ملتان کی سیاسی تاریخ میں مخدوم شاہ محمود قریشی کے مقابلے میں ایک نو وارد ، غیر سیاسی پس منظر کے حامل اور غیر معروف سے نوجوان سلمان نعیم کی جیت بہت بڑا اپ سیٹ تھا جو پہلے پہل تو ناقابل یقین تھا مگر بعد میں جہانگیر ترین کی پذیرائی نے اسے جمہوری مفہوم بھی دے دیا مگر مخدوم شاہ محمود کےلئے یہ سب کچھ ہضم کرنا مشکل تھا جس کا اظہار انہوں نے پارٹی اجلاسوں اور اپنی نجی محفلوں میں بھی وقتاً فوقتاً کیا۔ تحریک انصاف میں مخدوم صاحب کو اپنی حیثیت کا یقین اس وقت بھی ہوگیا جب ان کی شدیدمخالفت کے باوجود جہانگیر ترین انہیں صوبائی وزیر کے برابر عہدہ لے کر دینے میں بھی کامیاب ہوگئے ۔ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی جیسی رکھ رکھاﺅ اور وضعدار روایات کی حامل جماعت میں رہے تھے ۔ پی پی پی میں تو دشمن کے دشمن کو بھی اپنا دشمن سمجھا جاتا اور دوست کے دوست سے بھی وفا نبھائی جاتی تھی مگر تحریک انصاف میں ان کی نائب قیادت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اسی کو شکست فاش سے دوچار کرنے والے بقول انکے ”عطار کے لونڈے“ کو عمران خان تک رسائی دے دی اور وہاں جا بیٹھا جہاں بیٹھنے کےلئے عامر ڈوگر جیسے ”کارکن“ ترستے ہیں۔ سلمان نعیم پر بذریعہ جہانگیر ترین نوازشات جاری رہیں اور مخدوم صاحب کو پیغام دیا جاتا رہا کہ ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں “مخدوم شاہ محمود قریشی کا نام سلمان نعیم کے مبارکبادوں کے پینا فلیکسوں سے غائب دیکھ کر ملتان کے شہری بھی اپنے مخدوم کے زخموں پر نمک چھڑکتے تھے اور ہر صاحب رائے شخص جانتا تھا کہ وزارتِ خارجہ کا منصب پالینے کے باوجود ایک ادھورا پن مخدوم صاحب کے چہرے پر نمایاں تھا کہ سلمان نعیم کی جیت سے ان کا و ہ خواب بے تعبیر ہوا تھا جسے وہ چلتے پھرتے دیکھتے تھے۔
اب ملتان کے صوبائی حلقہ 217میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سلمان نعیم کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نا اہل قرار دے دیا۔ دوہرا شناختی کارڈ رکھنے پر یہ فیصلہ اسی حلقے کے ووٹر شعیب اکمل قریشی اور طاہر حمید قریشی کی درخواست پر کیا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبائی مشیر برائے ٹرانسپورٹ کے عہدے پر براجمان نوجوان کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن واپس لیتے ہوئے مذکورہ حلقہ میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم بھی دیدیا۔
صوبائی حلقہ 217کے عوام بھی جان گئے ہوں گے کہ ووٹ ہی سب کچھ نہیں ہوتے بلکہ ادارے ہی سب کچھ ہوتے ہیں اور وہ ادارے جو مخدوم شاہ محمود قریشی کو من مرضی کے شارٹ کھیلنے کےلئے وکٹ فراہم کرتے ہیں وہ انہیں ”عطار کے لونڈے“ سے دوالینے پر کیسے مجبور ہوتا دیکھ سکتے ہیں ۔ سلمان نعیم اب اعلیٰ عدلیہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف اپیل کرینگے اور شاید کچھ عرصے کےلئے بحال بھی ہوجائیں گے مگر یہ نا اہلی کا داغ جو ان کے ماتھے پر سجا ہے یہ کہیں نہیں جائے گا۔ مخدوم چاہے کسی بھی گدی کا ہو وہ معزز اداروں کا لاڈلا ہوتا ہے اور پھر کون ہے جو اپنے راج دلارے کو پریشان دیکھے۔ اسی حلقے سے مخدوم شاہ محمود قریشی میدان میں اتریں گے اور منتخب بھی ہوجائیں گے پھر وزیراعظم ہاﺅس کے استخارہ سنٹر سے کوئی نیا روحانی پیغام جاری ہوگا جس میں کسی گدی نشین کو وزارت اعلیٰ سونپنے کی ترغیب دی جائے گی یوں اس سارے عمل میں ذمہ داری عمران خان پر آئے گی اور نہ ہی کوئی ادارہ بدنام ہوگا بلکہ روحانی عمل کے پردے میں یہ تبدیلی بھی خوش اسلوبی سے سرانجام پائے گی۔
