بیگم سیدہ عابدہ حسین سابق امریکی سفیر اور سینئر سیاستدان ہیں وہ سفارتی امور کی ماہر تجزیہ کار بھی ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ اب امریکا سے برابری کی سطح کے تعلقات کی ضرورت ہے کیونکہ امریکا کی بے جا محبت اور غیر سفارتی قسم کے احکامات پاکستان کو بہت سارے متحرک اور دوست ممالک سے دور کرتے جارہے ہیں۔ سیدہ عابدہ حسین نے کہا کہ امریکا نے اب تک صرف ہمیں ’’استعمال‘‘ کیا ہے ، زیادہ لیا ہے اور بہت ہی کم دیا ہے ۔ روس اور چین جغرافیائی لحاظ سے ہمارے مدد گار اور معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔ بالکل یہی بات سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کی کہ امریکا ہمارے ساتھ کبھی مخلص نہیں ہوسکتا ۔ رضا ربانی نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو مشورہ بھی دیا کہ پاکستانی وزیر اعظم کو امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد کے موقع پر ان سے ملاقات بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ وزیر اعظم کے پروٹوکول کے برعکس ہوگا۔ یہ دونوں رہنما جو امریکہ سے برابر ی کے تعلقات کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں مگر یہ صرف ان کی ایک تمنا لاحاصل ہے کیونکہ امریکی وزیر خارجہ کا مجوزہ دور ہ پاکستان اب تک ہمارے قومی اداروں کا بہت سا وقت اور توانائی خرچ کروا چکا ہے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا موقف بھی واضح ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات تقریباً معطل ہیں اور ہم عزت ووقار کے ساتھ ان کی بحالی چاہتے ہیں ۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنے وسائل سے رقم خرچ کی وہ امریکا نے واپس کرنا تھی ، یہ امداد نہیں کولیشن سپورٹ فنڈ ہے ۔ امریکا نے30کروڑ ڈالر کی ادائیگی منسوخ کرکے بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ وہ پیسہ تھا ہی پاکستان کا جو امریکا نے ادا کرنا تھا ۔ امریکی ہم منصب پومپیو کی پاکستان آمد اب معمول کا دور ہ ہوگی۔ سیدہ عابدہ حسین، رضا ربانی اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی ایک ہی سیاسی اور سفارتی صفحہ پر نظر آتے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان اپنی مسلسل ملاقاتوں کو آف دی ریکارڈ کہہ کر کچھ اور کہانی سنارہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے کی طویل ملاقات دراصل امریکی وزیر خارجہ کے دورے کی تیاریوں اور منصوبہ بندی کے ضمن میں تھی۔ امریکا نے جس طرح ہمیں دھتکارا اور ہماری قربانیوں کو تسلیم نہ کرتے ہوئے طلاق یافتہ عورتوں کی طرح طعنہ زنی کی وہ ہماری غیرت کیخلاف ہے ۔ ہمارے حکمرانوں نے ماضی میں اپنے ’’جواہر‘‘ پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیے اور پیشہ ور قاتل ریمنڈ ڈیوس کو باعزت رخصت کیا ۔ میڈیا اور عوام کی تنقید برداشت کرتے ہوئے امریکا سرکار کو خوش رکھا مگر جواباً صرف مایوسی میں ڈوبے یہ جملے سننے کو ملے کہ ’’امداد اس لیے بند کی گئی کہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوئی‘‘ پینٹا گون کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل کونی فاکنزنے کہا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے خلاف آپریشن کرے ۔ امریکا کی جانب سے پاکستان کے لئے روکی جانے والی اب تک کی امداد میں کٹوتی کی مجموعی مالیت 800ملین ڈالرز ہوگئی ہے۔ امریکا کی طرف سے روا رکھا جانے والا یہ رویہ یک طرفہ محبت کی داستان ہے جس میں قربانیاں دینا صرف ایک فریق کا کام ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان سے صرف ایک گزارش ہے کہ امریکی مہمان کو صرف مہمان سمجھا جائے بالکل ایسے ہی جیسے وہ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ حق میزبانی ادا کرتے ہیں ۔ جمہوری حکومت میں غیر جمہوری طاقتوں سے مشورہ لیا جائے مگر عمل اس تجربے پر کیا جائے جو شاہ محمود ، رضا ربانی اور عابدہ حسین کے پاس ہے ۔ ہم یک طرفہ محبت میں روس اور چین سے سرد جنگ نہیں چھیڑ سکتے اور اس سرد جنگ کے بدلے میں ہمیں امریکا سے کوئی گرمجوشی بھی نہیں ملنے والی۔ نئے پاکستان میں ہمیں ایک ’’ملک ‘‘ نظر آنا چاہیے اور ملک کی ایک قوم اور غیرت بھی ہوتی ہے۔ ماضی میں امریکا کا آلہ کار بن کر ہم نے لاشوں کے سوا کچھ نہیں اٹھایا ۔ اگر وزیر اعظم عمران خان امریکی مہمان کو اس کے ہم منصب شاہ محمود کے ’’رحم وکرم‘‘ پر چھوڑ کر خو د عزت ووقار کے ساتھ لاتعلق رہتے ہیں تو قوم اپنے ہیرو کو سیلوٹ کرے گی ورنہ امریکی تعلقات کی یک طرفہ بھینٹ چڑھنا تو ہم نے سیکھ رکھا ہے۔
فیس بک کمینٹ