ہم سب تجاوزات کی وراثت کے زندہ وارث ہیں اپنے اجداد کی چھوڑی ہوئی اس وراثت کو حلالی بچوں کی طرح نہ صرف ہم نے سنبھالا ہے بلکہ سیاسی و معاشی ضروریات کے مطابق ان میں اضافہ بھی کیا ہے ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے حقوق ، املاک ، اختیارات اور اخلاقیات سے تجاوز کرنا ہماری پہچان ہے۔ ہم سب منشا بم میں جن کی سرپرستی کے لئے کوئی نہ کوئی فول پروف چھت موجودرہتی ہے ۔ فٹ پاتھوں ، قبرستانوں ،جناز گاہوں ، سرکاری اراضیوں ، لاوارثوں کے پلاٹوں اور محکمہ اوقاف کی دکانوں پر قبضوں سے بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ محکمہ ریونیو کے لینڈ ریکارڈ کے کلرکوں ، پٹواریوں اور تحصیلداروں کی من مرضیوں سے چھوٹے موٹے قبضہ گروپ اب اتنے بڑے بلڈر بن چکے ہیں کہ انہوں نے اپنا نام بھی رئیل اسٹیٹ ماسٹر رکھ لیا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو سول عدالتوں میں چلنے والے دیوانی مقدمات کا ایک نظر جائزہ ہی کافی ہے۔ جہاں ایک ہی پراپرٹی کے پانچ پانچ مالک موجود ہیں اور ہر دعویدار کے پاس حقوق ملکیت کی مصدقہ نقول بھی موجود ہیں۔ ان نقول کی ریکارڈ سے تصدیق ناممکن ہے کیونکہ بھاری رشوت کے عوض ملکیتی کاغذات جاری کرنے والے گروہ نے ہر شہر کے ریو نیو ریکارڈ کو الماریوں سمیت جلا ڈالا ہے۔ سابقہ ڈی سی او ملتان نسیم صادق نے جب قبضہ مافیا اور تجاوزات کے خلا ف آپریشن شروع کیا تو کیسے کیسے شریف شہریوں کے نام سامنے آئے ۔ نسیم صادق نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ملتان پنجاب کا واحد شہرہے جس کی سڑکیں بھی بیچ دی گئی ہیں ۔ گھنٹہ گھر ملتان قیام پاکستان کے وقت8سڑکوں کامحور تھا مگر اب وہاں صرف ایک گزرگاہ ہے۔ کسی کی جرات ہے کہ وہ ان سڑکوں کو منشا بموں سے واگزار کروائے۔ ابدالی روڈ ملتان کے ایک ہوٹل نے دن دہاڑے فٹ پاتھ کو پختہ دیوار کی مدد سے اپنا حصہ بنا لیا ہے ۔ انتظامیہ کسی منشا بم کی وجہ سے خاموش رہی۔ ایم ڈی اے چوک ملتان سے ملحقہ ایکسائز دفاتر کی مسجد سے لیکر لودھی کالونی روڈ پر قائم ٹیوب ورکشاپ تک قیمتی اراضی جو ایکڑوں میں بنتی ہے جب کسی سرپھرے کی رٹ پٹیشن کا موضوع بنی اور عدالت عالیہ ملتان بنچ نے محکمہ انہار سے رپورٹ طلب کی ، محکمہ انہار اپنی اس اربوں روپے کی پراپرٹی سے لا علم تھا ۔ انکوائریاں ہوئیں تو محکمہ کے پاس اپنی ہی پراپرٹی کے کاغذات نہ تھے ۔ عدالت نے پھر وقت دیا تو محکمہ انہار پنجاب لاہور کے افسران نے رپورٹ پیش کی کہ یہ پراپرٹی محکمہ انہار کے ذیلی محکمے ریور سروے ڈویژن لاہور کی ملکیت ہے۔ افسران نے پٹیشنر سے بیرون عدالت گزارش کی کہ آپ عدالت سے رٹ واپس لے لیں اور ریور سروے کالونی کی یہ سرکاری اراضی رکھ لیں۔ ہمیں ان مقدمات سے بچائیں ۔ محکمہ انہار کے افسران کی لا علمی اور بے بسی منشا بموں کے لئے آکسیجن کا کام کر گئی او ر انہوں نے ان دو کوٹھیوں سے ملحقہ پلاٹوں پر قبضے کر لیے ۔ مہربان کالونی کے رہائشیوں نے سرکاری املاک کو اپنے باپ دادا کی وراثت سمجھتے ہوئے گھروں کی پشت سے دروازے نکال لیے اور اب ان دروازوں پر ما شا اللہ کے بورڈ لگے نظر آتے ہیں۔بیوٹی پارلرز اور ٹیوشن اکیڈمیاں بن گئی ہیں۔ دس مرلہ کے گھر کا مالک بیٹھے بٹھائے ایک کنال پر قابض ہو گیا۔ مہر بان کالونی کے مکین لودھی کالونی روڈ کے رہائشی بن گئے۔ کیونکہ بزرگوں کی وراثت بھلا کو ن چھوڑتا ہے۔اب چیف جسٹس پاکستان کے احکامات کی چھتری تلے ضلعی افسران کو من مرضی کے سودے کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ڈیرے کے سامنے بنے ہوئے تھڑے کو توڑ کر نئے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے نعرے تو لگوائے گئے مگر شائد کم لوگ جانتے ہیں کہ اس ایک تھڑے کو گرا کر کتنے تھڑوں کو بچایا گیا ہے۔ ہر شہر کے اپنے منشا بم ہیں۔ ان بموں کے پھٹنے سے پردہ نشینوں کے چہرے بے نقاب ہونے کا خدشہ بدستور موجود ہے۔
( نوٹ :کالم نگار شاید سہواً یہ لکھنا بھول گئے کہ ملتان پریس کلب کی دیوار بھی فٹ پاتھ پر ہی تعمیر کی گئی ہے ۔۔ مدیر گرد و پیش )
فیس بک کمینٹ