نبیوں کے نبی ، وجہ تخلیق کائنات ، ہماری بخشش اور مغفرت کا ذریعہ حضرت محمد ﷺ کی رحمت کے صدقے بے قراروں کو قرار ، بے گناہوں کو رہائی ، لاوارثوں کو تحفظ اور بے آسروں کو سہارا ہمیشہ سے ملتا آیا اور اب تک جھولی پھیلانے والوں کی جھولی کبھی خالی نہیں پلٹتی ۔ اپنے دشمنوں کےلئے عام معافی کا اعلان ، دوسرے مذاہب کے ساتھ برابر ی کے مذاکرات ، بے گناہ کفار کے قتل کی ممانعت ، آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی زندگی کا خاصا تھا ۔ حضرت علیؑ نے تو منہ پر تھوکنے والے کو صرف اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ اب ان کا ذاتی غصہ بھی اس دشمنی میں شامل ہوچکا اور لڑائی صرف اللہ کےلئے تھی ۔ پھریہ کیا ہے کہ ہم جس سے نہ لڑسکتے ہوں اسے معاشرتی حقارت کی بھینٹ چڑھانے کےلئے یا موت کے پھندے تک لے جانے کیلئے اس پر توہین مذہب، توہین صحابہ، توہین اہلبیت یا پھر توہین رسالت کا الزام لگاتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتے ۔ ملزم اپنے اوپر لگنے والے الزام کو الزام ثابت کرتے کرتے اپنے خاندان سمیت تباہ ہوجاتا ہے ۔ ایسے مقدمات میں قریبی رشتہ دار بھی اپنی عافیت کےلئے دامن بچاتے نظر آتے ہیں۔ عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں ۔ ان کے والدین ، بچے اور دیگر رشتہ دار اسی سوسائٹی میں سانس لیتے ہیں اگر وہ الزام ثابت نہ ہونے پر ملزم کو بری کردیں تو پھر ہم ان ہستیوں کے نام پر ملزم پر زمین تنگ کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کے قاضی اور قاضی کے رشتہ دار وں سے سانس لینے کا حق بھی چھینتے دیر نہیں لگاتے ، جن ہستیوں نے اپنے اوپر کوڑا کرکٹ اور غلاظت پھینکنے والی بڑھیا کی عیادت کو معمول بنالیا تھا اسی دباﺅ کے سبب جہاں ایک طبقے کیلئے عدالتی فیصلے مذاق بنتے ہیں وہاں مقدس ہستیوں کے نام پر ذاتی مخالفت میں دشمنوں کو نشان عبرت بنانے والے مزید حوصلہ پکڑتے ہیں حالانکہ کسی پر توہین کا غلط الزام لگانے والا دراصل خود توہین اور گستاخی کا مرتکب ہورہا ہوتا ہے۔
ملزم کو صفائی کا حق اور شفاف موقع رسالت مآب حضرت محمد ﷺ کے دور میں بھی دیا گیا تھا اور سزا کیلئے معتبر شہادتوں اور ان پر جرح کا حق بھی شریعت کا تفویض کردہ ہے ۔ آسیہ مسیح کے کیس میں بھی کچھ ایسا ہوا کہ وہ اپنی صفائیاں پیش کرتی رہی کہ اس نے رسالت مآب سرکار دوعالم حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی نہیں کی مگر ہم کسی بدنصیب لمحے میں اس کی بات تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھے ہم نے دو جانیں لے لیں اور” بے شک ایک انسان کا قتل پوری نسلِ انسانی کا قتل ہے “۔ آسیہ اقلیتی ہے اور پھر عورت بھی ، اس نے ایک مسلمان ملک میں اپنا مقدمہ لڑا بھی ہے اور جیل بھی کاٹی ہے پھر سب سے بڑی عدالت کے تین جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں اسے بری کردیا تو ہمیں شکرِ رب تعالیٰ ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی ثابت نہیں ہوئی مگر ہم پھر بھی احتجاج کررہے ہیں ۔ ہمارا مذہب اسلام جو امن و سلامتی کا مذہب ہے کسی بے گناہ کی جان لینے کو گناہ عظیم گردانتا ہے اور آسیہ کے کیس میں تو صرف جذبات کی کہانی ہے ۔ پورا استغاثہ کمزور تھا ، موقع کے گواہ بھی نہ تھے اور جب گواہوں پر جرح ہوئی تو بے چارے سوالوں کے جواب ہی نہ دے سکے۔ کسی بے گناہ ملزم کو مجر م ثابت نہ ہونے کے باوجود کیسے پھانسی پر لٹکایا جاسکتا ہے؟ اور امن و سلامتی والے دین کے پیروکار تو بالکل ایسے کسی قدم کی پشت پناہی نہیں کرینگے ۔مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی آسیہ نورین پنجاب کے ضلع ننکانہ کے ایک گاﺅں اٹاں والی کی رہائشی تھی ۔ 2009ءمیں اسی گاﺅں میں فالسے کے ایک باغ میں ملزمہ کا جھگڑا چند عورتوں سے ہوا جنہوں نے ملزمہ پر توہین رسالت کا الزام لگادیا ۔ ملزمہ کو مشتعل ہجوم نے پکڑا اور پولیس کے حوالے کردیا ۔ ایف آئی آر ہوئی اور اسے شیخوپورہ جیل اور پھر ملتان جیل منتقل کردیا گیا۔ جون2009ءمیں ہونے والے اس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام قاری محمد سالم تھے ۔ملزمہ نے اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران کبھی توہین رسالت کرنا تسلیم نہ کیا مگر پولیس کے جوانوں نے معاشرتی دباﺅ کے باعث اسے گناہگار قرار دے دیا۔ ٹرائل کورٹ میں ایف آئی آر کے گواہ استغاثہ ثابت نہ کرسکے مگر پھر بھی اسے سزائے موت سنائی گئی ۔ہائی کورٹ لا ہور نے سزا برقرار رکھی مگر ملزمہ کی اپیل پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور دو سینئر جج صاحبان نے کیس کا ازسر نو جائزہ لیا ۔ ٹرائل کے مختلف مراحل دوبارہ دیکھے اور پھر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے کمزور استغاثہ اور موقع کے گواہ نہ ہونے کی وجہ سے اسے اس جرم سے بری قرار دے دیا۔ عدالتیں ہمیشہ وقوعہ ، گواہیاں اور جرح کو دیکھتے ہوئے سزا یا بریت کا فیصلہ کرتی ہےں اور اس کیس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوامگر رسالت مآب کی شان میں گستاخی ثابت نہ ہونے پر ہمیں شکر ادا کرنے کی بجائے توڑ پھوڑ ، جلاﺅ گھیراﺅ اور انتشار کا راستہ نہیں اپنانا چاہیے اور اگر ہمار معاشرتی رویہ ایسا ہی رہا تو پھر مردان کی یونیورسٹی کے مقتل سے لیکر پروفیسر جنید حفیظ کی قید تک یہ درد کی کہانی کہلائے گی جس کی رگوں میں صرف جذبات ، مفادات اور سیاسی مداخلت کا خون دوڑتا نظر آئے گا۔
فیس بک کمینٹ