عثمان بزدار کو سائیڈ لائن کر کے لاہو ر کی بیورو کریسی کو بھی خوش کردیا جائے گا اور مخدوم صاحب کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے بعد پنجاب کے عوام کےلئے نیک شگون ٹھہرے گا کیونکہ روحانی عمل کے بعد سرزد ہونے والے فیصلے بھی عوام کےلئے پریشان کن نہیں ہوتے ۔
ہم ایک بار پھر سلمان نعیم کی افسردگی میں اسے دلاسہ دیتے ہیں اور اسے ”باد مخالف چلنے والی تیز ہوا “ کے مقابلے میں ڈٹے رہنے اور جہانگیر ترین کا دامن تھامنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ حلقے کے عوام کو پھر یاد دلاتے ہیں کہ ووٹ دینے سے پہلے دیکھ لیا کریں کہ جس امیدوار کے لئے و ہ جدو جہد کررہے ہیں وہ کن کا ”خاص آدمی “ ہے ۔ ہماری طرف سے مخدوم شاہ محمود کو جمہوری مبارک باد اور جہانگیر ترین کو ایک اور نااہل کا تحفہ قبول ہو۔ ایک اطلاع ہے کہ سلمان نعیم کے نااہل ہوتے ہی عثمان بزدار نے سامان سمیٹنا شروع کردیا ہے۔
اب ملتان کے صوبائی حلقہ 217میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سلمان نعیم کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نا اہل قرار دے دیا۔ دوہرا شناختی کارڈ رکھنے پر یہ فیصلہ اسی حلقے کے ووٹر شعیب اکمل قریشی اور طاہر حمید قریشی کی درخواست پر کیا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبائی مشیر برائے ٹرانسپورٹ کے عہدے پر براجمان نوجوان کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن واپس لیتے ہوئے مذکورہ حلقہ میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم بھی دیدیا۔
صوبائی حلقہ 217کے عوام بھی جان گئے ہوں گے کہ ووٹ ہی سب کچھ نہیں ہوتے بلکہ ادارے ہی سب کچھ ہوتے ہیں اور وہ ادارے جو مخدوم شاہ محمود قریشی کو من مرضی کے شارٹ کھیلنے کےلئے وکٹ فراہم کرتے ہیں وہ انہیں ”عطار کے لونڈے“ سے دوالینے پر کیسے مجبور ہوتا دیکھ سکتے ہیں ۔ سلمان نعیم اب اعلیٰ عدلیہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف اپیل کرینگے اور شاید کچھ عرصے کےلئے بحال بھی ہوجائیں گے مگر یہ نا اہلی کا داغ جو ان کے ماتھے پر سجا ہے یہ کہیں نہیں جائے گا۔ مخدوم چاہے کسی بھی گدی کا ہو وہ معزز اداروں کا لاڈلا ہوتا ہے اور پھر کون ہے جو اپنے راج دلارے کو پریشان دیکھے۔ اسی حلقے سے مخدوم شاہ محمود قریشی میدان میں اتریں گے اور منتخب بھی ہوجائیں گے پھر وزیراعظم ہاﺅس کے استخارہ سنٹر سے کوئی نیا روحانی پیغام جاری ہوگا جس میں کسی گدی نشین کو وزارت اعلیٰ سونپنے کی ترغیب دی جائے گی یوں اس سارے عمل میں ذمہ داری عمران خان پر آئے گی اور نہ ہی کوئی ادارہ بدنام ہوگا بلکہ روحانی عمل کے پردے میں یہ تبدیلی بھی خوش اسلوبی سے سرانجام پائے گی۔
عثمان بزدار کو سائیڈ لائن کر کے لاہو ر کی بیورو کریسی کو بھی خوش کردیا جائے گا اور مخدوم صاحب کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے بعد پنجاب کے عوام کےلئے نیک شگون ٹھہرے گا کیونکہ روحانی عمل کے بعد سرزد ہونے والے فیصلے بھی عوام کےلئے پریشان کن نہیں ہوتے ۔
ہم ایک بار پھر سلمان نعیم کی افسردگی میں اسے دلاسہ دیتے ہیں اور اسے ”باد مخالف چلنے والی تیز ہوا “ کے مقابلے میں ڈٹے رہنے اور جہانگیر ترین کا دامن تھامنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ حلقے کے عوام کو پھر یاد دلاتے ہیں کہ ووٹ دینے سے پہلے دیکھ لیا کریں کہ جس امیدوار کے لئے و ہ جدو جہد کررہے ہیں وہ کن کا ”خاص آدمی “ ہے ۔ ہماری طرف سے مخدوم شاہ محمود کو جمہوری مبارک باد اور جہانگیر ترین کو ایک اور نااہل کا تحفہ قبول ہو۔ ایک اطلاع ہے کہ سلمان نعیم کے نااہل ہوتے ہی عثمان بزدار نے سامان سمیٹنا شروع کردیا ہے۔
فیس بک کمینٹ