اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فطرت پر انسان کو تشکیل دیا ہے۔ اور اللہ کا کلمہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور حُکم الٰہی کا دوسرا عنوان ”فطرت“ ہے۔ خالقِ فطرت نے اصولِ فطرت اتنے مُحکم اور پائیدار بنائے ہیں کہ جبرائیل اور اِسرافیل بھی انہیں پھلانگ نہیں پائے اور انسان بھی فطرت سے نہیں لڑ سکتا۔فطرتِ انسانی یہ ہے کہ وہ ابنِ آدم ہے اور آدم مِٹی سے ہی تھے۔ پچھلے دنوں اوپر تلے ایسی اموات ہوئی ہیں کہ خوفِ خدا سے سہم سا گیا ہوں۔ کسی کی کیا مجال کہ خدا کے شیڈول میں دَخل دے۔ بس بشری تقاضے کچھ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
شجاع آباد روڈ پر واقع وائٹ ہاﺅس نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں بڑی شہرت پائی۔ یہ پنجاب کے سابق گورنر اور وزیراعلیٰ نواب صادق حسین قریشی مرحوم کا مَسکن تھا۔ جناب بھٹو بطور وزیراعظم یہاں ایک ایک ہفتہ تک قیام کرتے تھے۔ اِن کے قیام کے دَوران اعلیٰ سطحی اجلاس ہوتے تھے۔ وفاقی کابینہ کی بیٹھک بھی لگ جاتی تھی۔ اِسی گھر میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو باہر سے بُلا کر اہم ذمہ داری دی گئی تھی۔ یہاں پر ہی جنرل ضیاءالحق کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اِسی گھر کے مکینوں، دیواروں، کمروں، ہالز، گراﺅنڈز اور پلاٹس نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ اِس گھر کی تاریخ اور واقعات کو قلم بند کرنے کےلئے پوری ایک کتاب تحریر کی جا سکتی ہے۔ نواب قریشی کی وفات کے بعد اولاد میں جائیداد تقسیم ہوئی اور یہ تاریخی گھر چھوٹے بیٹے نوابزادہ ریاض حسین قریشی کے حِصّے میں آ گیا۔ نواب قریشی کے بڑے صاحبزادے نوابزادہ عاشق حسین قریشی اور منجھلے بیٹے نوابزادہ مقبول حسین قریشی نے اپنے حِصّے کی زمینوں کو وقتاً فوقتاً فروخت کر دیا اور لاہور کے ہو کر رہ گئے جبکہ ریاض حسین قریشی نے وائٹ ہاﺅس کو آباد رکھا اور اپنے والد کا چراغ بُجھنے نہ دیا۔ انہوں نے بھی اپنی زمینیں فروخت کیں مگر ساتھ ساتھ خریدی بھی۔
نوابزادہ عاشق حسین قریشی گورنمنٹ ڈگری کالج بوسن روڈ میں میرے سینئر تھے۔ جنوں کی حد تک کرکٹ سے لگاﺅ تھا۔ رفاہی کاموں میں اِن کی دلچسپی تھی۔ فرانس کے اعزازی قونصلر بھی رہے، فوج میں بھی ملازمت کی۔ وزارت خارجہ میں بھی فرائض سرانجام دیئے۔ شوکت خانم ہسپتال کے قیام میں ان کی نمایاں خدمات ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ذاتی دوست تھے، ان کی جانب سے ملتان میں الیکشن بھی لڑا تھا۔ نفیس طبیعت کے اُجلے انسان تھے۔ بلاناغہ داتا دربار سلام کےلئے جاتے تھے۔ ویٹرن کرکٹ ٹیم بھی بنائی ہوئی تھی پچھلے دنوں ٹیم کو لے کر آسٹریلیا بھی گئے تھے۔ وہ آخری دَم تک کرکٹ اور گراﺅنڈ کے ساتھ وابستہ رہے۔
