حکومت ملنے کے بعد نئے پاکستان والوں کو اندازہ ہوا کہ سیاست کا حسن تو اپوزیشن میں ہے۔ جب چاہا اور جہاں چاہا دھرنا دے دیا ، روڈ بلاک کردی، ٹرین مارچ شروع کردیا، احتجاجی ریلیاں نکال لیں اور جو منہ میں آیا بولتے چلے گئے مگر حکومت میں تو ایک ایک سانس کا حساب دینا پڑتا ہے ۔ایک ایک بات وزن رکھتی ہے اور بے بنیاد باتیں اپوزیشن میں رہ کر تو چل جاتی ہیں مگر حکومت میں رہ کر دلیل کے ساتھ ثابت کرنا پڑتا ہے یا پھر مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ اپوزیشن میں رہ کر آسان ہوتا ہے کہ آپ کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کریں ، گھر بانٹتے پھریں یا پھر سودن میں حالات کو یکسر بدل دینے پر بضد رہیں۔
اگر سنبھل کر بولا جاتا تو اطلاعات کی وزارت تبدیل ہوتی اور نہ ہی اختیارات کو گھر کی لونڈی سمجھ لینے والے وفاقی وزیر کو کمرہ عدالت میں رسوا ہونا پڑتا۔
حکومت بدلنے کے ساتھ ساتھ و ہ امیدیں بھی بدلنے لگیں ہیں جو عوام نے نئے آنے والوں کی کارکردگی سے وابستہ کرلی تھیں۔ ان اعلانات کو مذاق سمجھنے والے اقتدار ملنے کے بعد اس قدر بوکھلائے رہے کہ اسی بوکھلاہٹ میں سودن گزر گئے اور یہی سو دن بہت اہم تھے ۔ عوام بھی سو دن کے پروگرام کو سنجیدہ سمجھے ہوئے تھے مگر سب معمول کے مطابق ہونا تھا اور ہورہا ہے ۔ کام کرنے والوں کی انکوائریوں سے جیل تک کی کیٹ واک دراصل ایک اعلامیہ ہے کہ پاکستان میں جو کام کرے گا وہ پھر بھگتے گا۔ عوام میں مقبولیت کی سزا مرگ مفاجات سے بھی بڑھ کر ہے ، یقین نہ آئے تو ذوالفقار علی بھٹو کی کہانی کو از سر نو دیکھ لیں۔ جس طرح جمہوری سیاسی پارٹیوں میں معزز اراکین کا فرنٹ پچ پر نکل کر شارٹ کھیلنا قائدین کو قبول نہیں ہوتا اسی طرح اصل مقتدر طاقتیں بظاہر حکمرانی کی خلعت پہنے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کو من مرضی کے فیصلے کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی عوام میں مقبول ہونے دیتے ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بیماری کی حالت میں علاج کے لئے بیرون ملک بھجوانے کے بجائے زیارت بھجوا دیا گیا جہاں کوئی طبی سہولت کبھی موجود نہیں تھی ، کبھی کسی نے تحقیقات کا مطالبہ کیا کہ پاکستان کے مقبول گورنر جنرل کو زیارت بھجوانے والے کون تھے؟
کبھی کسی نے یہ مطالبہ بھی نہیں کیا کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی کس نے ماری؟ کس کے کہنے پر ماری؟
لفظ ”پاکستان “ کے خالق چوہدری رحمت علی کی میت کیوں پاکستان نہ لائی گئی؟
یہ بھی تو تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی بات تھی کہ محترمہ فاطمہ جناح کو گالیاں دلوانے کے پیچھے محرکات کون تھے؟ قائداعظم کی بہن اور اس کے دکھ سکھ کی ساتھی کو کیوں رسوا کیا گیا؟
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ صادر کرنے والے جج بھی ریٹائرمنٹ کے بعد تسلیم کرچکے کہ فیصلہ ہم نے دیا نہیں تھا دلوایا گیا تھا ۔ سوالات کے جواب ادھورے ہیں ۔
دن دہاڑے پاکستان کی مقبول لیڈر بے نظیر بھٹو کو گولی اور پھر دھماکہ کرنے والے کون تھے؟ کیا چاہتے تھے؟
اب بھی سمجھ نہ آئے تو جیلوں میں پڑی لیڈر شپ کی فائلیں نکال لیں آپ کے سامنے ایک بات کھل کر سامنے آئے گی کہ ”تخت یا تختہ“ والا اصول بلاخوف تردید لاگو ہے۔
عوام کی بات کرنے والوں پر زندگی کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ مقبولیت کی سند لینے والے غدار وطن قرار دے کر دھتکار دیے جاتے ہیں اور سوال و جواب کا سیشن تو یکسر قبول نہیں کیا جاتا ۔ ممکن ہے آج کے حکمران کل کے غدار ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آج عوام کو طاقتور بنانے کی بات کرنے والے کل اس قدر کمزور کردیے جائیں کہ لوگ عبرت پکڑیں۔ ۔۔۔
مگر سیاست میں عبرت پکڑنے کا دستور ہی نہیں ، کرسی کے کھیل ہی نرالے ہیں ۔ ”تخت یا تختہ “ کا کھیل جاری ہے۔ حکومت میں آکر پتہ چلتا ہے کہ جسے خوشی سے اپنے لئے چنا گیا ہے وہ تخت نہیں تختے پر لگا اقتدار کا بستر ہے۔
سیاست کا مزہ تو اپوزیشن میں رہ کر ہے جو چاہو جب چاہو بولتے چلے جاﺅ ورنہ حکومت میں تو ہر سانس کا حساب دینا پڑتا ہے۔
نوابزادہ نصراللہ اور قاضی حسین احمد اسی لئے بڑے سیاستدان تھے کہ ان کو کبھی حکومت نہیں ملی اگر وہ حکومت میں آگئے ہوتے تو ان کے ہاتھ پاﺅں باندھ کر کرسی اقتدار پر بٹھایا جاتا اور پھر اسی عوام کے ہاتھوں چور اور لٹیرے کہلوائے جاتے جس کے ووٹ سے انہیں اقتدار میں لایا گیا تھا۔
فیس بک کمینٹ