میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافے اورچھٹیوں کے سبب ملک بھر کے لوگ پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں ۔دوستوں ، بچوں ، اہل خانہ کے ساتھ دریاﺅں ، جھرنوں ، آبشاروں ، جھیلوں اور برف زاروں کی طرف جانے والے سیاحوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق خیبر پختونخواہ کی حدود میں داخل ہونے والے سیاحوں کی تعداد ، صرف عید کی چھٹیوں کے چار ایام میں 20لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو صرف نتھیا گلی ، ایبٹ آباد ، ناران ، کاغان، شوگران ، سوات ،چترال یا پھر کالام تک گئے ہیں۔
پاکستان کا شمال ان علاقوں سے ہٹ کر اور ذرا آگے کی طرف ہے ، پاکستان کے شمالی علاقہ جات خیبر پختونخواہ سے آگے ہیں اور پیشہ ور سیاح جو صرف چھٹیوں کے دوران ہی نہیں بلکہ سیاحت کےلئے نکلتے ہیں وہ شمال کے ان انگنت گلیشیئر ز ، میدان اور جھیلوں تک جاتے ہیں ۔ وہاں ہر سیاح نہیں جاسکتا ہے ۔ مجھے سفر نامہ نگار کی حیثیت سے لوگ شمال کا سفیر سمجھتے ہیں اور بار بار فون کرکے راستوں بارے معلومات لیتے ہیں اس لئے ان کی راہنمائی کیلئے میں تفصیل تحریر کئے دیتا ہوں کہ ناران سے آگے بلتستان کی طرف جانے والے راستے بابوسر ٹاپ سے ہو کر نکلتے ہیں ۔ بابوسر ٹاپ خیبر پختونخوا کی آخری چوکی یا چیک پوسٹ ہے ۔ اس کے بعد گلگت بلتستان شروع ہوجاتا ہے اور اب 10جون 2019 تک بابو سر ٹاپ کا راستہ بند ہے اور ابھی ایک ہفتہ مزید لگ سکتا ہے کہ گلیشیئرز ہٹانے کا کام جاری ہے۔بابو سر ٹاپ کا راستہ بند ہونے کی وجہ سے آپ دوسرا راستہ استعمال کرسکتے ہیں جو راولپنڈی سے بشام اور چلاس سے ہوکر آپ کو قراقرم کا مسافر بناتا ہوا گلگت کی طرف لے جائے گا مگر پھر بھی آپ نگر، ہنزہ ، عطا آباد جھیل ، شمشال ، سوست اور درہ خنجراب تک جاسکتے ہیں اور صرف قراقرم پر ہی جاسکتے ہیں کہ قراقر م سے اتر کر آپ شمشال کی بستی یا بتورا گلیشیئرز (جو قطبین کے بعد سب سے بڑا برفانی ذخیرہ ہے) نگر کی وادی میں سفید برف کا دیس ”راکا پوشی“ بھی آپ کو قریب نہیں آنے دے گی کہ ابھی برفیں پگھلنے کا موسم شروع ہورہا ہے۔
اسی طرح گلگت سے بہت پہلے رائے کوٹ پل جو دریائے سندھ کے اوپر معلق ہے وہاں سے جیپ لے کر فیری میڈوز تک جاسکتے ہیں مگر اس کے لئے آپ کو دو گھنٹے جیپ ، تین گھنٹے پیدل چلنا پڑے گا۔ پریوں کی چراگاہ تک جانا تو آسان ہے مگر نانگا پربت کو آپ فیری میڈوز میں بیٹھ کر ہی دیکھ سکتے ہیں ، قریب نہیں جاسکتے کیونکہ بیال کیمپ کا راستہ ابھی کھلا نہیں۔
اگر آپ جگلوٹ(جو قراقرم پر واقع ہے) وہاں رک جائیں تو دنیا کا ایک عجوبہ آپ کا منتظر ہوگا ، وہاں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے آپس میں ملتے دکھائی دینگے ۔ ہندو کش ، قراقرم اور ہمالیہ ایک ہی وقت میں تین مختلف سمتوں سے آپ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور تینوں کی شکل و صورت ، رنگت اور پتھروں کی بناوٹ الگ الگ ہوتی ہے۔
