پشاور : سینئر صحافی اور ماہر افغان امور رحیم اللّٰہ یوسف زئی پشاور میں انتقال کرگئے۔ وہ طویل عرصے سے بیمار تھے۔اہلِ خانہ کے مطابق رحیم اللّٰہ یوسف زئی کی نماز جنازہ کل صبح 11 بجے خان ضمیر بانڈہ میں ادا کی جائے گی۔
10 ستمبر 1954 کو پیدا ہونے والے رحیم اللّٰہ یوسف زئی کو اسامہ بن لادن کے انٹرویو سے شہرت ملی۔رحیم اللّٰہ یوسف زئی ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے طالبان کی کارروائیاں رپورٹ کیں، وہ 1995ء میں افغانستان کے شہر بھی قندھار گئے۔ رحیم اللّٰہ یوسف زئی روزنامہ جنگ کے لیے بطور کالم نگار کام کرتے رہے، جبکہ انہوں نے ٹائم میگزین کے لیے بھی کام کیا۔ وہ بی بی سی اردو اور بی بی سی پشتو کے بھی نمائندے رہے۔ رحیم اللّٰہ یوسف زئی افغانستان، شمال مغربی پاکستان کے امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔انہیں صحافتی خدمات کے اعتراف میں 2004ء میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا جبکہ 2009 میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔وہ شفیق انسان تھے ایک مہربان استاد اور بہترین صحافی تھے، بی بی سی کے مطابق وہ افغان امور کے ماہر تھے اور ہر موضوع پر اتنی مہارت سے لکھتے کہ پڑھے والے ان کے گرویدہ ہو جاتے یہی وجہ تھی کہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر ان کی ماہرانہ گفتگو سے استفادہ کیا جاتا تھا۔
یہ کوئی اور نہیں سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی تھےجو اب ہم میں نہیں رہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی ایک لمبے عرصے تک بی بی سی اردو اور بی بی سی پشتو کے لیے کام کرتے رہے جبکہ وہ پشاور میں دی نیوز کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھے اور دیگر بین الاقوامی اخبارات اور جرائد کے لیے لکھا کرتے تھے۔رحیم اللہ یوسفزئی وہ واحد صحافی تھے جنھوں نے افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا محمد عمر کا انٹرویو کیا تھا۔ انھوں نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے ملاقات کی تھی جبکہ بیشتر افغان اور پاکستانی طالبان سے نہ صرف ملاقاتیں کر چکے تھے بلکہ ان کے انٹرویو بھی کیے تھے۔
رحیم اللہ یوسفزئی گذشتہ ایک سال سے علیل تھے اور ان کا علاج پشاور میں ہو رہا تھا۔ رحیم اللہ یوسفزئی کے بھتیجے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں کینسر تھا اور اس کا علاج ہو رہا تھا۔ آج جمعرات کو شام کے وقت ان کی وفات ہو گئی۔
انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ رحیم اللہ یوسفزئی کی نماز جنازہ کل جمعے کے روز صبح گیارہ بجے ان کے آبائی گاؤں کاٹلنگ ضلع مردان میں ادا کیا جائے گا۔رحیم اللہ یوسفزئی 1954 میں مردان شہر کے ایک گاؤں شموزئی میں پیدا ہوئے انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور اس کے بعد پشاور میں تعلیم کے لیے آئے تھے۔رحیم اللہ یوسفزئی ڈی جے سندھ سائنس کالج اور یونیورسٹی آف کراچی میں زیر تعلیم رہے تھے۔وہ محنتی اور نڈر صحافی تھے
وہ دفتر میں داخل ہوتے تو اخباروں کا پلندہ ان کے ہاتھ میں ہوتا، دفتر میں صرف کھانے کا وقفہ ہوتا اور پھر کام شروع ہو جاتا، وہ ہوتے اور ٹائپ رائئٹر کی ٹھک ٹھک، ایسا بھی ہوتا کہ وہ کام کرتے کرتے کرسی پر ہی سوجاتے تھے۔روزنامہ ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اسماعیل خان نے اپنی صحافت کا اغاز رحیم اللہ یوسفزئی کے ساتھ کیا ہے۔ اسماعیل خان نے بتایا کہ وہ جو کچھ بھی آج ہیں اس میں رحیم اللہ یوسفزئی کا ہاتھ ہے۔انھوں نے بتایا کہ ’جس عمارت میں ہمارا دفتر تھا اس کے اوپر اپارٹمنٹ میں رحیم اللہ یوسفزئی کی رہائش گاہ تھی، وہ جب دفتر آتے اپنے ساتھ اخبارات بھی لاتے اور پھر ان کا مطالعہ کرتے، وہ بہت محنت کرتے اور دن یا رات نہیں دیکھتے بس کام کیا کرتے تھے۔‘
رحیم اللہ یوسفزئی کے ساتھ متعدد صحافیوں نے کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا، ایسا بھی ہوتا کہ ان کے دفتر میں بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی صحافی موجود ہوتے تھے۔اسماعیل خان نے بتایا کہ ’رحیم اللہ یوسفزئی محنتی اور نڈر صحافی تھے ایسا وقت بھی تھا جب افغانستان میں جنگ جاری تھی اور رحیم اللہ یوسفزئی وہاں رپورٹنگ کے لیے گئے تھے تو کچھ مقامات پر وہ بمباری سے بال بال بچے تھے۔‘’یہ وہ دور تھا جب موبائل فون نہیں ہوتے تھے ، سیٹلائٹ فون آئے تھے، رحیم اللہ یوسفزئی جب سفر میں ہوتے یا جنگ کی رپورٹنگ کرتے تو ٹیلیفون پر لکھواتے اور میں لکھتا جاتا، میرے ایک ہاتھ میں فون ہوتا اور دوسرے میں کبھی پین جس سے لکھتا جاتا یا ، ٹائپ رائٹر پر ایک ہاتھ سے ٹائپنگ کرتا جاتا تھا، صبح وہ خبر پھر اخبار میں شائع ہوتی تھی۔‘
اسماعیل خان نے مزید بتایا کہ ’رحیم اللہ یوسفزئی رسک لیتے تھے، ایک مرتبہ جب اسامہ بن لادن کے انٹرویو کے لیے جا رہے تھے تو ہم نے دو راتیں راستے میں گزاری تھیں، بہت دشوار گزار راستہ تھا لیکن انھوں نے کسی خطرے کی پرواہ نہیں کی اور وہ انٹرویو کرکے آئے تھے۔‘
رحیم اللہ یوسفزئی ایک پروفیشنل صحافی تھے ان کی اپنی ایک سوچ تھی اور وہ متوازن صحافت کی داعی تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت ایک ادارے کی حیثیت رکھتی تھی ان سے لوگ سیکھتے تھے ان کی خبریں پڑھ کر بڑے بڑے صحافی رہنمائی حاصل کرتے تھے۔اسماعیل خان نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایک ساتھ اسلام آباد کے سفر کے دوران رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ ’اب صحافی معراج پر پہنچ گئے ہیں محنت نہیں کرتے جس سے دل خفا ہوتا ہے۔‘