انتقال سے دو دِن پہلے اِن کی اہلیہ، عاشق قریشی صاحب اور راقم اِن کے علیل بھائی ریاض حسین قریشی کے کمرے میں موجود تھے۔ عاشق قریشی کمرے میں چہل قدمی کرتے ہوئے بیگم ثمینہ ریاض اور ریاض قریشی کے بیٹوں کو حوصلہ دِے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ریاض کو یہ دوائی دو۔ یہ خوراک دو۔ اِس طرح کرو۔ ایسے کرو۔ لیکن خُدا کو کچھ اور ہی منظور تھا اور میں سکتے میں آ گیا جب اِن کے گہرے دوست اور خالہ زاد بھائی وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے مجھے فون پر یہ بتایا کہ ”مرزا صاحب۔ ویری سیڈ نیوز ہے۔ نواب عاشق حسین قریشی دُنیا تُوں ٹُر گئے ہن۔ اچانک ہارٹ اٹیک تھے“ فوراً مرحوم کی رہائش گاہ اپرمال سکاچ روڈ پہنچا۔ جہاں عاشق حسین قریشی کی میت کو عادل ہسپتال کے سرد خانے مُنتقل کیا جا رہا تھا کیونکہ مرحوم کی دو بیٹیوں نے لندن اور عرب امارات سے آنا تھا۔ بسترِ مرگ پر کون تھا اور چلا کون گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے فیصلے ہیں۔ چھوٹے بھائی ریاض قریشی کو فوری طور پر نہیں بتایا گیا تھا کہ اِن کا بڑا بھائی اچانک چل بَسا ہے۔ ایک ہی شہر لاہور میں ہوتے ہوئے چھوٹا بھائی نہ اپنے بڑے بھائی کا آخری دیدار کر سکا اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھ سکا۔ جناح گراﺅنڈ کے پولو گراﺅنڈ میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور پھر پولو گراﺅنڈ سے ہی مخدوم شاہ محمود قریشی اور دیگر عزیز و اقارب میت لےکر ملتان روانہ ہو گئے جہاں حضرت بہاﺅالدین زکریاؒ کے قدموں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
کچھ ہی عرصہ قبل نواب صادق قریشی کی اکلوتی بیٹی شہناز بی بی بھی کینسر ایسے موذی مَرض میں مُبتلا ہوکر دُنیا سے چلی گئی تھیں۔ وہ سابق وفاقی وزیر زاہد حامد کی زوجہ تھیں۔ بہن کا غم تازہ تھا کہ بڑا بھائی کوچ کر گیا۔ اُس ماں کے دِل پر کیا گزرتی ہو گی جو اپنے بیٹے کا آخری دیدار نہ کر سکی۔ داستان الّم یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ ابھی پچھلے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ اوپر سے ایک اور جنازہ تیار ہو گیا۔ نواب صادق حسین قریشی کے چھوٹے اور لاڈلے صاحبزادے نوابزادہ ریاض حسین قریشی کو کبھی کبھار ناف کے نیچے دَرداُٹھتا تھا۔ ڈاکٹر غلام نبی عباس کی ہومیوپیتھک سے افاقہ ہو جاتا تھا۔ فروری کے شروع میں مشہد مقدس ایران گئے تو وہاں بھی اِن کو درد وغیرہ ہوا۔ کسی سیانے نے وہاں انہیں مشورہ دیا کہ پاکستان جا کر مکمل چیک اپ کرا لو۔ واپس لاہور پہنچے۔ اپنے ایکسرے وغیرہ کرائے تو معلوم ہوا کہ حضرتِ کینسر نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ریاض میاں نے شوکت خانم ہسپتال سے رابطہ کیا۔ 25 فروری آپریشن کی تاریخ طے ہو گئی۔ راقم نے ان کو روکا تھا۔ میجر جنرل آفتاب خان نے بھی انہیں ملائیشیا یا سنگا پور جانے کا مشورہ دیا تھا ۔