راؤ خالدکالملکھاری

عید،سیاست اور عزت کی نوکری:رولا رپہ /راؤ خالد

بڑی عیدہمیشہ کی طرح اس بار بھی شورکوٹ شہر میں واقع اپنے آبائی گھر منائی۔ اس دورے کا حاصل گفتگو کچھ سرکاری ملازمین کی طرف سے نئی حکومت کے آنے کے بعد وہ تبصرہ تھا جو تبدیلی سے خوفزدہ کسی بھی شخص کا ہو سکتا ہے۔ دونوں چھوٹے بھائی کیونکہ سرکاری ملازم ہیں۔ انہوں نے اپنے ملنے والوں کے حوالے سے بتایا کہ زیادہ تر سرکاری ملازمین یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اگر عمران خان نے عزت سے نوکری کرنے دی تو کریں گے ورنہ ریٹائرمنٹ لے لیں گے۔عزت کی نوکری سے مراد یقینا سٹیٹس کو ہے۔ 2006ء میں والدہ محترمہ کی وفات کے بعد اب سال میں ایک بار ہی اپنے آبائی علاقے شورکوٹ جانا ہوتا ہے۔ وہ بھی بڑی عید پر۔مہاجر ہو کر پاکستان آنے کے بعد ہمارے بزرگ آباد تو خانیوال میں ہوئے لیکن ہمارے داداجان مرحوم اس وقت تحصیلدار تھے اور انکی نئے پاکستان میں پہلی پوسٹنگ شورکوٹ ہوئی ۔ والد محترم بھی ایمرسن کالج ملتان سے بی اے بی ٹی کرنے کے بعد 1951ء میں گورنمنٹ ہائی سکول میں وہیں تعینات ہوئے۔ لیکن شورکوٹ سے اس رشتے کا ہمیں پتہ 1970 ء میں چلا جب والد گرامی سترہویں گریڈ میں ترقی پا کر گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول شورکوٹ شہر تعینات ہوئے۔چودہ سال انہوں نے وہاں تعلیمی خدمات سر انجام دیں جس دوران ہم تمام بہن بھائی وہیں دل لگا بیٹھے ۔ اس بات کا احساس ہمیں اس وقت ہوا جب ریٹائرمنٹ کے قریب والد صاحب نے اپنا گھر بنانے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس وقت تک کسی شہر میں نہ کوئی پلاٹ وغیرہ تھا نہ ہی اس بارے میں اس سے پہلے کبھی سوچا گیا تھا۔ اگر والد بزرگوار کی کوئی خواہش تھی تو وہ اپنے بچوں کی بہتر سے بہتر تعلیم و تربیت۔ تعلیم کے معاملے میں ڈگری سے کم پر کوئی بات قابل قبول نہیں تھی۔ خیر انکی خواہش ہم تمام بہن، بھائیوں کی حد تک تقریباً پوری ہوئی لیکن ہماری عملی زندگی میں پوری طرح کارآمد ہونے سے پہلے ہی وہ رحلت فرما گئے۔انکی رحلت سے قبل جب اپنا گھر بنانے کے بارے میں بات چھڑی تو گھر میں اس بات پر اتفاق تھا کہ شورکوٹ شہر ہی آباد ہوا جائے کیونکہ بچوں سے لیکر والدین تک سب کا تعلق اور دوستیاں کسی بھی جگہ سے زیادہ شورکوٹ میں ہی تھیں۔ اس وقت والد صاحب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بہاولنگر تھے۔ انہوں نے اپنے پراویڈنٹ فنڈ کا کچھ حصہ نکلوا کر شورکوٹ میں ایک دوست سے پلاٹ خریدا اور طے یہ پایا کہ ہم پہلے شورکوٹ کرائے کے مکان میں شفٹ ہو جائیں اور والد صاحب کی ریٹائرمنٹ تک گھر کی تعمیر آہستہ آہستہ جاری رکھی جائے۔ نوکری مکمل ہونے کے بعد جیسے ہی انہیں سارے ریٹائرمنٹ کے مالی فوائد مل جائیں تو گھر مکمل کیا جائے۔بہرحال قدرت کو کچھ اور منظور تھا ، والد صاحب ریٹائرمنٹ سے دو ماہ قبل اللہ کو پیارے ہو گئے۔ہم شورکوٹ منتقل ہوچکے تھے انکی تدفین بھی شورکوٹ میں ہمارے مجوزہ گھر کے قریباً سو میٹر دور اور بالکل سامنے غازی پیر قبرستان میں ہوئی۔ یہ گھر توقع کے بر عکس بہت دیر بعد کئی مراحل میں مکمل ہوا جس میں ہاؤس بلڈنگ فنانس کا قرض اور دونوں چھوٹے بھائیوں کی کاوش شامل رہی۔ اگرچہ اسکی قابل رہائش تعمیر والدہ کی زندگی میں ہو گئی تھی اور وہ اپنے گھر میں رہنے لگی تھیں لیکن ایک آرکیٹیکچر دوست قاسم شاہ نے بہت محبت سے گھر کا دومنزلہ نقشہ بنایا تھا اسکی تکمیل والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد ہی ہو پائی بہرحال اب یہ گھررہائش، بناوٹ اور سہولتوں کے حوالے سے کسی بھی اسلام آباد کے اچھے گھرسے کم نہیں ہے۔لیکن گھر سے زیادہ اسکے مکین جن سے میرا خون کا رشتہ ہے انکی محبت ہے جو سال میں ایک بار تو جوابی اظہار کی متقاضی ہے۔دونوں چھوٹے بھا ئی اس آبائی گھر میں آباد ہیں۔ میرے سے چھوٹے بھائی ڈیرہ غازی خان میں نوکری کے سلسلے میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور انکی پوسٹنگ کی بدولت نقل و حمل جاری رہتی ہے۔ تین چھوٹی بہنوں میں سے دو خانیوال میں بیاہی ہوئی ہیں جبکہ ایک ملتان میں ہیں۔شورکوٹ سے ان تمام مقامات کا سفر ایک سے ڈھائی گھنٹے کا ہے اس لئے ہر سال تمام بہن بھائی اور انکے بچے اکثر شورکوٹ میں ہی اکٹھے ہو جاتے ہیں جو کہ اس بار بھی ہوا۔ ورنہ عید کا روز یہاں گزارنے کے بعد ہم تمام لوگ ملتان اور خانیوال ایک ایک دن کے لئے دورہ کرتے ہیں ۔گھر میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے میرے لئے یہ کبھی کبھی بہت بورنگ دورہ ہوتا ہے کہ سیاست کے موضوع کے علاوہ کوئی اور گفتگو بہت کم ہوتی ہے۔بھائیوں اور دوستوں کا خیال ہوتا ہے کہ بھائی خالد اسلام آباد نہ صرف رہتے ہیں بلکہ صحافی ہونے کے ناطے دوسروں سے زیادہ با خبر ہیں تو ان سے اندر کی خبر جانی جائے۔میں بھی بساط بھر انکو خبر اور تجزیہ دونوں پیش کرتا ہوں لیکن سیاسی سوجھ بوجھ کا جو لیول وہاں پایا جاتا ہے یہ بحث بہت سنجیدہ بھی ہو جاتی ہے۔ جس میں ایسے احباب بھی ہوتے ہیں جو بات عمران خان کے انتخاب سے شروع کریںگے اور چند منٹوں میں تمام متنازع موضوعات کو پھلانگتے ہوئے فتویٰ صادر فرما دیں گے کہ یہ حکومت نہیں چل سکتی۔اس بار سب سے زیادہ موضوع بحث تبدیلی ہی تھی۔ کیسے یہ تبدیلی آئے گی اور کیسے لوگ ہونے چاہئے جو واقعی عمران خان کے تبدیلی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں موئثر ثابت ہو سکتے ہیں۔اعتراضات بھی بہت تھے۔ جس میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب سب سے زیادہ موضوع بحث رہا۔اس موضوع پر میرے اور سب سے چھوٹے بھائی کے درمیان بہت گرما گرم بحث ہوئی۔ اسکا خیال تھا کہ یہ انتخاب درست نہیں ہے کسی بہتر شخص کو اس عہدے پر متعین ہونا چاہئے تھا۔ میں نے اپنی با خبری کا رعب جھاڑا کہ یہ ایک عارضی انتظام ہے جلد بہتر آدمی آ جائے گا۔ اور یہ کہ عمران خان کا اختیار ہے کہ وہ جس کو چاہے اس عہدے پر تعینات کرے۔ بھائی کا اصرار تھا کہ اسکا اختیار ضرور ہے لیکن اسکو بہتر شخص کے حق میں بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ میں نے بحث سے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ایک شخص جو بائیس سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد ملک کا وزیر اعظم بنا ہے اسکو سیاسی مشورہ دینا ایسا ہی ہے جیسے میں ورات کوہلی جو دنیا کا نمبر ون بلے باز ہے اسکوشارٹ کھیلنے کا طریقہ بتاؤں۔بہرحال اس قسم کی بہت سی دلچسپ گفتگو ہوتی رہی اور چھٹیاں ختم ہو گئیں۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker