فیس بک کی دنیا بھی کتنی آسان دنیا ہے جس میں ایک الگ برادری ، انوکھی رشتہ داری اور اپنی مرضی کی روایات ہیں ۔ ”کتاب چہرے“ میں غیرت بھی اس قدر نہیں جاگتی جیسے محبوب کا خط پکڑے جانے سے جاگتی تھی ۔
ٹریفک کے سرخ اشارے پر گاڑی میں بیٹھی خاتون نے بھیک مانگنے والے فقیر کو غور سے دیکھا اور شیشہ نیچے کرکے بولی” آپ کو میں نے پہلے بھی دیکھا ہوا ہے“ فقیر نے برجستہ جواب دیا ” جی ہاں ہم فیس بک فرینڈ ہیں“۔
عام طور پر اجنبی یا غیر محرم مرد سے تعلق کا اظہار کسی خاتون کو غیر ت کے مقتل میں دھکیل سکتا ہے مگر فیس بک میں بھرپور دوستی بھی ”بس میرا فیس بک فرینڈ ہے“ کی ڈھال میں چھپ جاتی ہے۔ مرد اگر کسی عورت کے حسن کی تعریف کرے تو شاید سرعام جوتے کھائے مگر فیس بک کی ”دیوار“ پر لگی الٹرا ماڈرن تصویر کے نیچے ”Hot Pic“ کا بے ہودہ لفظ بھی نہ صرف قابل برداشت ہوتا ہے بلکہ روشن خیالی کے لبادے میں بد حال ہوئے جاتے مردوں کےلئے قابل فخر بھی، کہ تعریف کس کو بری لگتی ہے۔ کسی لڑکی کی طرف عاشق کا پیغام لے کر جانے والا قاصد پکڑا جائے تو جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتا تھا مگر اب فرینڈ ریکوئسٹ کی تعداد میں اضافہ خواتین کے لئے فخر کا باعث ہے۔
ایک زمانے میں کسی لڑکی کو آنکھ مارنا خاندانی دشمنیوں کو جنم دیتا تھا مگر اب فیس بک Messengerمیں نہ جانے کیسے کیسے اشارے صرف ایک ٹچ سے وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں سلام ، دعا اور ہوا بھی نہیں پہنچ سکتی تھی۔ پروین شاکر نے ایسے ہی دکھ کا اظہار کیا تھا:
میں کس کے ہاتھ بھیجوں اسے آج کی دعا
قاصد، ہوا ، ستارہ کوئی اس کے گھر نہ جائے
فیس بک میں وٹہ سٹہ بھی رواج بن چکا ہے کہ ہمیشہ اس کتاب چہرے کی پوسٹ کو پسند کیا جائے گا جو آپ کی پوسٹ کو لائک کرتا ہے اور اسے کمنٹ کیا جائے گا جو نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ لکھ دیتا ہے۔ پسند کیے جانے اور Commentکرنے کا انداز بھی وہی اپنایا جاتا ہے جو اس کے ساتھ اپنایا گیا تھا۔
اگر آپ کا فیس بک فرینڈ آپ سے مرتبے اور عہدے میں بڑا ہے تو وہ کبھی آپ کی پوسٹ کو لائک نہیں کرے گا مگر آپ پر لازم ہے کہ آپ اس کی ہر پوسٹ کو نہ صرف پسند کریں بلکہ Wow،Excellentیا ”کمال ہے کہ “جیسے الفاظ بھی نچھاور کردیں۔
اگر آپ کا باس آپ کی وال پر بھولے سے ہی کچھ لکھ دے تو آپ اس کا سکرین شاٹ بھی اپنی تاریخی دستاویزات کا حصہ بنالیں تاکہ ” سند رہے اور بوقت ضرورت کا م آوے“ مگر خیال رہے کہ اب حد سے تجاوز کرتے ہوئے جذباتی ہونا اور سچی بات کہنا آپ کےلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے کیونکہ سائبر کرائم ایکٹ لاگو ہوچکا ہے اور کئی کتابی چہرے پکڑے بھی جا چکے ہیں۔ فیس بک پر حکومتی وزراءاور سیاسی رہنماﺅں کے اکاﺅنٹس پر خوشامد کے موتی نچھاور نہ کیے جائیں تو بہتر ہے کیونکہ وہ اکاﺅنٹ ان کا وہ چمچہ چلا رہا ہوتا ہے جسے خود دیگ تک پہنچنے میں برسوں لگتے ہیں۔ فیس بک کا جہان آپ کی پرانی دوستیوں کو بھی تسلیم نہیں کرتا ۔ برسوں پرانے دوست کو بھی اگر آپ نے کتاب چہرہ دوست بنانا ہے تو تجدید عہد کیلئے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنی ضروری ہے جسے قبول ہے، قبول ہے ، قبول ہے کے بعد ہی شرفِ دوستی ملتا ہے۔ فیس بک کی سب سے بری بات کہ اس میں منافقت بہت ہے ۔ کسی مخالف کی پوسٹ پر بھی ایسے کمنٹس کیے جاتے ہیں جیسے اس پوسٹ کے بغیر آپ جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ عام زندگی میں ایک دوسرے کی شکل تک برداشت نہ کرنے والے کتابی چہرے فیس بک پر محبتوں کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ پر کوئی قدغن بھی نہیں کہ میرکا شعر غالب کے نام پر پوسٹ کردیں یا خود جملہ نما مصرع کہہ کے علامہ اقبال کے نا م سے منسوب کردیں لائک بھی آئیں گے اور واہ وا ہ بھی ہوگی۔
فیس بک کی دنیا میں جیسے دوستیاں ، دشمنیاں ، رواداریاں حقیقی دنیا سے ہٹ کر ہیں بالکل ایسے ہی اس کی لغت، شاعری کے اوزان، تاریخی واقعات اور اقوال زریں بھی الگ ہیں اور اکثر حقائق کے برعکس بھی، مگر ہم فیس بک پر انہیں غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ پوسٹ کرنے والا اپنا فیس بک فرینڈ جو ہے۔ اور یہاں ترک تعلق کرنے کے لئے بھی محنت کی ضرورت نہیں صرف Unfriendیا Blockپر کلک کرکے آپ کسی بھی دوست کو ساری زندگی کے لئے کتاب چہرے سے ہٹا سکتے ہیں۔ فیس بک کا بلاک کیا گیا دوست آپ کو کبھی کتابوں میں رکھے پھولوں کی طرح نہیں ملے گا۔
فیس بک کمینٹ