اسلام آباد کے ڈاکٹر عمران اوپل نے بھی فوری طور پر آپریشن نہ کرانے کا کہا تھا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹروں نے آپریشن شروع کیا اور آپریشن کو نامکمل چھوڑ کر درمیان ہی میں روک دیا بس یہاں سے گڑ بڑ شروع ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چنگے بَھلے ریاض قریشی کمزور ہوتے چلے گئے۔ وزن کم کر گئے ڈرپس اور ادویات نے اِن کو گھیر لیا۔ فوراً اِن کو لندن لے جایا گیا۔ وہااں ڈاکٹروں نے تفصیلی معائنے کے بعد فرمایا کہ کامیابی کا چانس ففٹی ففٹی ہے۔ واپس پاکستان آ گئے اور یہاں ایک میجر جنرل ڈاکٹر نے علاج شروع کر دیا۔ حیران کن طور پر طبیعت سنبھلنا شروع ہو گئی اور اتنا سنبھل گئی کہ دوبارہ زیارت کرنے اور شکرانہ ادا کرنے کےلئے اپنی والدہ، اہلیہ، ڈاکٹر غلام نبی عباسی اور اپنے سٹیٹ منیجر سید پرویز شاہ کے ہمراہ مشہد مقدس چلے گئے۔ واپس آئے۔ بیماری کو Easy لے لیا۔ بس بہانہ بننا تھا۔ طبیعت دوبارہ بگڑنا شروع ہو گئی اور بگڑتی چلی گئی۔ ان کو زندگی کے آخری ایام میں نہ دن کو قرار تھا اور نہ رات کو سکون۔ ہنستا ہوا چہرہ مسکرانا بھول گیا تھا۔ پھر وہ ہو گیا کہ جس کا دِل کو دھڑکا لگا ہوا تھا۔ بہت ہی غیر معمولی انسان، محبِ وطن پاکستانی، بہت سارے قومی رازوں کا امین، بے شمار تاریخی واقعات کا عینی شاہد اِس دارِ فانی سے رُخصت ہو گیا۔
راقم کا قریشی خاندان سے بہت دیرینہ تعلق ہے۔ میرے والد مرحوم مرزا محمد سعید بیگ کو اِن کے دادا سینئر نواب عاشق حسین قریشی نے فوج میں بھرتی کرایا تھا۔ اور یہ بھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ جب لاہور میں نواب صادق حسین قریشی بستر مرگ پر تھے تو انہوں نے راقم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ریاض میاں کُوں لغاری صاحب (سردار فاروق احمد لغاری) دے حوالے کر ڈیو۔“ ہم اُس وقت بڑے نواب صاحب کی عیادت کےلئے اُن کے ہاں موجود تھے اور سردار لغاری نے نواب صاحب کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ آپ کو صحت عطا کرے۔ ریاض میرا بیٹا ہے۔ اور جب تک فاروق لغاری زندہ رہے تو اُن کا نوابزادہ ریاض حسین قریشی کے ساتھ بہت پیار رہا۔
نوابزادہ ریاض حسین قریشی کو بھی تعلقات اور دوستیاں نبھانے میں مہارت حاصل تھی۔ وائٹ ہاﺅس کی رونقوں کو انہوں نے بحال رکھا اور تواتر کے ساتھ ملتان آتے رہتے تھے۔ اِن میں اصلی اور خاندانی نوابی روایات پائی جاتی تھیں۔ طبیعت میں سادگی، مزاج میں درویشی اور سوچ میں فقری نمایاں تھی۔ وقت کی پابندی ان پر ختم تھی۔ ریاض قریشی کو دَستر خواں سجانے اور دوستوں کو کھانے پر مدعو کرنے کا بڑا شوق تھا۔ سو فیصد ملتانی تھے۔ مزاروں سے عقیدت اِن کی فطرت تھی صبح جلدی بیدار ہونا۔ ناشتہ کرنا۔ 11 بجے کافی کا کپ لینا۔ ڈیڑھ بجے دوپہر کا کھانا تناول کرنا۔ قیلولہ کرنا۔ چار بجے سہ پہر چائے کا کپ پینا۔ نو بجے رات ڈنر کر لینا ان کا معمول تھا۔ طویل رفاقت کے دوران راقم کو نہیں یاد کہ انہوں نے دوپہر کا کھانا یا ڈنر اکیلے کیا ہو۔ مجھے احساس ہے کہ میجر جنرل آفتاب خاں، سابق وفاقی وزیر رضا حیات ہراج، جہانگیر ترین، مخدوم شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر عمران اوپل، منیر رند، شوکت ایاز ٹھاکر، سید عرفان نقوی، برادرم طلعت خان، محمد میاں سومرو، چین والے ملک مہربان اعوان، راجہ مجاہد حسین آف بھمبر تراڑ، خالد بیگ، ڈاکٹر غلام نبی عباسی، اظہر قریشی، خواجہ محمد فاضل اور پرویز شاہ نوابزادہ ریاض کی کمی کو اپنی اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہوں گے۔ بہت ہی پیارا، بہت ہی سندر انسان اِس جہانِ فانی سے رخصت ہو کر ابدی دُنیا میں چلا گیا ہے۔ مگر ہماری زندگیوں میں بہت بڑا خلا چھوڑ گیا ہے۔ ایسے وضعدار، بے ضَرّر اور بے غرض دَوست اب خال خال ملتے ہیں۔ ہر سال محرم میں عزا داری کےلئے اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ یکم محرم سے تیرہ محرم تک وائٹ ہاﺅس میں قیام کرتے تھے۔ راقم کے ساتھ کئی عمرے اور حج کئے۔ نہ جانے نواب صادق حسین قریشی کی اولاد اور وائٹ ہاﺅس کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ اوپر تلے جنازے اُٹھے ہیں۔ وسیع و عریض وائٹ ہاﺅس سوگوار ہے۔ ان کے بڑے بیٹے حسن قریشی میں ملنے ملانے کا کرنٹ موجود ہے۔ کیا وہ نواب صادق حسین قریشی اور اپنے والد کا چراغ جلائے رکھیں گے۔ یہ انہوں نے سوچنا ہے اور اپنی ترجیحات کو ازسرِ نو طے کرنا ہے۔ کیونکہ اِن کی دستار بندی ہو چکی ہے اور دستار کے تقاضے اِس نوجوان نے پورے کرنے ہیں۔ اب ان کے والد کا چہلم ہو رہا ہے۔ وائٹ ہاﺅس اور دیگر برادران کی ذمہ داری ان پر آ پڑی ہے۔ ریاض قریشی مرحوم اور راقم کے ایک اور گہرے دوست مَردِ قلندر کرنل مَقصود گھمن کی اہلیہ بھی انہی دنوں کینسر کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار بیٹھیں۔ بھابھی مرحومہ بہت پاکباز خاتون تھیں۔ بہت سلیقہ مَند اور باصلاحیت تھیں۔ عجیب کھیل ہے قدرت کا کرنل گھمن نے نہ جانے کینسر کے کتنے ہی مریضوں کا روحانی علاج کیا ہے لیکن ان کی اپنی بیگم اِن کے سامنے روٹھ چلیں۔
اے میرے اللہ! ہم تیری چشم پوشی کے امیدوار ہیں۔ تیری صرفِ نظر کے طالب ہیں۔ تیری معاف کر دینے کی عادت کے منتظر ہیں اور تیری ڈھانپ دینے کی سُنت کے آرزومند ہیں۔
بھلا یہ کس انسان میں حوصلہ ہے خواہ وہ قطب ہوں یا ابدال، شمس العلماءہوں یا خطیب لاثانی، قائد جمہوریت ہوں یا رونق مَسندِ حکومت۔ کہ وہ منظر دیکھ پائے جب بڑے بڑے عالموں کے فلسفے رَد کئے جا رہے ہوں گے اور جب بڑے بڑے زبان دراز اور چرب زبانوں کی زبانوں کو داغا جا رہا ہو گاجب بڑے بڑے قائد انقلاب اپنا اپنا نقاب اُلٹے جانے کے انتظار میں کھڑے ہوں گے۔ اے اللہ میرا بھی بھرم رکھ لے۔ اے اللہ میرا بھرم رکھ لے۔
فیس بک کمینٹ