پاکستان کے ایک دور دراز گوشے میں کتنا بڑا کارنامہ سرانجام پایا، اہلِ پاکستان کو پوری طرح خبر بھی نہیں۔ سندھ کے ویران اور اجاڑ پڑے ہوئے علاقے تھرپارکر میں پہاڑ جیسا بجلی گھر جاگ اٹھا اور بے پناہ برقی قوت بنا کر پورے ملک میں پھیلانے لگا، لوگوں کو ابھی اس کرشمہ سازی کا اندازہ نہیں۔ اس بے آب وگیاہ سرزمین کی طرف تو کسی کا آنا جانا بھی نہ تھا لیکن تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں، کچھ تھے ایسے دیوانے جو علاقے کی خاک سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس مٹی کی تہہ میں کیسے خزانے روپوش ہیں۔ آگے چل کر بیان کروں گا کہ وہ کون لوگ تھے جن کی نگاہ زمین میں دفن خزانوں کو تاڑ لیتی ہے۔ یہاں اتنا بتانا کافی ہے کہ ان لوگوں نے پورے یقین کے ساتھ اعلان کیا کہ تھرپارکر کے سینے میں کوئلے کا سعودی عرب اور عراق کے تیل کے مجموعی ذخیرے سے بھی بڑا ذخیرہ پوشیدہ ہے۔ پاکستان بہت خوش نصیب ہے کہ تھرپارکر کی زمین میں کوئلے کا پوری دنیا کا ساتواں سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ جس کا مجموعی وزن ایک سو پچھتّر ارب ٹن ہے اور جس سے تین سو سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ آج کوئلے کی اسی کان کے اوپر بہت بڑا پاور پلانٹ یا بجلی گھر کھڑا ہے اور ابھی اس کے دو میں سے ایک یونٹ نے کام شروع کیا ہے جس سے تین سو تیس میگاواٹ بجلی پیدا ہونے لگی ہے اور جب دوسرا یونٹ بھی چل پڑے گا تو یہاں سے پورے ملک کو چھ سو ساٹھ میگا واٹ توانائی حاصل ہو گی۔
میں خود کو خوش نصیب جانتا ہوں کہ ابھی نومبر کے آخر اور دسمبر کے شروع میں مجھے تھرپارکر جانے کا موقع ملا، جس کے بلاک 2میں کوئلے کی کان کھود کر پہاڑ جتنی مٹی نکال کر ایک طرف محفوظ کر دی گئی ہے۔ جیسے جیسے کان آگے بڑھتی جائے گی، اس کو دوبارہ بند کرتے جائیں گے اور وہ بھی اس صفائی سے کہ پتا بھی نہیں چلے گا کہ یہاں کتنی بھاری بھرکم کھدائی ہو چکی ہے۔ میں گیا تو پہلی بار پاکستانی اور چینی ماہروں اور انجینئروں کو شانہ بشانہ کام کرتے دیکھا۔ چینی تو کام کے معاملے میں بھوت ہیں، جس کام پر جُٹ جائیں اسے پورا کر کے چھوڑتے ہیں۔ کئی پاکستانیوں نے چینی زبان سیکھ لی ہے۔ ان کی مدد سے دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھ لیتے ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ منصوبہ چین پاک اقتصادی راہداری ہی کا ایک حصہ ہے، جس میں حکومتِ سندھ شریک ہے۔ اِس خواب کو حقیقت کی شکل دینے میں ای پی ٹی ایل (اینگرو پاور جین تھر لمیٹڈ) کا ہاتھ ہے جس نے پچھلے دنوں پلانٹ کو آزمایا اور حرکت میں لاکر پورے ملک کے برقی نظام میں شامل کردیا۔ ہم نے تصویروں میں دیکھا کہ پلانٹ کی تعمیر میں مشقت کرنے والے عملے نے اسی لمحے جشن منایا، مٹھائی کھائی اور ایک دوسر ے کو مبارکباد دی لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس طرح کے اداروں کی پشت پر کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں جنہیں ادارو ں کے روح رواں کہا جا سکتا ہے۔ اُن کے کارناموں کی تشہیر کے وقت اُن افراد کے سر سہرا باندھا جانا چاہئے۔ جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ادارے کے سربراہ شمس الدین شیخ کی شخصیت نے اپنی مقبولیت سے سارا نظام اس سرگرمی سے چلایا کہ پوری مہم پر ایک خوش گوار سحر سا طاری تھا اور ادارے کا اتنا بڑا عملہ ان کی شخصیت سے حوصلہ پا رہا تھا۔ جس وقت یہ سارا منصوبہ مکمل ہوا ہی چاہتا تھا، عین اس وقت خدا جانے کیا ہوا کہ شمس الدین شیخ صاحب اپنے منصب سے دستبردار ہو گئے اور میں نے دیکھا کہ ان کے مداحوں کو ایک صدمے سے گزرنا پڑا۔ ہم ادارے کے اندر کے معاملات کی تفصیل میں نہیں جائیں گے اور یہاں ایک اور شخصیت کو سلامِ عقیدت پیش کریں گے کہ اس کی صلاحیتوں اور کام کی لگن کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ وہ تھے علم معدنیات کے ماہر بشیر احمد انصاری جو سندھ کول اتھارٹی کے سربراہ تھے اور انہیں یہ کمال حاصل تھا کہ زمین کی سطح ہی دیکھ کر جان لیتے تھے کہ اس میں قدرت نے کیسے خزانے چھپائے ہیں۔ ان کے سر میں دھن سمائی تھی کہ تھرپارکر کی زمین صرف دیکھنے میں بنجر اور اجاڑ ہے، اس کا سینہ چیرا جائے تو توانائی دل کی طرح دھڑکتی ملے گی۔ شاید دوسرے لوگ متفق نہ تھے، انہوں نے اپنے خرچ سے تھرپارکر میں کھدائی شروع کرا دی۔ گہرائی سے نکلنے والی مٹی گواہی دے رہی تھی کہ یہیں کوئلے کے ذخیرے دفن ہیں۔ انصاری صاحب کو اتنا یقین ہوا کہ انہوں نے اپریل 2002میں وہاں آٹھ فٹ قطر کے کنویں کی کھدائی شروع کرا دی تاکہ دنیا کو کوئلے کی پہلی پرت دکھا دیں۔ کھدائی شروع ہو گئی۔ تھرپارکر کے باشندوں کی آنکھوں میں امید کے دیے روشن ہونے لگے۔ ان کے مزدور ایک سو اکیس میٹر کی گہرائی تک پہنچے تھے زیر زمین پانی کا ذخیرہ پھٹ پڑا اور کنویں کا نچلا حصہ بیٹھ گیا ۔اس کا انصاری صاحب کو اتنا صدمہ ہوا کہ ان کی حرکت قلب بند ہوئی اور وہ چل بسے۔ مگر کوئلے کے بے حد بڑے ذخیرے کی اتنی شہادتیں مل چکی تھیں کہ پاکستان نے دنیا میں کوئلے کے ساتویں سب سے بڑے ذخیرے کو دن کا اجالا دکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں اس روز وہاں گیا تو ایک پارک پر ’انصاری پارک‘ لکھا نظر آیا۔ پارک میں گیا تو وہاں مرحوم کی بڑی سی تصویر بھی دیکھی۔ اس تصویر کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں انصاری مرحوم کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی، فاتحانہ سی۔ کیوں نہ ہوتی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