ہر شعبہ زندگی میں پیدا ہونے والا خلا ء اور اخلاقی قحط اپنی شدت ماپنے والے پیمانے بھی بد ل چکا، وہ ادارے جو اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے تھے۔اب وہ اپنے مقاصد کے برعکس نتائج دے رہے ہیں ۔ محکمہ انسدادرشوت ستانی اب رشوت لے کر اپنی تحقیقات کو زنگ آلود کرچکا اور اس ادارے کا یہ کردار کسی سے پوشیدہ بھی نہیں رہا۔ آج کے کالم کا موضوع اسی ادارے کی طرف سے ڈراپ کی گئی ایک انکوائری ہے جو عدالت عالیہ ملتان بنچ کے جج جسٹس سردار نعیم صاحب کے لئے حیرانی کا باعث بنی اور انہوں نے انٹی کرپشن ملتان کے اس غیر قانونی کام پر ،پیش ہونے والے ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل کو یہ کہہ کر عدالت سے نکال دیا کہ آئندہ سماعت پر متعلقہ ڈپٹی ڈائریکٹر تحقیقات کو پیش کیا جائے۔
کبیر والا کے ایک زمیندار نے ڈائریکٹر انٹی کرپشن ملتان کو درخواست دی کہ محکمہ انہار کا عملہ اوپر سے نیچے تک پانی چوری کرانے میں ملوث ہے جس سے ٹیل کے کاشتکار اپنے حق کے پانی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ انٹی کرپشن کا ملوث عملہ موگے توڑ کر لاکھوں کا پانی چند ہزاروں میں بیچ دیتا ہے ۔ جون 2017ء میں دی گئی درخواست جب پراسس میں نہ لائی گئی تو اس نے ہائیکورٹ ملتان بنچ میں رٹ پٹیشن دائر کی جس پر 15اگست 2017کو مسٹر جسٹس چوہدری مشتاق احمد نے ڈائریکٹر انٹی کرپشن کو تیس دن کے اندر فیصلہ کرنے کا حکم دیا ۔درخواست گزار محکمہ انسداد رشوت ستانی میں عدالتی حکم لے کر پہنچا تو ایک ڈپٹی ڈائریکٹر نے کہا کہ مذکورہ درخواست میں سے دو افسروں کا نام نکال دیں تو انکوائری کا آغاز کردینگے ۔مدعی کے انکار کے بعد معاملہ تحقیقاتی افسران کی سرد مہری کی نذر ہوگیا اور16ماہ گزر گئے مگر بات نہ سنی گئی کئی بار تو ایسا بھی ہواکہ درخواست گزار کو سارا سارا دن دفتر کے لان میں بٹھا یا گیا اور شام کو گھر بھیج دیا گیا 16ماہ تک مدعی کو صرف فون کال کے ذریعے طلب کیا گیا کوئی انکوائری نمبر دیا گیا اور نہ ہی نو ٹس بھیجا گیا ۔
وہ با لآخراپنا مدعا لے کر دوبارہ تو ہین عدالت کی رٹ پٹیشن کے ساتھ ہائیکورٹ پہنچا اور مسٹر جسٹس سردار نعیم صاحب نے کیس کی سماعت کی تو ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل نے تحریری رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں انہوں نے وہ انکوائری ڈراپ کرنے کی ’’خوشخبری‘‘ سنادی جو شروع ہی نہیں ہوئی تھی ۔ اس پر جبر یہ کہ مدائ کے خلاف جھوٹی درخواست دینے پردفعہ 182کی کارروائی کی سفارش بھی کردی۔
عدالت عالیہ کے فاضل جج کیلئے یہ حیران کن بات تھی کہ توہین عدالت کی رٹ دائر ہونے اور نوٹس کے اجرا کے بعد انکوائری ڈراپ کرکے عدالت کو چکما دینے کی کوشش کی گئی۔ محکمہ انسداد رشوت ستانی کے ریکارڈ میں مدعی کی طلبی کا کوئی ثبوت نہ تھا ، نوٹس وصولی یا انکوائری کے سرکاری کاغذات میں اس کی کوئی حاضری بھی نہیں تھی۔ فاضل جج جناب سردار نعیم صاحب نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انکوائری ڈراپ کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا اور 14جنوری کے لئے ڈپٹی ڈائریکٹر تحقیقات کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تو پھر محکمے میں ہلچل پیدا ہوئی ۔ تحقیقات دوبارہ شروع ہوگئی ۔ ساڑھے سولہ ماہ بعد تحریری نوٹس طلبی جس پر انکوائری نمبر509سال 2017 درج تھا مدعی کو بھیجا گیا۔
معلوم نہیں اب محکمہ انہار کے ان افسران سے طے ہونے والے معاملات محکمہ انٹی کرپشن کیسے سنبھالے گا .. یہ صرف محکمہ انسداد رشوت ستانی کا حال ہے اسی لئے پولیس ،صحت ، واپڈا اور دیگر ادارے قابو سے باہر آچکے ہیں کہ اگر ان کی بدعنوانی پر نظر رکھنے والے خود ہی رشوت پر لگے ہو ں تو پھر ہر شعبہ زندگی میں پیدا ہونے والا خلا اور اخلاقی قحط ہر تریاق سے ماورا ہوجاتا ہے۔
فیس بک کمینٹ