تو میں زندہ ہوں؟
ویرونیکا نے سوچا ۔
ہر شے اب نئے سرے سے شروع ہوگی۔ مجھے یہاں کچھ عرصہ رہنا ہوگا جب تک ان لوگوں کو احساس نہیں ہوتا کہ میں اب بالکل نارمل ہوں ۔ وہ پھر مجھے مینٹل ہسپتال سے جانے دیں گے اور میں ایک دفعہ پھر اپنے شہر کی گلیوں، اس کا مین سکوائر، پل، اور لوگوں کو جو کام پر آ جا رہے ہوں گے دیکھ سکوں گی۔ لوگ عموماً دوسروں کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ یہ محسوس کرسکیں کہ وہ دراصل بہتر لوگ ہیں ۔ وہ لابیری میں میری نوکری مجھے واپس کردیں گے۔ وقت کے ساتھ میں دوبارہ بار اور نائٹ کلب جانا شروع کر دوں گی۔ میں اپنی دوستوں سے ناانصافیوں اور دنیا کے مسائل پر گفتگو کروں گی۔ فلم دیکھنے جاؤں گی اور جھیل کے کنارے واک کروں گی۔
کیونکہ میں نے خودکشی کرنے کے لیے صرف نیند کی گولیاں لی تھیں لہٰذا میرا جسم تو کہیں سے نہیں بگڑا۔ میں ابھی نوجوان ہوں، خوبصورت ہوں، ذہین بھی ہوں اس لیے مجھے کوئی بوائے فرینڈ تلاش کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ مجھے کبھی بھی مشکل نہیں ہوئی۔ میں ان کے ساتھ ان کے گھر یا جنگل میں رومانس کروں گی، ہم دونوں کے پاس باتیں کرنے کو زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔ پھر وہ وقت آجائے گا جب ہم بہانے بنانا شروع کر دیں گے۔ لیٹ ہو رہے ہیں یا میں نے صبح جلدی اٹھنا ہے اور ہم جتنی جلدی ہوگا چلیں جائیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں مت دیکھیں۔ میں اپنے کرائے کے کمرے میں لوٹ جاؤں گی اور وہاں ٹی وی لگا لوں گی اور وہی پرانے پروگرام دیکھوں گی، سونے سے پہلے الارم کلارک لگا لوں گی تاکہ صبح اس وقت پر جاگ سکوں جس پر کل جاگی تھی اور پھر لائبریری جا کر وہی کام کروں گی جو میں کرتی آئی ہوں۔ تھیڑ کے سامنے پارک میں ایک بینچ پر دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر برگر کھاؤں گی۔ وہ لوگ جن کی آنکھیں خالی ہیں لیکن وہ ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے وہ بہت اہم معاملات پر غورو فکر فرما رہے ہوں۔ وہاں سے اٹھ کر میں اپنے کام پر جاؤں گی۔ وہاں جا کر گپ سنوں گی کہ کون کس کے ساتھ ڈیٹ پر جا رہا ہے، کس کو کیا مسئلہ چل رہا ہے، فلاں خاتون اپنے خاوند کی وجہ سے کیوں آنسو بہا رہی تھی اور میں یہ سوچ کر ہی مطمئن ہوں گی کہ چلیں میرے اس طرح کے کوئی مسائل نہیں ہیں۔ میں خوبصورت ہوں، میرے پاس نوکری ہے، میں جیسا بوائے فرینڈ چاہوں رکھ سکتی ہوں۔ دن کے اختتام پر میں بار چلی جاؤں گی اور پھر وہی روٹین۔
