کچھ قصے وقت کی گرد میں گم ہوگئے ،ایسا لگتا ہے کہ داخل دفتر ہونے والے ان واقعات کو قصداً بھلا دیا گیامگر ایسا نہیں ہے۔جس کی جب جب ضرورت پڑے گی اسے رسوا کرنے کے لئے دھندلے ہوچکے حروف دوبارہ تازہ دم کرکے نئی روح پھونک دی جائے گی۔ جب کوئی کردار کا غازی بننے کی کوشش کرے گا اسے ماضی کی ایک جھلک دکھا کر اوقات یاد کرادی جائے گی مگر فی الحال جو ٹریک پر چلتا ہے ، ٹھیک چلتا ہے۔
ابھی تازہ واقعات میں جھنگ سے نو منتخب آزاد رکن اسمبلی لاہور کا رخ کرنے ہی والا تھا کہ اسے اس کے پیٹرول پمپس کے غیر قانونی ہونے کی دل دھک قسم کی خبر سنا کر موٹر وے پر یو ٹرن لینے پر مجبور کردیا گیا کیونکہ اس کے پمپس اور بلڈوزر کے درمیان فاصلہ صرف ایک سڑک کا رہ گیا تھا ۔ کسی منتخب آزاد نمائندے کے دادا نے اگر کوئی قتل وغیر ہ کردیا تھا تو وہ بھی داخل دفتر ہونے والی فائلوں سے نکال رکھا ہے اور انہیں دادا کے جرم کی سزا سے کون بچا سکتا ہے؟
تین مربع سرکاری اراضی الاٹ کرانے والا لیہ کا رکن اسمبلی بھی کس باغ کی مولی ہے جو اپنی مرضیاں کرتا پھرے۔ ماضی میں ایک ڈبہ پیک جمہوری اتحاد بنانے کے لئے مقدس ادارے سے رقم ہتھیانے والی موجودہ عہد کی سینئر سیاستدان بھی اپنی مرضی کرنے کے قابل نہیں کیونکہ غیر قانونی ٹریکٹر درآمد کرانے کی فائل اور بجلی چوری کے مقدمات کو دوبارہ زندہ ہوتے دیر نہیں لگتی ۔
اگر من مرضی کریں تو پنجاب بنک کو ہمیش خان کے ذریعے لوٹ کر کھا جانے والوں کی چوہدراہٹ بھی تو دم توڑ سکتی ہے ۔دوہری شہریت سمیت پاکستان کا بوجھ اٹھانے کے جھوٹے دعویدار بھی تو شیشے کے گھر میں بیٹھے ہیں۔
کسی کو صادق اور امین رکھنا ہے اور کب تک رکھنا ہے یہ فیصلہ کرنے والے بے خبر نہیں اور اب تو تینوں ستون ان کے اپنے ہاتھ میں ہیں اگر ضرورت پڑی تو اپنے ہی ہاتھوں سے تراشیدہ سنگ مرمر کے بت کو ناجائز بچی کے ہاتھوں پاش پاش کرنے میں بھلا کتنی دیر لگتی ہے ، کتنی دیر لگی ہے وہ بھی تو سب نے دیکھ لیا ہے۔
کوئی بھی ماورا نہیں ،ابھی کل کی بات ہے معزز ادارے کے سابق سربراہ کے غیر قانونی بیرون ملک نوکری کرنے پر بھی انگلی اٹھا دی گئی کیونکہ وہ فرماتے ہیں ” قانون تو سب کے لئے یکساں ہے“ تابعداری ایک الگ صفت ہے جو آپ کو استثنیٰ دلاتی ہے۔
پانامہ لیکس میں شریف خاندان کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی نام تھے خبر نہیں ان کا کیا بنا؟ ایک انتہائی صاحب میزان ادارے کے حاضر سروس ایماندار شخص کا نام بھی تھا مگر راوی خاموش ہے کیونکہ راوی کی اپنی فائلوں سے بھی گرد جھاڑی جاچکی ہے۔
وقت وقت کی بات ہے کہ ہم جسے چاہیں تقریروں پر جیل بھیج دیں ، زبان بندی کا حکم صاردر فرمادیں یا نااہل کردیں اور جسے چاہیں اس کی تقریر کوسیاسی بیان کا این او سی جاری کردیں۔
جس نے جو بویا ہے وہی کاٹے گا والا محاورہ صرف سیاستدانوں تک قابل عمل کیوں ہے؟چولستان کی زمینیں الاٹ کروا کے بیچنے والے، دوہری شہریت کے ساتھ افسری کرنے والے، پاک بھارت بارڈر پر زرعی زمینیں اپنے نام کرانے والے، دولت کو باہر منتقل کرکے وہاں جائیدادیں خریدنے والے اور وطن عزیز کی حساس تنصیبات کے واقفِ حال ہونے کے بعد غیر ممالک میں چاکری کرنے والے بھی کبھی کچھ کاٹیں گے؟ اور کب کاٹیں گے؟ جو انہوں نے بویا ہے۔
فیس بک کمینٹ