ کرنے کاوقت دیا جائے تاکہ وہ مستقبل میں اپنی ناکامی ” مجھے کچھ کرنے نہیں دیا“ کے کھاتے میں نہ ڈال سکے۔
فیس بک کمینٹ