میری ماں جو اس وقت میری خودکشی کی اس کوشش سے یقیناً بہت پریشان ہو گی بہت جلد اس صدمے سے نکل آئے گی اور مجھ سے پوچھتی رہے گی کہ اب میں نے اپنی زندگی کا کیا سوچا ہے، میں دوسروں کی طرح کیوں نہیں ہوں، چیزیں اتنی مشکل بھی نہیں جتنی میں نے سوچ رکھی ہیں۔ میری طرف دیکھو۔ میری تمہارے باپ سے شادی کو برسوں گزر گئے ہیں اور میں نے کوشش کی کہ تمیں بہترین زندگی دوں۔ ایک دن میں اپنی ماں سے یہ سب باتیں بار بار سن کر تنگ آجاؤں گی اور اسے خوش کرنے کے لیے میں کسی ایسے نوجوان سے شادی کرلوں گی جس سے محبت کرنا میرے فرائض میں شامل ہو گا۔ ہم میاں بیوی مل کر اپنے مستقبل کا خواب دیکھیں گے، ایک خوبصورت گھر کا خواب، بچوں کا خواب، ہمارے بچوں کا مستقبل۔ ہم شادی کے پہلے سال بہت محبت کریں گے، دوسرے سال محبت کم ہونا شروع ہوگی، تیسرے سال شاید وقفہ بڑھتا ہے اور پھر یہ دورانیہ ایک ماہ تک چلا جائے گا۔ اس سے بری بات یہ ہوگی کہ ہم بمشکل ہی ایک دوسرے سے کوئی بات کریں گے۔ میں اپنے آپ کو مجبور کر کے یہ صورت حال قبول کروں گی۔ میں حیران ہوں گی کہ میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے کیونکہ میرا خاوند اب مجھ میں زیادہ دلچسی نہیں لیتا، مجھے نظرانداز کرتا ہے اور باتیں تو کرتا ہے لیکن صرف اپنے دوستوں کے ساتھ جیسے اس کی ساری دنیا اس کی دوست ہی ہو۔
جب ہماری شادی تقریباً ختم ہونے کے قریب پہنچے گی تو پتہ چلے گا میں بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ ہمارا بچہ پیدا ہو گا۔ کچھ وقت کے لیے میں اور میرا خاوند ایک دوسرے کے پھر قریب آئیں گے اور کچھ دن بعد وہی پرانی ڈگر۔ میں اس دوران موٹی ہونا شروع ہو جاؤں گی اور اس آنٹی کی طرح لگوں گی جس کا ذکر نرس کر رہی تھی۔ اور پھر میں ڈائیٹ شروع کردوں گی۔ ہر روز میں خود کو شکست خوردہ محسوس کروں گی، ہر ہفتے وزن چیک کروں گی جو میری تمام تر احتیاط کے باوجود بڑھ رہا ہو گا۔ اور پھر میں جادو کی وہ گولیاں کھانا شروع کر دوں گی جو آپ کو ڈپریشن سے دور رکھتی ہیں۔ پھر میرے کچھ اور بچے پیدا ہوں گے جنہوں نے ان راتوں کو پیٹ میں جنم لیا تھا جو راتیں بہت تیزی سے گزر جاتی ہیں۔ پھر میں سب کو بتاؤں گی کہ میرے زندہ رہنے کی وجہ میرے بچے ہیں جب کہ دراصل میری زندگی ہی میرے زندہ رہنے کی وجہ ہو گی۔ لوگ ہمیں ہمیشہ ایک خوش خوش میاں بیوی سمجھیں گے۔ کوئی یہ نہیں جان سکے گا کہ اس خوشی کی اوپری تہہ کے نیچے کتنی گہری تنہائی، اداسی، تلخیاں اور سمجھوتے چھپے ہوئے ہیں۔ اور پھر ایک دن جب میرا خاوند اپنی کسی دوست لڑکی کو گھر لے آئے گا تو میں اس پر پل پڑوں گی یا پھر میں دوبارہ خودکشی کی کوشش کروں گی۔ اس وقت تک میں اگرچہ ادھیڑ عمر ہو چکی ہوں گی اور بزدل بھی کیونکہ اس زندگی سے چھٹکارا پانے سے پہلے مجھے یہ خیالات بزدل بنا چکے ہوں گے کہ میرے دو تین بچوں کو میری ضرورت ہے اور میں نے انہیں بڑا کر کے دنیا میں جگہ تلاش کرنے میں مدد دینی ہے۔ تمام خاوندوں کی طرح، میرا خاوند بھی مجھے بتائے گا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔ اسے یہ ہلکا سا بھی خیال نہیں آئے گا کہ اگر میں نے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کر بھی لیا تو بھی زیادہ سے زیادہ میں اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤں گی اور باقی کی زندگی وہیں گزاروں گی اور روزانہ اپنی ماں کے طعنے سنوں گی کہ دیکھو میں نے کیسے اپنی زندگی برباد کر لی تھی ۔ اپنی خوشی خود ہی ختم کر دی تھی۔ ماں روزانہ بتائے گی کہ تمام تر خامیوں کے باوجود تمہارا خاوند کتنا اچھا انسان تھا اور میرے بچے ہماری علیحدگی سے صدمے کا شکار ہوں گے۔
دو تین برس بعد میرا خاوند کسی اور عورت کے ساتھ رومانس شروع کر دے گا۔ مجھے پتہ چل جائے گا کیونکہ میں نے انہیں اچانک خود ہی کہیں دیکھ لیا ہوگا یا پھر کسی نے مجھے ان کے بارے میں بتایا ہو گا ۔ لیکن اب کی دفعہ میں ایسے ظاہر کروں گی کہ مجھے کچھ پتہ نہیں۔ میں اپنی تمام تر توانائی اس بات پر خرچ کروں گی کِہ مجھے اپنے خاوند کی گرل فرینڈ کا کوئی علم نہیں ہے۔ میرے اندر لڑنے کی اور ہمت نہیں ۔ اپنی قسمت کے لکھے کو مان لوں گی۔ زندگی جیسے ہے ٹھیک ہے۔ زندگی ایسے نہیں تھی جیسے میں نے سوچا تھا۔ میری ماں ٹھیک کہتی تھی۔ میرا خاوند ایسی ادکاری کرتا رہے گا جیسے وہ میرا خیال رکھتا ہے۔ میں بھی لائبریری میں اپنی نوکری کرتی رہوں گی، تھیڑ کے سامنے واقع سکوائر میں بینچ پر بیٹھ کر برگر کھاتی رہوں گی اور وہ کتابیں پڑھتی رہوں گی جنہیں میں شروع تو کرتی ہوں لیکن ختم نہیں کر پاتی۔ گھر پہنچ کر وہی ٹی وی پروگرام دیکھتی ہوں جو ویسے ہیں جو دس برس، بیس برس اور پچاس برس پہلے تھے۔ علاوہ اس کے میں اپنے برگر کو ایک احساس جرم کے ساتھ کھاؤں گی کہ میں اسے کھا کر موٹی ہو رہی ہوں۔ میں بار میں جانا بند کر دوں گی کیونکہ میرا خاوند گھر پر میرا انتظارکر رہا ہو گا اور بچوں کا خیال کروں۔ اس کے بعد کی زندگی کیا ہو گی؟ بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار کروں اور سارا دن خودکشی کے بارے سوچتی رہوں لیکن اندر جرات نہیں ہو گی کہ کر سکوں۔ کسی سہانی صبح میں اس نتیجے پر پہنچ جاؤں گی تو یہ تھی زندگی ؟ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔ اس بارے میں اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں… اور میں اس حقیقت کو ہمیشہ کے لیے تسلیم کر لوں گی۔ اس نکتے پر پہنچ کر ویرونیکا نے اپنے آپ سے یہ سب گفتگو ختم کی اور ہسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے اس نے اپنے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ وہ اس ذہنی امراض کے ہسپتال سے زندہ باہر نہیں جائے گی ۔ بہتر ہے وہ اپنی زندگی ابھی ختم کر لے۔ سب کچھ ابھی ختم کر لے جب کہ ابھی وہ بہادر تھی اور اس میں اتنی ہمت بھی باقی تھی کہ وہ اپنے آپ کو مار سکتی تھی۔ ( یہ ترجمہ میں نے پاولو کولہو کے ناول Veronika Decides to die کے ایک باب سے کیا ہے۔)
(بشکریہ روزنامہ دنیا)