ایک روز عاصمہ جہانگیر چل بسیں، اسی دن قاضی واجد بھی رخصت ہوئے۔ عاصمہ عدالتوں اور عدلیہ کی راہ داریوں میں نام پاگئی تھیں، تمام بڑے لوگوں نے ان کا سوگ منایا۔ قاضی واجد گھروں میں اور دلوں میں بس گئے تھے، اپنے گوشے میں سر نیوڑھا کر ہم نے بھی ان کی آنکھوں سے ٹپکتی محبت کی یاد منالی۔بعض مرنے والے بہت دکھ دیتے ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ چلے گئے، بلکہ اس لئے کہ اپنے ساتھ اپنی خوبیاں بھی لے گئے۔ بزرگ انتقال کرتے ہیں اور بارہا اپنے اچھے برے دن دیکھنے کے بعد کرتے ہیں، ایسی صورت میں مجھے ان کی رحلت کا غم ضرور ہوتا ہے لیکن جو بات زیادہ جی کو دکھاتی ہے وہ یہ کہ ان کے ساتھ دنیا سے اور بھی بہت کچھ چلا جاتا ہے، شفقت، عنایت ،لحاظ،مروّت، رواداری ،خلوص اور سب سے بڑھ کر صداقت۔یہ سنہ بیاسی کی بات ہے کہ اورنگ آباد میں ہمارے بزرگ شاعر سکندر علی وجد نے مجھے اپنا وہ سادہ سا شعر سنا یا جو بعد میں ہر ایک نے پڑھا:
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
اس پر میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ خوش قسمت ہیں وہ مرنے والے جو اپنی خوبیوں کی بنا پر یاد رکھے جاتے ہیں۔ ایسے موقع پر خیال ہوتا ہے ہر شخص خوبیوں کا مرقع تو نہیں ہوا کرتا۔ ہر ایک کی ذات میں کہیں نہ کہیں تھوڑا بہت پھیر ہوتا ہے۔ہم ایسے لوگوں کو اختلافی کہہ سکتے ہیں۔مگر ایک طرح سے د یکھئے تو انسان کا اختلافی ہونا عیب میں شمار نہیں ہوتا۔ اب آپ عالم بالا سے پہلے اسی دھرتی کا میزان نکال کر کسی کی خوبیوں اور خرابیوں کی ناپ تول شروع کردیں، یہ مناسب نہیں۔ یہاں کے ترازو میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ پلڑے کا جھکاؤ کدھر ہے، یہاں کا ترازو وزن کرنے والے کے اپنے جھکاؤ کا تابع ہوتا ہے۔اختلافی لوگوں کے بارے میں یہ طے ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانے زیرِبحث آتے ہیں اور موقع بے موقع موضوعِ گفتگو بنتے ہیں۔ ان پر کبھی تعریف و توصیف کی بوچھاڑ ہوتی ہے تو کبھی غیبت کے جھکّڑوں کی زد میں آتے ہیں۔ہمارے معمول کے برعکس ایک اچھا چلن یہ ہے کہ مرنے والے کے خلاف کچھ کہنے یا لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر یہ چلن ذرا بھی قابل ستائش نہیں کہ اس کے لئے کلمہء خیر اداکرنے کے لئے اس کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر جلسے بھی ہوتے ہیں، تعزیتی کبھی ماتمی۔ کیسا کیسا خراجِ تحسین ادا کیا جاتا ہے۔چونکہ وہ خود موجود نہیں ہوتا اس لئے جہاں داؤ لگے اس کی شان میں مبالغے سے بھی کام لے لیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، مرحوم کی ہر برسی پرآنکھ بچا کر اس مبالغے میں ذرا سا نمک بڑھا تے جاتے ہیں۔میں نے ہرایک کو یہ کہتے سنا ہے کہ اکابرین کے جیتے جی ان کو سامنے بٹھا کر کلماتِ تحسین ادا کرنے چاہئیں۔ان کا یہ حق ہے جو ان کی زندگی میں ادا کرنا چاہئے۔ایسا کہتے ہیں مگر کرتے نہیں۔نام لینے پر آجاؤں تو یہ فہرست تکمیل کا نام نہ لے۔
