آج ہم اس نتیجہ پر پہنچ چکے کہ ہمارا برف کا کاروبار نہ چل سکے گا۔بائیس سال تک کی سوچ و بچار بے کار،تجربہ کار لوگوں سے مشاورت رائیگاں،علاقے کے ایس ایچ او سے یاری بھی فضول،کاروباری حاسدوں پر جھوٹے مقدمات بے نتیجہ،جیلوں میں دشمنوں کی سازشیں بھی بے فائدہ رہیں۔مقامی مدرسے کے مہتمم کے تعریفی خطبے بھی ہمارے کاروبار کو تقویت نہ دے سکے۔ہمارے ساتھ ہاتھ ہوگیا مگر وہ ہاتھ نجانے کن دستانوں میں چھپا ہے کہ ہاتھ نہیں آرہا۔
ہمارے خیرخواہ کہتے تھے کہ “تم نے بیرون ملک کے چھوٹے چھوٹے کاروبار دیکھے ہیں،یہاں کا موسم کچھ اور ہے، حالات کچھ مختلف ہیں،پیسہ تم سسرال سے لے آؤ،استعمال ہم کرینگے،پھر جب سے تم نے اپنے آبائی موضع میں ڈسپنسری بنوائی ہے لوگ تمہیں چندہ بھی تو دیتے ہیں،اس لئے چلے آؤ،کاروبار چلاتے ہیں، گلشن کا کاروبار، گرم مربوط اور مسلسل جھلسا دینے والے موسم میں برف کا کاروبار “۔
ہم نے بار ہا سوچا تھا کہ ہمارا برف کے کاروبار کا تو کوئی تجربہ ہی نہیں مگر خیر خواہ تسلی دیتے تھے کہ “کوئی بات نہیں ایس ایچ او اپنا ہے ان موسموں میں بھی برف بکوائے گا جب برف آسمانوں سے اترتی ہوگی، مخالفین کے کارخانے بند ہوجائینگے،بجلی مفت ہوگی،مزدوری کےلئے “نوجوان فورس” کام کرے گی سوشل میڈیا پر برف کے یوں اشتہار چلیں گے جیسے برف ہی ان کی زندگی کی ضامن ہے۔کسی دوسرے کارخانے سے برف لینے والوں کو غدار اور جہنمی تک ثابت کر دیں گے،مولوی صاحب برف کے خالص ہونے کے ثبوت میں آنکھوں سے برف کا نمکین عرق کشید کرینگے”۔
سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہوا،برف کے پھٹے جو گلی کوچے میں لگے تھے ، اٹھا دئیے گئے، ان کے نوکیلے سوئے انہی کی آنکھوں میں چبھو کر نابینا اور حافظ بنا دیا گیا، ان کو جیلوں میں پہلے ڈالا گیا مقدمات بعد میں بنے،ہمیں ایس ایچ او پر بھی بھروسہ نہ تھا کہ کہیں وہ دشمنوں کی باتوں میں نہ آ جائے، اس لئے ایس ایچ او پر مذہبی تلوار لٹکا دی،سوشل میڈیا کی فورس جب چاہے ایس ایچ او کو قادیانی ثابت کردے اور جب چاہے اسے خلافت عثمانیہ کی آخری نشانی قرار دے دے۔مگر یہ سب کچھ ہمارے برف کے کار خانے نہ چلا سکا۔موسم کی حدت بھی برف کی طلب میں اضافہ نہ کرسکی۔
ہم نے پانی کی طرح پیسہ بہایا ، ٹیکسوں میں چھوٹ لی، تین تین بجلی کنکشن لئے،نکاسی آب کی سہولت مفت کروالی،مخالف کارخانوں پر “نہری پانی والی برف” کا الزام لگا کر انہیں بند کروا ڈالا مگر ہماری برف نہ بک سکی۔ہم دشمن کارخانوں کے پیشہ ور ماہرین لے کر بھی ناکام ٹھہرے۔درباروں پر پھول نچھاور کرنے سے لے کر تسبیح کی نمائش تک ،کر کے دیکھ لی ہماری برف لوگوں کے سینوں میں لگی آگ کم نہ کرسکی۔ہمارے بلاک پھٹوں پر پڑے پڑے پانی پانی ہوتے رہے،ہماری بدنصیبی دیکھئیے کہ اب ایس ایچ او بھی آنکھیں پھیرتا نظر آتا ہے،مولوی صاحب جو محبت کے سفیر تھے ،صرف ہماری وجہ سے متنازعہ ہوچکے ہیں،آبی،خاکی،آتشی اور کالے علم کے سب گر ناکام ٹھہرے ہیں،موکل بھی ہماری مدد کو نہیں آتے،ہم نے اپنی برف بیچنے کےلئے تمام ٹی وی چینلز کو بھی استعمال کرکے دیکھا ہے مگر نتیجہ وہی نکلا جو پہلے سے دیکھ رہے تھے۔
ہمیں شک تھا کہ کچھ قلم اور زبان کے ماہر صحافی لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں تو اسی وہم کی بنیاد پر ہم نے انہیں “فکری حرام زادے” کا لقب عطا کردیا حالانکہ ماضی میں وہ ہمارے رفیق کار تھے۔ ہم اپنے سٹاف کو ناقص کارکردگی پر “ریڈ لیٹر”بھی جاری کرچکے مگر ان تمام کارروائیوں سے ہمیں کچھ فائدہ نہ ہوا، برف سرعام پانی پانی ہوتی رہی اور ہم چھوٹے چھوٹے یوٹرن لے کر بڑے بڑے فیصلے واپس لیتے رہے۔اب جب ہمارا کوئی دشمن نہیں بچا تو دل چاہتا ہے ایک ہی بار آخری یو ٹرن لے لیں، شوگر مل لگا کر کاروبار کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کر ڈالیں،مولوی صاحب اور ایس ایچ او کی بلیک میلنگ سے باہر نکل آئیں کیونکہ چھوٹی چھوٹی حمایتوں کے بدلے بڑے کام لیتے ہیں جن کا ہمیں تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا،پھر خیال آتا ہے کہ ان مزدوروں کا کیا مستقبل ہوگا جن کے روزگار کی قسمیں کھا کر انہیں کام پر لایا گیا تھا اب وہ کس منہ سے پرانے کارخانے میں واپس جائینگے ؟وہ کارخانے تو مدت ہوئی بند پڑے ہیں جن کے مالکان جیلوں میں ہیں۔اب برف کو پانی پانی ہوتے بھی نہیں دیکھا جاتا اور کاروبار چھوڑ کر بھاگا بھی نہیں جاتا۔
اور میں تو انور مسعود کا یہ شعر بھی کسی کو نہیں سنا سکتا
یہی انداز تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
فیس بک کمینٹ