جگلوٹ کے قریب ہی ایک راستہ جو دریائے سندھ کی دوسری طرف لے جاتا ہے وہ سکردو کی وادی ہے جہاں راستے میں ” حراموش“ کی وادی بھی ہے ۔ ملک بھر میں صرف حراموش ہی ہے جو جدید دنیا سے الگ تھلگ ایک بستی ہے۔ اس وادی کی جھیلوں کو ابھی تک کسی نے میلا نہیں کیا اور اس کے پانی شفاف ہیں، فطرت اپنے اصل رنگ کے ساتھ موجود ہے۔
سکردو، اپر کچورا ، لوئر کچورا ، سد پارہ جیسی پاک جھیلوں کی وادی ہے اور شنگریلا کی سیر گاہ بھی تو کچورا جھیل کے پانیوں کے اطراف میں پھیلی ہوئی ایک مہنگی تفریح گا ہ ہے۔
پاکستان کا ایک انوکھا علاقہ دیوسائی، جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہموار میدان کی شکل میں موجود ہے اور برف پگھل جانے کے بعد وہاں ہزاروں رنگوں کے لاکھوں پھول کھلتے ہیں تو رنگ بول اٹھتے ہیں مگر ابھی آج کی بات ہے کہ دیو سائی میں برف کا لیپ چڑھا ہے ، اسے پگھلنے میں دو ہفتے مزید لگ سکتے ہیں۔ دیو سائی کی برف پگھل جانے کے بعد ایک خوبصورت جھیل جسے ”شیو سر“ کہتے ہیں نمودار ہوتی ہے۔ یہ وہی جھیل ہے جس میں نانگا پربت کا عکس تیرتا ہے اور اسی عکس میں برف کے گالے کھیلتے ہیں تو آپ قرآن مجید کی آیت کا ورد کرتے ہیں ” اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاﺅ گے“۔
سکردو میں ایک ٹھنڈا صحرا بھی تو ہے ، دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو تک جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ابھی راستے میں برف کی رکاوٹ موجود ہے۔
قراقرم پر سفر کرتے ہوئے ایک راستہ جو دریائے سندھ کے اس پار اترتا ہے وہ استورجانے والی پختہ سڑک ہے جو دریائے استور کے ساتھ ساتھ آپ کو استور شہر لے جاتی ہے اور استور سے آپ راما جھیل اور راما بستی تک جاتے ہیں یا پھر آپ ترشنگ جو پاکستان کا خوبصورت گاﺅں ہونے کا ٹائٹل بھی رکھتا ہے ، ترشنگ نانگا پربت کے برفانی وجود کے سامنے آباد ایک خوبصورت گاﺅں ہے ۔ روپل ،ٹاپ میدان اور لاتوبو کے راستے بھی ترشنگ سے ہوکر نکلتے ہیں۔ دومیل اور شونٹر کی وادیاں بھی انہی راستوں پر پوشیدہ ہیں مگر یہ راستے ابھی کھلنے میں دن لگتے ہیں کہ گلیشیئرز پگھلیں گے تو یہ گھونگھٹ اترے گا۔
سنو لیک، وادی بروغل ، ہیسپر گلیشیئر ز، براڈپیک، ہڈن پیک ، لیلیٰ پیک، پسو ، شگر ، ہوشے، مشہ بروم ، داسو، چلم چوکی ، کالا پانی، بڑا پانی ، رش لیک، نلتر ، یسین ویلی ، اشکومن اور ایسی بے شمار جھیلیں ابھی اپنے قریب آنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ جولائی کے پہلے ہفتے راستے کھل جائیں گے تو پھر شمال کی دلہن اپنا گھونگھٹ اتارے گی۔ تماش بینوں کےلئے مری اور ناران کے ہل اسٹیشن کھلے ہیں ۔ وہ وہاں جا کر ان کی لوٹ مار میں ان کا ہدف بن سکتے ہیں اور اگر آپ واقعی سیاحت کا شوق رکھتے ہیں تو پھر جون کے آخر تک انتظار کریں، اس سے آپ بہت کم بجٹ میں قدرت کے شاہکار دیکھ سکتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