اب بات ہے حال ہی میں چل بسنے والوں کی۔ ہمارے بے مثال شاعر رسا چغتائی گئے، جاہ و جلال والے ساقی فاروقی دا غ دے گئے۔ ابھی ان کا خیال دل و دماغ میں دھوئیں کی طرح پیچ کھا رہا تھا کہ قاضی واجد جیسا ہمارے ڈرامے اور اسٹیج کا روشن چراغ ٹمٹمایا بھی نہیں،یک لخت بجھ گیا۔پھر وہ ہوا جو ہمارے اخباری پیشے میں نہایت نا پسندیدہ اصول رائج ہے کہ ہر بڑی خبر چھوٹی خبروں کو کھا جاتی ہے۔ اُسی دوپہر عاصمہ جہانگیر اچھی بھلی تھیں کہ دل نے اگلی حرکت ایسی موقوف کی کہ ہر کمرہ عدالت کو جیسے چپ لگ گئی۔ وہ بہت بڑی قانون داں نہیں، سب سے بڑھ کردرد مند اور مظلوم دوست تھیں۔کتنی ہی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔
ہم نے دیکھا کہ ڈراما کے نام پر زندگی کی حقیقی کہانیاں کہہ سنانے والے قاضی واجد نے خود اپنی کہانی پر آخری پردہ گرادیا۔ ایک داستان جو اچھی بھلی جاری تھی، یوں رُکی کہ اب ذہن میں ایک ہر لمحہ مسکراتاچہرہ رہ گیا کہ جب بھی ملتا،یہی کہتا محسوس ہوتا کہ آپ مجھے خوب یاد ہیں۔ تھیٹر میں آپ کے قہقہے میں بھلا کیونکر بھول سکتا ہوں۔قاضی واجد خلوص کا مجسمہ تھے، چلتا پھرتا، سانس لیتا۔ یہ ضرور ہوا کہ معاشرے نے اپنی ترجیحات میں انہیں ذرا پیچھے رکھا کہ اداکار کو ہم اس سے اونچا مقام دینے کے قائل نہیں۔ہم وہ کہ اپنی زندگی میں کتنے ہی فلم، ٹی وی اور تھیٹر کے اداکاروں کو ملکہء برطانیہ سے مملکت کے بڑے بڑے اعزاز لیتے دیکھنے کے عادی تھے۔ چلئے، اور جیئے تو اس اپنے چلن کے عادی بھی ہو جائیں گے۔
مغرب والے بھی خوب ہیں۔مرنے والے کا سوگ نہیں مناتے، اس کی زندگی کی کامیابیاں اور کامرانیاں مناتے ہیں۔ کسی شام کہیں اکٹھے ہو کر اس کی یاد میں جام اٹھاتے ہیں، سارے دوست ، احباب، مدّاح اور ہم نوا ، ہم رکاب لوگ دو دو جملوں میں اپنی کیفیت کا خراج پیش کرکے بیٹھ رہتے ہیں۔ ہماری طرح لمبے چوڑے عالمانہ مقالے نہیں پڑھتے،دوستی او رمراسم کی قدامت پر زور نہیں دیتے۔ جو چل بسے ان کی دوچار خوبیوں کو یوں بیان کرتے ہیں کہ اس کے گزرجانے کا افسوس نہیں ہوتا بلکہ یہی خیال ہوتا ہے کہ جیسا بھی تھا، یاد رہے گا۔
ہم لوگوں کا موت کے بارے میں عجب روّیہ ہے۔ صبح شام سنتے رہتے ہیں کہ موت کو نہ بھولو، سب کو آنی ہے ،موت سے کس کو رُستگاری ہے، ایک دن معین ہے، ہر نفس کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کتنا زور ہے موت پر۔ کیسا اچھا ہو کہ لوگ جینے کی بات کریں۔ زندگی کو موضوع بنائیں۔ انگریزی میں زمانہ حال کو present پریزنٹ کہتے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تحفے کو بھی پریزنٹ ہی کہتے ہیں۔کیوں نہ یوں کریں کہ اپنے آج کو قدرت کا دیا ہوا تحفہ مان لیں۔ اس کی قدر کریں۔یہ الگ بات ہے کہ قدرت نے جس روز ہمیں پہلے پہل چراغ جلا نے کا گُر سکھایا تھا، اسی رو ز ہوا کا پہلا جھونکا بھی چلا تھا۔
(بشکریہ : روزنامہ جنگ)