عمران خان کو ووٹوں سے اور کچھ ”نیک تمناﺅں“ سے وطن عزیز کے سب سے بڑے منصب پر بٹھانے والے نجانے کیوں حوصلے ہار بیٹھے ؟ ستارے اپنی چال بدلنے لگے تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوازشریف کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی ۔ خان صاحب کی دیانت پر علیمہ خان کا دھبہ بہت واضح نظر آنے لگا ۔ کل تک جو قصیدہ خواں تھے اب نوحہ خواں ہوئے ، تالیاں بجانے والے ہاتھ ماتم میں مصروف ہیں ، شکر کی جگہ شکایت نے لے لی نجانے کیوں؟ وزیر اعظم کو صرف ایک ہی موسم راس آیا ۔
عمران خان کی دیانت پر تو کسی دشمن کو بھی شبہ نہیں مگر تجربے کے بغیر کریانے کی دکان نہیں چلتی ، ملک چلانا تو بہت دور کی بات ہے ۔ اب تک کا ابتدائی سفر امید شکن اور تھکن سے بھرپور رہا ۔ ٹیم کے انتخاب میں بھی غلطیاں ہوئیں ، سند یافتہ فصلی بٹیرے اکٹھے کرکے خان صاحب کو عطا کردیے گئے ۔ نا اہلوں کا ایک ٹولہ جو بھانت بھانت کی بولیاں بولتا ہے انہیں غیر فطری طور پر یک مزاج کرنے کی کوشش بھی ناکام رہی ۔ ایسا بھی نہیں کہ عمران خان کے پاس کچھ قابل لوگ موجود نہیں ، اسمبلی میں ایک سے ایک سمجھ دار اور سیاسی بقراط موجود ہے مگر انہیں انہی کی قابلیت کے جرم میں سائیڈ لائن کردیا گیا کہ عمران خان کے لئے راستے ہموار کرنے والے اپنی ذاتی ٹیم کو تنہا کیسے چھوڑ سکتے تھے ؟ دیانتدار اور قابل سیاستدان خود اپنا دشمن ہوتا ہے اور ان کی قابلیت ہی انہیں ذمہ داریوں اور عہدوں سے دور رکھتی ہے کہ اگر وہ با اختیار ہوجائے تو پھر من مرضی کے سودے کرنے والے ناکام ہوتے ہیں۔ جس نے زندگی بھر اصولوں پر سمجھوتہ کیا ہو اور نہ کبھی مفادات کے لئے ضمیر بیچا ہو وہ ہمیشہ ”سیاسی وفاداری “کے کھیل میں بارہواں کھلاڑی ثابت ہوتا ہے اور یہی کچھ سید فخر امام کے ساتھ ہوا ۔
آزاد حیثیت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے سید فخر امام کی بدقسمتی کہ وہ حکومتی صفوں میں شامل ہوئے اور پھر اپنے اصولوں سمیت نظر انداز کردیے گئے ۔ عمران خان کے ویژن کے مطابق تو انہیں اپنی کابینہ کے لئے ایماندار اور بین الاقوامی امور پر مہارت رکھنے والے سیاستدان چاہیے تھے مگر بات وزیر اعظم عمران خان تک رہتی تو شاید ایسا ہی ہوتا ، اختیارات انہی کے پاس تھے جو خان صاحب کے لئے راستے کے کانٹے ہٹاتے رہے اور انہیں ان کی منزل تک لائے۔ وہ اپنی ٹیم ہر حکومت میں ایڈجسٹ کرنے کا عہد لیتے ہیں اور عہد توڑنے والے کو خادم رضوی ، نیب اور کرائے کے کئی مدعیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اکڑنے والے کی گردن کا سریا اس کے اصولوں سمیت ٹیڑھا کردیا جاتا ہے جس کی زندہ مثالیں جیلوں میں موجود ہیں ۔
اقتصادی افلاطون اور بیرونی دنیا کے معاملات کے ماہرین کو تو دیکھ لیا اب ذرا
فخر اما م کو بھی آزما لیں کہ اس وقت چند اصول پسند نام جو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ، وہ ان میں سے ایک ہیں ، بات ان کی پوری دنیا میں سنی جاتی ہے۔ سیاسی راہداریوں میں ان کے اصولوںکے ڈنکے ہیں ، کون ہے جو ضلعی چیئر مینی کا الیکشن ہار ے اور خود کو وفاقی وزارت سے الگ کرلے ؟ یہاں پر تو الزام ثابت ہونے کے بعد بھی مجرم عہدوں اور وزارتوں سے چمٹے رہتے ہیں ، مگر یہاں اہل اور قابل شخصیتوں سے زیادہ سیاسی طبلہ نوازوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر حکم پر سرتسلیم خم کریں اور اپنی عقل و دانش ، سوجھ بوجھ سے زیادہ غلاموں کی سی چستی سے تابعداری کرے ایسا نجانے کب ہوگا جب پارٹی لیڈر اپنے قد کاٹھ سے بڑی سیاسی قامت والے سیاستدان کو قبول بھی کریں گے اور برداشت بھی ۔
سید فخرامام قومی اسمبلی کے گیارہویں سپیکر بنے تو پارلیمانی اخلاقیات کو نئے روپ میں متعارف کرایا، حلقے کے عوام کو یہ شکوہ بدستور رہا کہ انہیں تھانوں کی سیاست میں سپورٹ کیا جاتا ہے اور نہ ہی علاقائی ”تمن داری“ میں ان کا ساتھ دیا جاتا ہے ۔ اسی جرم کی پاداش میں وہ تین بار مسلسل ہارتے رہے مگر اب وہ شائد اس لئے عمران خان سے جا ملے کہ مزاج ان کے اعلانات سے بہر حال ملتا جلتا تھا مگر عملی طور پر ہر بات مختلف تھی کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہی ڈی پی او پاکپتن کی چیف منسٹر کے پاس کھچائی ، وفاقی وزیر کی بھینس کہانی ، صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام ،طارق چیمہ کے ذریعے متنازع بنایا جانا ، مرغی اور انڈوں کا کاروبار ، کھٹارا کاروں کی نیلامی ،ایوان صدر کا عوام کے لئے کھلنا ، گورنر ہاﺅس لاہور کی دیواروں کی داستان کی کئی شعبدہ بازیاں نظر آئیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آئندہ ماہ پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہوئے عام تعطیل کا اعلان کردیا گیاہے اگر اب واقعی یہ مسئلہ حل کی طرف لے کر جانا ہے تو کشمیر کمیٹی سید فخر امام کے حوالے کی جائے کہ بات کرنے کا ہنر انہیں آتا ہے اور وہاں ان کی بات سنی بھی جاتی ہے جہاں یہ مسئلہ حل کرنے والے بیٹھتے ہیں۔ شائد یہ کریڈٹ اس حکومت کے نام ہوجائے کہ اور تو کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ فخر امام کو بھی اس کمیٹی کی چیئر مینی سے انکار نہیں کرنا چاہیے جس پر نوابزادہ نصراللہ جیسے قد آور سیاستدان خدمات انجام دے چکے ہیں۔
فیس بک کمینٹ