راشد سیال کا شمار ملتان کے ان خطاطوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ملتان میں رہ کر اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرایا اور پھر دنیا بھر میں اس شہر کی پہچان بنے ۔ راشد سیال نے جس دور میں اس میدان میں قدم رکھا وہ فن خطاطی کے زوال کا دور تھا ۔ کمپیوٹر متعارف ہو چکا تھا اور کمپیوٹر نے جہاں طباعت کو آسان بنا دیا تھا وہیں اس کے نتیجے میں بہت سے خوش نویس اور خطاط بے روزگاری کا شکاربھی ہو گئے ۔ جو کام خوش نویس کرتے تھے وہ کمپیوٹر نے سنبھال لیا ۔ اخبارات میں خوش نویسوں اور خطاطوں کے دم قدم سے جو خوبصورتی اور تنوع ہوتا تھا وہ ختم ہو گیا اور سب اخبارات اور رسائل ایک ہی جیسے دکھائی دینے لگے ۔ خوش نویس اور خطاط اس صورتحال سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے اور ان میں سے بہت سوں نے اس فن کو ہی خیرباد کہہ دیا ۔ چند ایک ایسے تھے جنہوں نے قلم کے ذریعے کمپیوٹر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ان چند سر پھروں میں راشد سیال بھی شامل ہے ۔
راشد سیال نے اپنے دور کے بیشتر خوش نویسوں اور خطاطوں کی طرح اپنے فنی سفر کا آغاز اخبار سے ہی کیا ۔ یہ غالباً 1988 ءکی بات ہے ۔ اس دور میں ابھی تمام اخبارات کمپیوٹر پر منتقل نہیں ہوئے تھے ۔ میں نے پہلی بار راشد سیال کو روزنامہ ”قومی آواز“ کے دفتر میں دیکھا ۔ میں ان دنوں ”قومی آواز “ کے شعبہء ادارت سے منسلک تھا اور راشد سیال ہمارے اخبار کی شہ سرخی لکھا کرتا تھا ۔ انتہائی کم عمری میں اتنی نفاست اور اتنی خوبصورتی کہ اس کی لکھی ہوئی شہ سرخی سب کو اپنی جانب متوجہ کرتی تھی ۔ بس یوں لگتا تھا کہ کسی نے لفظوں کو موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پِرو دیا ہے۔ ایک تناسب کے ساتھ لکھی ہوئی اس کی شہ سرخی دور ہی سے بتاتی تھی کہ میں راشد سیال کے موئے قلم کا نتیجہ ہوں ۔ لیکن اخبار کے ساتھ اس کی رفاقت بس چند روزہ ہی تھی ۔ اس کے سامنے ایک کھلا جہان تھا ، وسیع آسمان تھا اور پرواز کے لیے وہ تازہ دم تھا ۔ سو اس نے پرواز ہی نہیں کی نئے جہانوں کو بھی دریافت کیا ۔ اخبار سے الگ ہونے کے بعد اس نے اس فن کے رموز میں مزید مہارت حاصل کی اورکچھ عرصہ بعد ہی معلوم ہوا کہ وہ کمپیوٹرکی دنیا سے وابستہ ہو گیا ہے ۔ خط ِراشد کمپیوٹر کا حصہ بن گیا ۔ یہ منزل اس نے بہت کم عمری میں حاصل کی ۔ یہاں تک راشد کا سفر محض ایک خوش نویس کے طور پر تھا ۔ خطاطی کا مرحلہ اس کے بعد آیا ۔ چند ہی برسوں بعد ملتان میں اس راشد سیال کا ظہور ہوا جو محض خوش نویس نہیں خطاط بن چکا تھا ۔ وہ خطاطی کی اس قدیم روایت کے ساتھ بھی جڑا ہوا تھا جو صدیوں سے مسلمانوں کا ورثہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے جدید اسالیب کو بھی اپنے فن کا حصہ بنا لیا ۔ وہ موتی جو پہلے صرف اخبار کی سرخیوں میں جڑے ہوتے تھے اب فن پاروں کی صورت میں آرٹ گیلریوں میں آویزاں ہونے لگے۔ اب وہ رنگوں سے بھی کھیلنے لگا تھا اور ان رنگوں نے اس کے فن پاروں کو چار چاند لگا دیے تھے ۔
ڈیزائننگ اس کی اگلی منزل تھی ۔
