تصویر میں دو بچوں کی جھلسی ہوئی نعشیں سٹریچر پر پڑی ہیں ،ایک جلی ہوئی ویگن ہے اور کچھ زخمی پھول شدت درد سے نڈھال ہیں اور ان کے ساتھ جلے ہوئے بستے والدین کے خوابوں کا نوحہ سنا رہے ہیں۔ اس نوحہ میں ہمارے قومی مزاج اور سرکاری بے حسی کے بین بھی شامل ہیں۔ چوک قریشی ، مظفر گڑھ ڈیرہ غازیخان روڈ پر واقع ایک آباد اڈہ ہے جہاں پر والدین اپنے معصوم بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے ایک پرائیویٹ سکول میں بھیجتے ہیں ۔ ان والدین نے بچوں کے لئے ایک ویگن کا بندوبست کر رکھا تھا تاکہ ان کا سفر آسان اور محفوظ ہو۔ صبح تیار ہو کر ماں کے بوسے کے ساتھ گھر چھوڑنے والے یہ بچے 27ستمبر کو آخری بار گھر سے نکلے تھے ۔ سکول سے چھٹی اور پھر ویگن میں سوار ہونے تک ان بچوں ، بستوں اور کتابوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کے خواب بھی سلامت تھے۔ویگن میں لگے سلنڈر سے گیس لیک ہو رہی تھی اور نہ جانے کب سے ہو رہی تھی مگر ڈرائیور بے خبر تھا کیونکہ اسے اپنے کرایہ سے غرض ہے۔ یہ بچے اس کے نزدیک صرف ”سواریاں“تھیں ۔ ڈرائیور نے بچوں کو بٹھاتے ہی سگریٹ سلگائی تو پھر وہاں آگ ہی آگ تھی ۔ بھنے ہوئے گوشت کی بو تھی اور معصوم بچوں کی چیخیں تھیں۔ 6سالہ زین آگ میں جھلسنے والا سب سے کم عمر پھول تھا اور اسے سکول سے گھر جانے کی اس لئے بھی جلدی تھی کہ اس عمر کے بچے ماں سے دوری کے چند گھنٹے بھی سال کی طرح گزارتے ہیں۔ 12سالہ فخر حماد کی لاش بھی تو کوئلہ بن چکی تھی۔ ویگن میں سوار سکول ٹیچر تو بحفاظت نکل آئے مگر چھوٹے بچوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ حادثہ کے وقت باہر نکلنا ہے یا گاڑی کے اندر چھپ کر جان بچانی ہے۔ ریسکیو ٹیموں کے جائے حادثہ پر پہنچنے تک ز ین اور فخر حماد آگ کے رحم و کرم پر رہے ۔ شعلوں کے ٹھنڈے ہونے کے بعد ان بچوں کو بھنی ہوئی بوٹیوں کی شکل میں نکالا گیا ۔ عافیہ ، زرینہ ، روبینہ، عبیرہ اور فاطمہ وہ کم سن بچیاں تھیں جو معمولی زخمی ہوئیں مگر عزیر ، طلحہ ، شین ، زینب اور عبداللہ کے جسم پچاس فیصد تک جھلس چکے تھے۔ اس واقعہ کے بعد پولیس کارروائیوں میں کچھ تیزی آئی مگر تب تک سکول انتظامیہ اور ویگن ڈرائیور فرار ہو چکے تھے۔ ہر سانحہ کے کی طرح اب بھی مقدمہ ہوگا ، پولیس قتل کی واردات کو حادثہ کہہ کر چالان عدالتوں میں جمع کروائے گی ۔ ملزموں کی ضمانتیں ہونگی اور کسی نئے حادثے تک یہ نظام بے حسی کی پٹری پر یونہی چلتا رہے گا۔ ویگن مالک انشورنس کمپنی سے اپنے نقصان کا کلیم لے گا ۔ ڈرائیور کسی اور جگہ نوکری کرکے سگریٹ انجوائے کرے گا۔ سب کا نقصان پورا ہو جائیگا۔ مگر جن ماﺅں کی گودیں اجڑی ہیں ان کو ہر سانس کے ساتھ بھنے ہوئے گوشت کی بو بے چین رکھے گی۔ ہمارے قاتل نظام کے ہاتھوں قتل ہونے والے بچوں کے جلے ہوئے بستے ایک مدت تک سکول کے دوسرے بچوں کو کتابوں سے دور رکھیں گے۔
متعدد بار سی این جی سلنڈروں کو چیک کرنے مہم شروع ہوئی مگر گاڑی مالکان کی طرف سے اہلکاروں کی مٹھی گرم ہونے کے بعد دم توڑ گئی۔ پانچ سال تک چلنے والے یہ سلنڈر 15سال کے بعد بھی سب اچھا کی رپورٹ کے ساتھ گاڑیوں میں چل رہے ہیں ۔ چند روپے منافع کے لالچ میں انسانی جانوں سے کھیلنے والے یہ رشوت خور درندے شہری حدود میں ایل پی جی کی د کانیں بند نہیں کروا سکتے۔ آپریشن سے پہلے یہ مخبر گیس فروشوں کو اطلاع کر دیتے ہیں اور وہ ہربار بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ملتان شہر میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 18حادثات ہوئے ہیں۔ گیس سلنڈر پھٹے مگر دھندہ بند نہ ہو سکا۔ ہم آگ سے جھلسنے والے 10بچوں کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں اور چھ سالہ زین اور بارہ سالہ فخر حماد سے شرمندہ ، کہ بے حس لوگوں کے ہجوم میں ایسے واقعات کا رو نما ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں مگر تم دونوں ہماری بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے تمہارا قتل ہمارے سر ہے ہم پیشہ ور قاتل صرف تمہارے نہیں تمہارے والدین کے خوابوں کے بھی قاتل ہیں۔
فیس بک کمینٹ