خطاطی کے بعد اس نے اس فن میں بھی مہارت حاصل کی۔ کتابوں کے وہ سرورق جو پہلے ہاتھ سے بنائے جاتے تھے اب کمپیوٹر کی مدد سے ڈیزائن ہو رہے تھے ۔ راشد سیال نے سرورق بھی ڈیزائن کرنا شروع کر دیے ۔ اور صرف ٹائٹل ہی ڈیزائن نہیں کیے اس بہانے اس نے اپنی خطاطی کو بھی کمپیوٹر کے ساتھ ہم آہنگ کرنا شروع کر دیا ۔ خطاطی جب کمپیوٹر کے ساتھ ہم آہنگ ہوئی تو قدیم و جدید کا وہ حسین امتزاج پیدا ہوا کہ جس نے فن کے ہر قدر دان کو اپنی جانب متوجہ کیا ۔ خوب سے خوب تر کی جستجو جاری رہی ۔
یہی جستجو اسے ٹائٹل ورک کی جانب لے گئی ۔ مساجد اور مزارات کے لیے ٹائلوں پر خطاطی پہلے ہاتھوں کے ذریعے کی جاتی تھی ۔ خطاط ٹائلوں پر خطاطی کرتے اور پھر مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد یہ ٹائلیں حتمی صورت اختیار کر لیتیں ۔ جدید دور نے اس کام کو بھی مشینوں پر منتقل کر دیا ۔ راشد سیال اس مرحلے پر بھی پیچھے نہ رہا ۔ اس کام کو بھی چیلنج سمجھ کر قبول کیا ۔ قلم نے جب کمپیوٹر کے ساتھ مقابلے کی ٹھان ہی لی تھی تو یہ مقابلہ اسے ہر سطح پر کرنا تھا اور اس نے بھرپور مقابلہ کیا ۔ راشد سیال کی سیماب صفت طبیعت اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتی ۔ خوب سے خوب تر کی جستجو اسے آگے لیے جا رہی ہے ۔ وہ ہر آن نئے جہانوں کی تلاش میں رہتا ہے ۔ ایک دریا عبور کرتا ہے تو اسے ایک اور دریا کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اسے بھی عبور کر لیتا ہے ۔ فن میں مہارت اپنی جگہ ، کمپیوٹر کاقلم کے ساتھ مقابلہ اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ راشد سیال مسلسل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ وہ اپنی ہی نہیں خطاطی کی بقا کی جنگ بھی لڑ رہا ہے ۔ اس کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہے جہاں فن کی کوئی قدر نہیں ہے ۔ راشد سیال اس شہر میں رہتا ہے جہاں علی اعجاز نظامی جیسا مصور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ میرے فن پارے میرے گھر میں دیمک کی نذر ہو رہے ہیں کوئی انہیں بے شک مفت لے جائے مگر میری برس ہا برس کی محنت کو کہیں محفوظ کر دے ۔ راشد سیال اس شہر میں رہتا ہے جہاں صادق شہزاد جیسا مجسمہ ساز کہتا تھا کہ اگر تم میرے مجسمے محفوظ نہیں کر سکتے تو میرے مرنے کے بعد انہیں میرے ساتھ ہی دفن کر دینا اور اسی شہر میں استاد جہانگیر بھی ہوتے تھے جو بہت بڑے مصور تھے مگر اپنا پیٹ بھرنے کے لیے انہیں سینما کے بورڈ بھی بنانا پڑے اور بہت کم اجرت پر بہت اعلیٰ تصاویر فروخت کرنا پڑیں ۔ سو اسی شہر میں راشد سیال زندہ ہے ۔ معاش کی فکر اور بقا کی جنگ کا یہ فائدہ تو ہوا کہ راشد سیال نے فن کی بہت سی جہتوں میں مہارت حاصل کر لی مگر اس کا ایک نقصان بھی تو ہوا ہے ۔ ممکن ہے آپ کو میری بات سے اختلاف ہو اور ممکن ہے راشد سیال بھی اس سے اتفاق نہ کرے ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر حالات ایسے ہوتے کہ راشد سیال کو یکسوئی کے ساتھ صرف فن خطاطی پر ہی توجہ دینے کا موقع ملتا ، اسے ڈیزائننگ اور دوسرے کاموں میں نہ الجھنا پڑتا تو خطاطی میں آج وہ جس مقام پر ہے شاید اس سے کہیں آگے ہوتا ۔ اس نے قلم کے ذریعے کمپیوٹر کو شکست دے دی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنا نقصان بھی تو بہت کیا ہے ۔
فیس بک کمینٹ